ڈاکٹر سیّد احمد قادری
18 ویں لوک سبھا انتخابات سے قبل جس طرح ریاست بہار پورے ملک کی سیاست میں محور اور مرکز بنی ہوئی تھی، انتخابات ختم ہونے اور حکومت کی تشکیل کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری ہے ۔ اس کی کئی وجوہات ہیں، خاص طور پر بہار کے وزیراعلیٰ نتیش کمار کی غیرمستقل مزاجی کے باعث طرح طرح کی باتیں جنم لیتی رہتی ہیں جو ملک کے میڈیا کے ساتھ ساتھ ملک کے سیاست دانوں اور دانشوروں کے درمیان موضوع بحث رہتی ہیں ۔
پہلے انتخابات سے قبل کے منظر نامے پر ایک نظر ڈالی جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ پورے ملک کی سیکولر پارٹیوں کو یہ توقع تھی کہ اتر پردیش اور مہاراشٹر وغیرہ جیسی ریاستوں کے مقابلے ریاست بہار کی 40 لوک سبھا سیٹوں میں سے بیس پچیس سیٹوں سے زائد پر انڈیا اتحاد کو ضرور کامیابی مل جائے گی، اس لیے کہ اس وقت بہار میں بھی بی جے پی کے خلاف بہت زیادہ ناراضگی تھی اورنتیش کمار اور ان کی پارٹی جے ڈی یو کے خلاف اس وجہ کر بھی کافی خفگی تھی کہ انہوں نے عین وقت پر پلٹی مارتے ہوئے سیکولر انڈیا اتحاد کو کمزور کرتے ہوئے بے دست و پا کردیا تھا جبکہ حزب مخالف پارٹیوں کا اتحاد قائم کرنے میں ان کی مرکزی اور نمایاں حیثیت تھی لیکن نہ جانے وہ کون سا خوف تھا یاسیاسی مفادات تھے کہ وہ سیکولر اتحاد کو بیچ منجدھار میں چھوڑ کر فرقہ پرستوں کے ساتھ ہو لیے۔ ان کے اس عمل سے سیکولر ذہنیت کے بہار کے لوگ خفا ہوگئے اور سیکولر پارٹیوںکے اتحاد کو ختم کرنے کاہی یہ منفی اثر ہوا کہ یہ خود تقریباً حاشیے پر اس حد تک چلے گئے کہ ان کی حلیف پارٹی بی جے پی بھی انتخابی مہم میں ان سے دوری بنانے کی کوشش کرتی نظر آئی۔ ایسی صورت حال بننے سے مشکلوں سے تشکیل پانے والے انڈیا اتحاد کو بہار سے بڑی کامیابی کی توقع ہو گئی۔ لوگوں اور سیکولر پارٹیوں کی اس توقع سے راشٹریہ جنتا دل کے سپریمو لالو یادو اور ان کے جواں سال بیٹے تیجسوی یادو کچھ زیادہ ہی خوش فہمی میں مبتلا ہو گئے اور یہ خوش فہمی بعد میں تکبر میں اس حد تک بدل گئی کہ ان دونوں نے انڈیا اتحاد میں شامل کانگریس سمیت تمام سیکولر پارٹیوں کو درکنار کرتے ہوئے اور کسی سے بھی صلاح و مشورہ نیز سیٹ شیئرنگ کی میٹنگ سے قبل ہی اپنے خاص خاص لوگوں کو اپنی من مرضی کے مطابق سب سے زیادہ سیٹوں پر کامیابی کی امید پر اپنی پارٹی راشٹریہ جنتا دل کا ٹکٹ دینا شروع کر دیا ۔ راشٹریہ جنتا دل کی اس خوش فہمی بھری حرکت سے بہت قریب تھا کہ مغربی بنگال کی طرح یہاں بھی انڈیا اتحاد ختم ہو جاتا۔ لیکن اپنے مقابل مودی اور بی جے پی کی بے پناہ قوت اور وقت کی نزاکت کو تسلیم کرتے ہوئے کانگریس اور دیگر اتحادی پارٹیوں نے بلاشبہ سیاسی بصیرت اور حکمت عملی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بقول ایک سینئر لیڈر ’’ خون کا گھونٹ پی کر‘‘ راشٹریہ جنتا دل کی ہٹ دھرمی کو نظراندازکرتے ہوئے انڈیا اتحاد میں سیٹ شیئرنگ کو کامیاب بنایا۔ اس سیٹ شیئرنگ میں راشٹریہ جنتا دل نے کانگریس سمیت کمیونسٹ پارٹیوں کو بھی کمتر سمجھتے ہوئے اپنے پاس 40 سیٹوں میں سے 26 سیٹیں رکھیں۔ کانگریس کو صرف 9 اور کمیونسٹ پارٹیوں کو 5 سیٹوں سے زیادہ دینے پر رضا مند نہیں ہوئی۔ بعد میں مکیش سہنی کی پارٹی وی آئی پی کو انڈیا اتحاد میں شامل کرتے ہوئے اپنی سیٹوں میں سے 3 ٹکٹ دیے اور مکیش سہنی کو اپنے ساتھ شامل کرکے ایسا پیغام دینے کی کوشش کی کہ یہ بہت بڑا کارنامہ انجام دیا ہے۔
مکیش سہنی کو توپ سمجھتے ہوئے تیجسوی یادو انہیں ہیلی کاپٹر پر بٹھاکر انتخابی دوروں میں لیے گھومتے نظر آئے۔ ریاست کے کسی چہرے کو ساتھ نہیں رکھا کہ یہ تو راشٹریہ جنتا دل کے بندھوا مزدور ہیں، جائیں گے کہاں؟ تیجسوی یادو کو ایسا لگا کہ سہنی کی وجہ سے پورا بہار متاثر ہوگا اور کامیابی قدم چومے گی۔ لیکن نتیجہ جب سامنے آیا تو یہ حقیقت سامنے آئی کہ مکیش سہنی کا ایک سیٹ پر جادو نہیں چلا اور خود ان کی پارٹی تینوں سیٹوں سے ہار گئی۔ مسلمانوں کی خفگی بھی ظاہر ہو گئی کہ راشٹریہ جنتا دل نے جن دو امیدواروں کو ٹکٹ دیا تھا، وہ بھی ہار گئے۔
کانگریس نے بہت چاہا کہ بہار کی سیاست میں اپنی ایک خاص شناخت قائم کرنے والے پپو یادو، جنہوں نے اپنی پارٹی جن ادھیکار پارٹی (لوک تانترک) کانگریس میں اس یقین دہانی کے بعد ضم کر دیا تھا کہ انہیں پورنیہ سے لوک سبھا کا امیدوار بنایا جائے گا، لیکن لالو اور تیجسوی نے پپو یادو کی پرانی رنجش کو برقرار رکھتے ہوئے اپنے وقار کا مسئلہ بنا لیا اور کانگریس کو مجبور کیا کہ وہ کسی بھی قیمت پر پپو یادو کو اپنا امیدوار نہ بنائے اور مخالفت کی انتہا کرتے ہوئے یہاں سے پپو یادو کے مقابلے اپنا امیدوار اتار دیا۔ اسی طرح بیگو سرائے سے ملک کے ہردلعزیز لیڈر کنہیا کمار کو کانگریس اپنا امیدوار بنانا چاہتی تھی لیکن لالو، تیجسوی نے اپنے تکبر کے نشے میں چور ایسا کرنے پر سختی سے کانگریس کو روک لگا دیا۔ مجبوری میں کانگریس کو کنہیا کمار کو انجان دلی سے امیدوار بنانا پڑا، جن کی شکست سے نہ صرف کانگریس کو بلکہ انڈیا اتحاد کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا ہے۔
کٹیہار حلقے سے کانگریس نے ا پنے پرانے لیڈر طارق انور کو ٹکٹ دینے کا فیصلہ کیا اور یہاں بھی لالو، تیجسوی ، طارق انور کو امیدوار نہیں بنانے پر اڑ گئے، لیکن آخر وقت پر سونیا گاندھی نے مداخلت کی اور کسی طرح لالو کو رضا مند کیا۔ سیوان سے راشٹریہ جنتا دل کے سپہ سالار رہے دبنگ لیڈر شہاب الدین مرحوم کی اہلیہ حنا شہاب نے بہت چاہا کہ راشٹریہ جنتا دل سے ان کا پرانا رشتہ ہے اور اب بھی شہاب الدین کا اس علاقے میں بڑا اثر ہے، اس لیے انہیں راشٹریہ جنتا دل سیوان سے اپنا امیدوار بنائے، لیکن راشٹریہ جنتا دل نے انہیں بھی بہت ساری گزارشوں اور مطالبات کے باوجود ٹکٹ دینے سے صاف انکار کر دیا۔ اس انانیت بھرے انکار سے خفا ہوکر حنا شہاب سیوان سے ہی پپو یادو کی طرح آزاد امیدوار کے طور پر کھڑی ہو گئیں اور راشٹریہ جنتا دل امیدوار کے مقابلے زیادہ ووٹ لاکر دوسرے نمبر رہیں۔ اگر راشٹریہ جنتا دل انہیں ٹکٹ دے دیتا تو حنا شہاب یقینی طور پر راشٹریہ جنتا دل کے کامیاب امیدواروں میں اضافہ کرتیں۔ اپنی دو بیٹیوں کو ٹکٹ دیے جانے کے ساتھ ہی ساتھ بڑی تعداد میں یادووں کو اپنا امیدوار بنائے جانے جیسے غیر دانشمندانہ، غلط اور تکبر بھرے ناعاقبت اندیشانہ فیصلوں سے ریاست بہار کے سیکولر لوگوں کے درمیان غلط پیغام گیا جس کی وجہ سے جو لوگ نتیش کمار اور ان کی پارٹی جے ڈی یو سے خفا چل رہے تھے، وہ ان کی طرف خاموشی سے آ گئے جس کی وجہ سے جہاں نتیش کمار بیک فٹ پر کھڑے تھے، انہیں انتخابات کے نتیجوں میں ناقابل یقین کامیابی ملی اور اسی غیر یقینی کامیابی نے نتیش کمار کو بی جے پی ( این ڈی اے) کی حکومت سازی میں کنگ میکر بنا دیا۔ لیکن کنگ میکر بننے کے بعد بھی وہ جس طرح مودی کے پیر چھوتے نظر آئے اور مودی کے ہر فیصلے پر رضامند نظر آئے، اسے بہار کے عوام نے اپنی ہتک محسوس کی اور پہلے والی خفگی ایک بار پھر عود آئی۔ اس کا ثبوت روپولی اسمبلی حلقے کے ضمنی انتخاب میں جے ڈی یو کے امیدوار کلادھر منڈل کی اس حالت میں شکست ہوئی جبکہ جے ڈی یو حکومت کی مشنری انہیں کامیاب کرنے میں جٹی تھی ۔ اس سے بھی بری حالت آر جے ڈی کی امیدوار اور اس اسمبلی حلقے سے لگاتار پانچ بار کی ممبر اسمبلی رہنے والی بیما بھارتی کی ہوئی جو تیسرے نمبر پر رہیں۔ بیما بھارتی کو حالیہ لوک سبھا کے انتخاب میں آرجے ڈی نے پپو یادو کے خلاف امید وار بنایا تھا جنہیں بہت بری طرح شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
یہ پورا منظر نامہ دیکھنے کے بعدیہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ بدلتے وقت اور حالات کے ساتھ لالو و تیجسوی کے چلتے اور کچھ زیادہ ہی خوش فہمی میں مبتلا نہیں ہوتے ،تو بلا شبہ اس وقت انڈیا اتحاد اپنی حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہوتا۔بی جے پی اور جے ڈی یو کے خلاف بہار کے عوام کے دلوںمیں جو جوش و ولولہ جاگا تھا اسے لالو اور تیجسوی کے تکبر نے ختم کردیا ۔ اب جبکہ بہار اسمبلی کا انتخاب اگلے سال ہونے والا ہے، اس وقت راجد اور جے ڈی یوکا سیاسی گراف بہت تیزی سے گرتا نظر آرہا ہے ۔ جسے دیکھتے ہوئے ان دونوں کے خلاف کئی طرح کی مورچہ بندی میں شدّت دیکھی جارہی ہیں۔ نتیش کمار تو پہلے سے ہی خفا بیٹھے ہیں ۔ اس لیے کہ لالویادو وتیجسوی کی آر جے ڈی نے نتیش کمار کو جب کبھی حمایت دے کر حکومت بنائی ،کچھ دنوں تک تو حکومت ٹھیک ٹھاک چلی، لیکن کچھ ہی دنوں بعد نتیش کمار کے ہر فیصلے پر راجد کے لیڈروں کا اعتراض شروع ہوجاتا ، ٹرانسفر اور پوسٹنگ تک میں دخل اندازی عام بات تھی ۔ نتیش کمار کو بہار کا اقتدار تیجسوی کو سونپ کر مرکز کی سیاست میں دلچسپی لینے کا مشورہ دیا جا رہا تھا ۔ان حالات میں نتیش کمار کا کبیدہ خاطر ہونا فطری تھا ۔ ایسے کئی معاملے سامنے آئے کہ جس میں لالو وتیجسوی کی دخل اندازی پر اختلافات ہوئے اور نتیش کمار کو بحالت مجبوری پلٹی مارنی پڑی ، جس سے ان کی کافی بدنامی بھی ہوئی اور ان کا سیاسی قد بھی کم ہوا ۔ آر جے ڈی کی ایسی ہی دخل اندازی اور تکبر سے کانگریس بھی اندر اندر ہی کافی خفا ہے ۔نتیجہ میں اب اس پہلو پر بھی سوچا جا رہا ہے کہ کیوں نہ آنے والے اسمبلی انتخابات میں آر جے ڈی سے کنارہ کشی اختیار کر لی جائے ۔ایسی تجاویز ریاست کی کئی سیکولر پارٹیاں پیش کر رہی ہیں ۔ اس لیے کہ آر جے ڈی اسمبلی انتخاب کے وقت بھی ہمیشہ کی طرح اپنی خوش فہمی میں مبتلا ہو کر زیادہ سے زیادہ سیٹیں خود رکھنا چاہے گی اور حلیف پارٹیوں کو اپنے مقابل کمتر سمجھتے ہوئے کم سے کم ٹکٹ دے گی جو گوارہ نہیں ہوگا ۔ حالانکہ آر جے ڈی کو اب بدلتے وقت اور حالات کے مطابق خود میں بھی تبدیلی لانے کی کوشش کرنے کی ضروت ہے۔ اگر ایسا نہیں ہوا تو بی جے پی جو بہار میں برسر اقتدار ہونے کا کب سے خواب سجائے بیٹھی ہے، اسے کوئی روک نہیں پائے گا نیز سیکولر ووٹ کے بکھراؤ کا بھی خدشہ لاحق ہے ۔اس لیے میرے خیال میں ایسا کیے جانے سے گریز کیے جانے کی ضرورت اس شرط کے ساتھ ہے کہ آر جے ڈی اپنے رویہ میں مثبت تبدیلی لائے اور نوشتہ دیوار کو پڑھنے کی کوشش کرے ۔ساتھ ہی ساتھ اپنے یادؤں کو ترجیح دئے جانے کے بجائے بہار کے تمام طبقوں کو ترجیح دے ۔ ابھی اتر پردیش میں اکھلیش یادو نے ایسا ہی تجربہ کیا اور کامیاب بھی ہوئے ۔ لالو اور تیجسوی اپنے ذہن سے اس خوش فہمی کو بھی نکال دیں کہ وہ صرف یادو اور مسلمانوں کے ووٹوں سے برسر اقتدار آ جائیں گے، اس لیے کہ ماضی میں یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ جب کبھی آر جے ڈی برسراقتدار آئی تو اس نے مسلمانوں کے مسائل کو لا یعنی سمجھا ۔ مثال کے طور پر ابھی نتیش کمار کے ساتھ مل کر پورے 17 ماہ تک حکومت میں رہے ۔ لیکن مسلمانوں کے مسائل سے مسلسل چشم پوشی کرتے رہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ آر جے ڈی کے منفی رویہ سے بہار کے مسلم بھی خفا چل رہے ہیں اور یہ بھی متبادل کی تلاش میں ہیں۔ اب رہی بات نتیش کمار اور ان کی پارٹی جے ڈی یو کی تو ، بی جے پی کی ریاستی اکائی بھی ان سے خوش نہیں ہیں۔ موجودہ ایک نائب وزیر اعلیٰ نے تو نتیش کو پوری طرح حاشیہ پر ڈالنے کی قسم ہی کھا رکھی تھی۔ دیگر کئی بی جے پی کے نیتاؤں کے بیانات کو یاد کیا جائے تو یہ بات واضح ہو جائے گی کہ گزشتہ 2019 کے انتخابات کے وقت تو در پردہ مودی شاہ نے نتیش کے سیاسی قد کو ختم کرنے کے لیے چراغ پاسوان کو ہی معمور کر دیا تھا ۔ لیکن نتیش کمار کے سیاسی تدبر نے اس سازش کو کامیاب نہیں ہونے دیا تھا ۔ ابھی جب کہ مرکز کی حکومت نتیش کمار کی بیساکھیوں کے سہارے کھڑی ہے اور بی جے پی یا یوں کہیں کہ مودی شاہ اس بیساکھی سے جلد نجات کے فراق میںہیں اس لیے ان کی پوری کوشش ہے کہ جے ڈی یو کے 12 ممبر پارلیمنٹ کو کسی طرح توڑ لیا جائے ۔ یوں بھی اس وقت نتیش کمار کی بیماری اور ختم ہوتی قوت ارادی کو دیکھتے ہوئے ان کے ممبران کشمکش میںمبتلا ہیں،جس سے بی جے پی فائدہ اٹھانے کے فراق میں ہے ۔
اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ بہار میںمسلمانوں کی اتنی تعداد ہے کہ وہ کسی سیکولر طاقت کے تعاون کے بغیر خود تو نہیں جیت سکتے لیکن کسی بھی سیکولر امیدوار کو جتانے کی طاقت رکھتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اگلے سال بہار میں ہونے والے اسمبلی انتخابات میں آر جے ڈی اور جے ڈی یو ، دونوں سے چھٹکارہ پانے کی تیاری شروع ہو چکی ہے اور اس کام کے لیے پی کے یعنی پرشانت کشور کو میدان میں اتارا گیا ہے ۔ پہلے ان سے بہار کے مسلمانوں کی ہمدردی حاصل کرنے کے لیے بڑے جذباتی قسم کے بیانات دلوائے گئے اور اب انھیں سیاسی اکھاڑے میں اتارنے کی کوشش ہو رہی ہے ۔پی کے دراصل بی جے پی کو کامیاب بنانے کے لیے راجد اور جے ڈی یو دونوں کے ووٹ بینک میں سیندھ لگانے کی کوشش میں متحرک ہیں۔ اس سازش کو سمجھتے ہوئے آر جے ڈی کے ریاستی صدر جگتا نند سنگھ نے اپنے ایک مکتوب مورخہ 6 ؍ جولائی 2024 کے ذریعہ آر جے ڈی کے کیڈر کو متنبہ کیا ہے کہ وہ پی کے کی جن سوراج پارٹی کی میٹنگوں میں شرکت نہ کریں اور نہ ہی اس کی ممبر شپ قبول کریں، اس لیے کہ یہ پارٹی بی جے پی کی ’بی‘ ٹیم ہے ۔ اب اس خط کا آر جے ڈی کے لوگوں پر کتنا اثر ہوا یہ کہنا مشکل ہے۔ لیکن آر جے ڈی کے پرانے وزیر کی سربراہی میں ہی آج ہی یعنی 14 ؍ جولائی کی شام پٹنہ کے مولانا مظہر الحق آڈیٹوریم میں ’’بہار کا سیاسی منظر نامہ اور مسلمان‘‘ کے زیر عنوان ایک کانفرنس منعقد ہونے جا رہی ہے۔ جس کی صدارت پرشانت کشور ہی کریں گے۔ چند دنوں قبل ہی ان کا مسلمانوں کے ساتھ یہ وعدہ بھی سامنے آیا ہے کہ اس ماہ کے 2 ؍ اکتوبر کو باضابطہ قائم ہونے والی ان کی پارٹی ’جن سوراج‘ اسمبلی انتخاب میں ریاست بہار کے مختلف اسمبلی حلقوں سے 75 مسلمانوں کو اپنا امیدوار بنائے گی یعنی بہار کے مسلمانوں کے ووٹوں کا شیرازہ پوری طرح بکھیرے جانے کی ایک منظم اور منصوبہ بند سازش ہے اور یہ سازش اگر کامیاب ہو جاتی ہے تو بیک وقت لالوتیجسوی کی پارٹی آر جے ڈی اور نتیش کمار کی پارٹی جے ڈی یو کو حاشیہ پر ڈال کر بی جے پی کی حکومت قائم کر لی جائے گی۔
( کالم نگار سینئر صحافی اور معروف ادیب ہیں )
[email protected]