پروفیسر اسلم جمشید پوری
آج کے ترقی یا فتہ زمانے میںکوئی مصنف کی نہیں سنتا۔بے چارہ کتاب لکھ کر ادھر ادھر بھٹکتا رہتا ہے ۔ کتاب میں اس نے کیا لکھا ہے یہ کسی کو دیکھنے کی فرصت ہے نہ ضرورت۔انگریزی کی حالت تو قدرے بہتر ہے ،کچھ حد تک ہندی میں بھی صورت ِ حال ٹھیک ہے ۔لیکن دوسری زبانوں خاص کر اردو کی صورت ِ حال مضحکہ خیز ہے ۔
اردو میں بے چارے مصنف کو سب سے گرا پڑا اور بے کار شخص سمجھا جا تا ہے ۔اردو کے اکثررسالے والے تخلیق کار کو کوئی معاوضہ نہیں دیتے ۔الٹے آج کل تو رسالے والے تعاون کے نام پر تخلیق کے پیسے بھی لیتے ہیں۔غزل ،کہانی ،تنقیدی مضمون ،انشائیہ، وغیرہ کے لئے بہت رسالے والے پیسے دینے کے بجائے ،پیسے لیتے ہیں۔گوشہ اور نمبر نکالنا تو آج کل تجارت بن گیا ہے ۔بہت سے رسالے والے اسی پر زندہ ہیں۔ایک ایک گو شے کے بہت سے رسالے والے پندرہ سے بیس ہزار تک چارج کرتے ہیں۔ غیر ملکی مصنفین سے تو رقم میں کئی گنا اضافہ ہو جاتا ہے۔ اللہ جنت نصیب کرے ماہنامہ ’’ شاعر‘‘ کے ذمہ داروں کو کہ وہ اس کام میںبڑے طاق تھے۔وہ ایک شمارے میں کئی کئی گوشے نکالتے تھے۔ہر شمارے میں گو شے کے لئے بہت سے ادیب ،شاعر اور ناقدین سے التجا کر تے رہتے تھے ۔کوئی منع کرتا تو اس کے پیچھے لگ جاتے ۔یا تو وہ گوشہ نکلوانے پہ تیار ہو جاتا یا پھر اس سے تعلقات کشیدہ ہو جاتے ۔ ماہنامہ ’’شاعر ‘‘،کی دیکھا دیکھی یہ لت دوسرے رسائل و جرائد والوں کو بھی لگ گئی ۔اس کا بڑانقصان یہ ہوا کہ ہر ایرے غیرے پر بھی کسی اچھے رسالے میں گوشہ شائع ہو نے لگا۔رسالے والوں نے معیاراور رسالے کی ساکھ سے سمجھوتہ کیا اور بہت سے غیر معیاری گو شے شائع کئے ۔رسائل و جرائد کی اس بھیڑ میں پاکستانی رسالہ ’’ چہار سو‘‘ راولپنڈی کا ایک منفرد مقام ہے۔ اس کے مدیر گلزار جاوید ہیں۔اس رسالے کے تقریباً ہر شمارے میں کسی نہ کسی ادیب، شاعر یا ناقد،ڈرامہ نگار ،طنز و مزاح نگار پر مبسوط گو شہ شامل ہو تا ہے ۔اس رسالے کا گوشہ نکالنے کا الگ ہی انداز ہے ۔ یہ جان کر آپ کو حیرانی ہو گی کہ یہ رسالہ صاحبِ گوشہ سے ایک پیسہ بھی نہیں لیتا۔ اسی لئے اس رسالے کے گوشوں کا ایک انوکھا پن اور معیار ہے۔ہندوستان کا شاید ہی کائی رسالہ بغیر پیسے کے گوشہ شائع کر تا ہو ۔
مصنف بے چارہ! محنت و مشقت کر کے ایک کتاب لکھتا ہے اور اپنی کتاب کے ایوانِ اردو میں چھا جانے کا سہانا خواب دیکھتا ہے ۔مگر اس کا یہ خواب ریت کے محل کی طرح اس وقت مسمار ہو جا تا جب اسے پتہ چلتا ہے کہ کوئی پبلشر اس کی کتا ب فری میں چھاپنے کو تیار نہیں۔رائیلٹی تو دور کی بات ہے ۔یہ تو اردو والوں کی قسمت میںہے ہی نہیں ۔مصنف خواہ اپنی تحریر میں کوئی بھی تیر مار لیں۔بڑی مشکل سے رائٹر کسی پبلشر سے قیمتاً اپنی کتاب چھپواتا ہے ۔پہلی کتاب ہو تی ہے تو وہ کم از کم تین چار سو کاپیاں شائع کرواتا ہے ۔اب مسئلہ کتابوں کی فروخت کا آتا ہے۔ ہر کو ئی فری میں کتاب چاہتا ہے۔ مصنف فیس بک پر کتاب کا سرورق ڈالتا ہے تاکہ کتاب کی تشہیر ہو اور زیادہ سے زیادہ لوگ اس کی کتاب کو خریدیں۔مگر اس کا الٹا ہوتا ہے۔ کتاب کی تعریفات میں آسمان زمین کے قلابے ملائے جاتے ہیںاور ایک کاپی پڑھنے کے لئے مانگی جا تی ہے ۔کچھ لوگ تو لکھتے ہیں کہ سرورق اور موضوع تو کمال کا ہے ،اندر کیا ہے یہ کتاب پڑھ کر بتائیں گے ۔بیچارہ مصنف اپنی تعریف میں پھول کر کپا ّہو جاتا ہے اور اپنی کتاب پر لکھے جانے کے لالچ میں ڈاک خرچ بھی اپنی پاکٹ سے لگا تا ہے اور کتابیں مطلوبہ افراد کو بھیج دیتا ہے ۔کئی بار کتابیں محکمہ ء ڈاک ہضم کر جاتا ہے ۔مصنف کو بار بار کے تقاضوں سے تنگ آکر دوبار کتاب رجسٹرڈ یا اسپیڈ پوسٹ سے بھیجنی پڑتی ہے ۔
اب آتا ہے اجرا کا موقع ہر مصنف چاہتا ہے اس کی کتاب اور اس کے نام کی شہرت ہو ۔مصنف کی خام خیالی یہ بھی ہوتی ہے کہ اجرا سے کتاب کو شہرت ملے گی تو کتاب کی خریداری بڑھے گی۔ جبکہ ایسا نہیں ہوتا ہے۔اجراء کی محفل میں آنے والا خرچ کتاب کی اشاعت پر آنے والے خرچ سے کم نہیں ہوتا۔کئی بار اجرا کی محفل میں صاحب ِ کتاب کو جگہ بھی نہیں ملتی اور کبھی کبھی جگہ ملتی بھی ہے تو اسٹیج کے کسی کونے میں۔بے چارہ مصنف!
کچھ باتیں اردو کے پبلشرز کے بارے میں بھی ضروری ہیں۔ کیوں کہ مصنف اور پبلشر کا رشتہ لازم و ملزوم جیسا ہے۔ پبلشرز کی نظر میں تین طرح کے مصنّفین ہو تے ہیں۔ایک وہ جو صف ِ اول کے مصنّفین ہیں۔ان کی کتا بیں ہر ادا رہ چھاپنا چاہتا ہے اور رائلٹی کے طور پر پیسے بھی ادا کرتا ہے۔ اس درجے میں اردو کے چند مصنف آتے ہیں۔ کتاب کی فروخت ہو نے کے لئے ان کا نام ہی کافی ہے۔ دوسرے درجے کے مصنّفین وہ ہیں،جن کی کتابیں چھا پنے کیلئے کوئی رقم لیتے ہیں نہ رائلٹی کے نام پر انہیں کچھ بھی دیتے ہیں۔ اردو میں اس درجے کے مصنّفین کی تعداد بھی دو تین درجن سے زائد نہیں۔ رائٹرز کی تیسری قسم وہ ہے جن کی کتابیں شائع کرنے کے لئے پبلشرز ان سے رقم لیتے ہیں ۔اس زمرے میں اردو کے بہت سارے مصنّفین ہیں۔نیا مصنف اسی زمرے میں آتا ہے ۔اسے اپنی کتاب شائع کروانے کے لئے بڑی تگ و دو کر نی پڑ تی ہے ۔اب اردو میں پبلشرز کی تعداد اچھی خاصی ہو گئی ہے۔ پبلشرز کی اس بھیڑ میں اردو میں ایک ایسا پبلشربھی آگیا ہے جو مصنف کی کتاب فری میں چھاپتا ہے، بس اس کی ایک شرط ہو تی ہے کہ ان کو کتاب کا موضوع اور کتاب پسند آنی چاہیے۔مگر اردو کے یہ پبلشر مصنف کو ایک بھی کاپی فری نہیں دیتے بلکہ آپ کو جتنی کاپی درکار ہوتی ہیں وہ رعایتاً آپ کو کتاب قیمتاً مہیا کرا دیتے ہیں۔
اردو کا بھی عجب مزاج ہے آپ کسی روزنامہ، ہفت روزہ یا پندرہ روزہ اخبارات میں کوئی کالم یا مضمون وغیرہ لکھتے ہیں،تو اس کا کوئی معاوضہ نہیں ملتا۔ لیکن ادھر پندرہ بیس برسوں میںکئی روزنامے ایسے شائع ہو نے لگے ہیں ،وہ کالم اور مضامین کا معاوضہ بھی دیتے ہیں۔لیکن کچھ زبانوں کا حال اس کے بر عکس ہے۔ہندی ،انگریزی،عربی ،جرمن، فرانسیسی ،جاپانی، رشئین، بنگلہ ، مراٹھی وغیرہ زبانوں کے اخبارات اور رسائل معاوضہ دیتے ہیں۔ان زبانوں کے پبلشر ز رائیلٹی بھی دیتے ہیں۔ انگریزی اور دیگر غیر ملکی زبانوں میں بھاری بھرکم رائلٹی ملتی ہے۔ ادھر ہندی کے بھی کچھ پبلشر ز رائلٹی دینے کے بجائے کتاب چھاپنے کے مصنف سے پیسے لینے لگے ہیں۔بے چارہ مصنف ! کرے تو کیا کرے۔ اردو میں اب کتابیں خرید کر پڑھنے کا چلن ختم ہو گیا ہے ۔اردو کونسل نے گزشتہ دنوں نئے ڈائر کٹر شمس اقبال کی رہنمائی میں اسی مسئلے کو لے کر شعبہ ء اردو کے صدور کی آن اور آف لائن ایک میٹنگ کی تھی۔ میٹنگ میں کتابوں کی نکاسی پر ہی بات ہوئی۔ نتیجے کے طور پر پروفیسرز سے ریسرچ اسکالرز کے ذریعہ کتابیں خریدنے کے لئے کہا گیا ۔اس دور میں جب کوئی کتاب خریدتا نہیں تو مصنف کتابیں مفت بانٹنے پر مجبور ہے۔ ہمیں اردو کو بچانے کے لئے کمر کسنی ہو گی۔ کونسل کی بلک پر چیجز اسکیم کو دوبارہ شروع کر انے کے لئے کو شش کرنی ہوگی۔ساتھ ہی اردو کتابیں فروخت کر نے کے لئے ملکی سطح پر اسکیم یعنی بازار بنانا ہو گا۔تب ہی اردو مصنّفین کی کچھ مدد ہو سکے گی۔
[email protected]