یوں تو لوک سبھا انتخابات کے بعد ضمنی اسمبلی انتخابات کے نتائج بھی این ڈی اے خصوصا بی جے پی کیلئے زبردست دھچکاہے، لیکن اگر مغربی بنگال کی بات کریں، تو وہاں 2019کے پارلیمانی انتخابات میں بی جے پی نے جتنی تیزی سے پیش قدمی کی تھی ، اتنی ہی تیزی سے پیچھے جارہی ہے۔کہاں 2019کے لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی نے 42میں سے 18سیٹیں جیت کر ایک طرح سے وہاں کی حکمراں جماعت ترنمول کانگریس کے لئے خطرے کی گھنٹی بجادی تھی ، لیکن 2024کے پارلیمانی انتخابات میں صرف 12سیٹیں ہی جیت سکی اور ترنمول کانگریس کی سیٹیں بڑھ کر 29ہوگئی ۔ کچھ ایساہی حال ریاستی اسمبلی کا ہے، جہاں 2021کے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی نے اپنی سیٹیں بڑھاکر 77 تک پہنچادی تھی، لیکن اب اس کی سیٹیں گھٹ کر 66ہوگئیں، جبکہ ترنمول کانگریس کی سیٹیں بڑھ کر 221ہوگئیں ۔ابھی ضمنی اسمبلی انتخابات میں ترنمول کانگریس نے اپنی ایک سیٹ برقرار رکھتے ہوئے بی جے پی سے 3سیٹیں چھین لیں۔مغربی بنگال میں بی جے پی کا حال یہ ہے کہ 2قدم آگے بڑھتی ہے ، تو 4 قدم پیچھے آجاتی ہے ۔سارے حربے آزمانے کے باوجود ریاست میں ترنمول کانگریس کا دبدبہ کم نہیں ہورہا ہے۔ وہاںسوال صرف بی جے پی کانہیں ہے، بلکہ کمیونسٹ پارٹیوں اور کانگریس کابھی ہے۔بی جے پی کی حالت پھر بھی کچھ غنیمت ہے ، وہ دوسرے نمبر پر رہ رہی ہے۔ باقی پارٹیاں تو وجود کی لڑائی لڑرہی ہیں ۔ان کے لئے تو لوک سبھا اوراسمبلی انتخابات میں ایک سیٹ بھی جیتنا مشکل ہورہا ہے ۔کہاں ممتابنرجی کے اقتدار میں آنے سے پہلے مغربی بنگال کمیونسٹ پارٹیوں کا مضبوط گڑھ اورقلعہ مانا جاتاتھا۔ 23سال سے زیادہ جیوتی بسو وزیر اعلی رہے ، ان کے بعدبدھادیب بھٹاچاریہ نے ساڑھے 10سال تک حکومت کی ۔ مسلسل 7میعاد یعنی 1977سے 2006تک وہاں کمیونسٹوں کی حکومت رہی ،لیکن ممتابنرجی ایک بارکیا اقتدارمیں آئیں ، کمیونسٹوں کی جڑیں اکھڑتی چلی گئیں ۔2011سے ممتابنرجی کی مسلسل یہ تیسری اننگز ہے ۔
مغربی بنگال میں بی جے پی نے بہت جدوجہد کی، اسی کا نتیجہ ہے کہ تمام پارٹیوں کو پیچھے چھوڑتے ہوئے نمبر 2پر آگئی ۔ایسالگ رہاہے کہ وہاں اقتدارکی دہلیز پر پہنچنے کیلئے بی جے پی کو ابھی لمباسفر طے کرناہوگا۔پوری طاقت جھونکنے، ترنمول کانگریس کو توڑنے اورنئے نئے ایشوز پر پرزور سیاست کرنے کے باوجود زمینی لڑائی میں وہ ممتابنرجی سے آگے نہیں بڑھ پارہی ہے ۔تنہاممتابنرجی کی شخصیت بی جے پی کی ریاستی اورمرکزی قیادت نیز پارٹی کی طرف سے اچھالے گئے ایشوز پر بھاری پڑرہی ہے ۔جب سندیش کھالی جیسا دائو نہیں چل پایا تو دیگر ایشوز سے کیا امیدکی جاسکتی ہے ؟کہاجاتاہے کہ بی جے پی کی ریاستی اکائی 2گروپوں میں تقسیم ہے ۔ ایک گروپ ان لیڈروں کا ہے ، جو سنگھ پریوار سے جڑے ہوئے ہیں اوردوسرا گروپ ترنمول کانگریس اوردیگر پارٹیوں سے آئے لیڈروں کا ہے۔مرکزی قیادت ان دونوں کو ساتھ لے کر تو چلتی ہے ، لیکن اندرون خانہ ان کے درمیان تال میل کا فقدان ہے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ ریاست میں پارٹی کے اندر چہرے بھی کئی ہوگئے ہیں ۔ جس کو ریاستی اکائی کا صدر بنایا جاتاہے، اس کے ماتحت تمام لیڈران متحد نہیں ہوپاتے۔ان کے درمیان کھینچ تان چلتی رہتی ہے۔اس سے مرکزی قیادت بھی پریشان رہتی ہے ، کیونکہ پارٹی کو نقصان پہنچتاہے ۔اس وقت بھی پارٹی کوریاست میں نئے صدر کی تلاش ہے، کیونکہ موجو دہ ریاستی اکائی کے صدرسکانت مجمدار مرکز میں وزیر بن چکے ہیں۔ بہرحال ریاست سے 1998کے لوک سبھا انتخابات میں اور 2016کے اسمبلی انتخابات میں کھاتہ کھولنے والی بی جے پی ایک طاقت بن چکی ہے ، جسے نظر اندازنہیں کیا جاسکتا۔ضمنی اسمبلی انتخابات میں رائے دہندگان نے سب سے زیادہ دل بدلی کرنے والے لیڈران کو سبق سکھایا ، جن کو شکست کا سامناکرناپڑا ۔لوگوں نے ان کو شکست دے کر واضح پیغام دے دیا کہ جو اپنی پارٹی کے لئے وفادار نہیں ہوسکتے ، وہ لوگوں کیلئے کیا وفادار رہیں گے؟ان کی موقع پرستی کا انجام ضمنی اسمبلی انتخابات میں بہت برا ہوا۔نہ پرانی پارٹی میں رہے ، نہ اسمبلی میں رہے ، عوام کی نظروں میں گرگئے اورنئی پارٹی میں بھی شکست کے بعد حاشیہ پر چلے جائیں گے۔ ان کا حشر بہت برا ہوا۔ ضمنی اسمبلی انتخابات کے نتائج میں تمام پارٹیوں کیلئے کچھ نہ کچھ اشارے اورپیغام ضرور ہیں، جن کو سمجھنے اوران کے مطابق حکمت عملی تیار کرنے کی ضرورت ہے ۔
[email protected]
پیغام کو سمجھنے کی ضرورت
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS