فرانس کا شمار دنیا کی سب سے زیادہ ترقی یافتہ ، تعلیم یافتہ اور متمدن اقوام میں کیا جاتا ہے۔ اس قوم نے اپنے آپ کو یوروپ کی دیگر اقوام اور نسلوں سے بالا تر سمجھا ہے اور آج بھی زعم میں مبتلا ہیں کہ وہ سب سے اعلیٰ ارفع قوم ہیں۔ اس زعم رعونت اور طاقت کے بل پر فرانس نے اسی طرح کئی براعظموں بالخصوص افریقہ اور ایشیا کے کئی بڑے ممالک ، خطہ ہائے اراضی پر بہت ظالمانہ انداز سے حکومتیں کیں۔ افریقہ کے کئی ممالک میں ان کی سفاکی ، جبروبربریت کے آثار اور نشانہ آج بھی موجود ہیں۔ نہ صرف یہ کے نشانیاں موجود ہیں، فرانس ا بھی بھی کئی افریقی او رکچھ حد تک بہت سے ایشیا ملکوں پر بالواسطہ اور کچھ پر براہ راست عمل دخل ہے، ان ممالک کی معیشت سیاست اور روز مرہ کی زندگی پر فرانس کا اثر ایشیا ہی ، پڑا ہوا ہے۔ جیسا کہ دوسری جنگ عظیم سے قبل اور بعد میں بھی رہا تھا۔ پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں اپنی پوری طاقت کے ساتھ فرانس نے دنیا کے بہت سے ممالک میں خود جنگیں لڑیں اور کئی جنگوں میں یوروپی ، اتحاد یوں کا ساتھ دیا۔ یہ ماضی کا ایک ایسا سیاہ باب ہے جس پر لعنت ملامت ابھی بھی کی جاتی ہے اور ان کے استبداد کو جھیلنے والے ممالک فرانس کے لوگوں سے متنفر ہیں۔ ان میں بڑی تعداد براعظم افریقہ کے بہت سے عرب اور مسلم ممالک ہیں جو فرانسیسی حکمرانوں کی انسانیت سوز حرکتوں کو یاد کرکے آج تک فرانس کو معاف نہیں کرسکتے ہیں اور آج بھی ان جذبات کا اظہار مختلف سطحوں اور واقعات میں نظرآجاتا ہے۔ مگر آج خود فرانس تاریخ کے ایسے دوراہے پر کھڑا ہے کہ اندیشہ ہے کہ کہیں وہاں خانہ جنگی نہ پھوٹ پڑے، یہ خطرہ اس قدر شدید ہے کہ موجودہ صدر میکروں ملک کے خانہ جنگی کے دہانے پر کھڑا ہونے کی بات کرچکے ہے۔
فرانس فرقہ وارانہ منافرت مقامی،غیر مقامی ، فرانسیسی غیر فرانسیسی ، سیاہ وسفید ، عرب اور غیر عرب کی تقسیموں اور انتشار میں خطرناک حد تک ڈوب گیا ہے۔ یہ خلیج اس قدر عمیق ہے کہ وہاں کی اعلیٰ ترین سیاست قیادت پھونک پھونک کر قدم رکھ رہی ہے، غزہ پر اسرائیلی بربریت نے اس خلیج کو مزید گہرا کردیا ہے۔ فرانس کا معاشرہ فلسطینی پسند اور صہیونی پرستوں میں تقسیم ہوگیا ہے۔ نام نہاد متعدل طبقہ جس کو Centerist کہا ہے کسی حد تک فلسطینیوں کے تئیں رحم اور ہمدردی کے جذبات رکھتا ہے مگر مذہبی سخت گیر طبقات جس کو دایاں محاذ یا فار رائٹ Far rightکہا جاتا ہے ، پنجۂ یہود کی گرفت میں ہے۔ فرانس کے سماجی ثقافتی رجحانات کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ روشن خیال طبقہ جو رجعت پسند یا Conservativativeکے خلاف احتجاج کرنے کھڑا ہوا تو اس کی خواتین اور مردوں نے پیرس کے لینڈمارک تفریحی مقام ایفل ٹاور پر ’’ٹاپ لیس‘‘ یعنی قمیص اتار کر ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔ فرانس صحیح غیر صحیح کے اس معرکہ میں اس قدر الجھ کر رہ گیا ہے کہ حق وباطل میں خط امتیاز ہی ختم ہوگیا ہے۔
یہ صورت حال مسلمانوں کو بڑے امتحان میں ڈالنے والی ہے۔ فرانس میں ایک بڑی آبادی عرب اور مسلمانوں کی ہے اور ان میں سیاہ فام عرب اور رغیرعرب مسلمان بھی شامل ہیں اگر چہ یہ لگتا ہے کہ یہ آبادی اچھی خاصی با اثر ہے مگر مذہب اور نسل پرستی کی وبا اس قدر خطرناک حد تک معاشرے میں سراعت کرچکی ہے کہ سماجی زندگی میں لگاتار کشیدگی بڑھ رہی ہے اور جب حجاب ، کاٹونوں اور دیگر مذہبی امور کو لے کر کوئی تنازع سر اٹھاتا ہے تو بظاہر معمولی اور سطحی نظر آنے والی یہ تقسیم بہت گہری ہوجاتی ہے اور تصادم کی صورت اختیار کرلیتی ہے اور گزشتہ دو دہائیوں میں جو واقعات رونما ہوئے ہیں ان سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ مختلف وجوہ سے سیاہ فام عرب اور عیسائی تختہ مشق بنتے ہیں۔
سماج میں اس تقسیم کا فائدہ وہ سیاسی طبقات اٹھارہے ہیں جو آسان اور حساس ایشوز پر بیان بازی کرکے عوام میں خصوصاً مقامی فرانسیسی لوگوں کے ووٹ حاصل کرنا چاہتے ہیں ، ہر ملک کی طرح بغیر زیادہ مشقت کے اقتدار حاصل کرنا ایسے ایشوز کر اچھالنا آسان ہے۔ فا ر رائٹ (انتہا پسند )نیشنل ریلی مومنٹ National Rally Movementفرانس میں مقیم اور ووٹ دینے کے حق کے حامل چھ ملین لوگوں کے لیے مشکلات پیدا کررہی ہیں۔
فرانس میں اظہار خیال کی آزادی ہے، انفرادی آزادی نے جہاں ایک طرف مسلمانوں کو اقتصادی ، سیاسی اور اخلاقی اختیارات دیے ہیں وہی حجاب کو لے کر مسلمانوں کو بدترین ر د عمل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
بایاں محاذ کی پارٹی نیشنل ریلی کی سربراہ ایک خاتون لی پین نے عوامی مقامات پر حجاب پر پابندیوں کا مطالبہ کرتی رہی ہیں اوران کے پروردہ سینئر لیڈر جارڈن ہارڈیلا Jardan Bradila نے نقاب کو تعصب کی علامت قراردیا ہے ۔ اس کے علاوہ مسلمانوں کے لیے ایک اور پریشانی دوہری شہریت کے خاتمہ کا مطالبہ ہے جس کے تحت ایشیائی اور افریقی عرب اور غیر عرب مسلمان فرانس میں سکونت اختیار کرچکے ہیں ، وہاں فرانس میں ان کے گھر اور کاروبار ہیں اوران کو ووٹ دینے کا حق حاصل ہے اسی حق کی بنیاد پر معتدل اور بایاں محاذ کی پارٹیاں ایسی پالیسیاں وضع کرنے سے اجتناب کرتی ہیں جو مسلمانوں اور عربوں کے خلاف ہوں۔
فرانس کے فار رائٹ طبقات کو لگتا ہے کہ دوہری شہریت کی وجہ سے فرانس کے اصل شہری اقلیت میں آگئے ہیں۔ ان کا سیاسی غیرمقامی آبادی کے بڑھتے حجم کی وجہ سے ان فرانسیسیوں کو مسلمانوں اور عربوں سے اس لیے بھی نفرت ہورہی ہے کہ اکثر یہاں اپنی وہی وضع قطع اختیار کرتے ہیں جو وہ اپنے ملکوں میں اختیار کرتے ہیں۔ داڑھی ٹوپی اور منفرد انداز لباس وبودوباش اختیار کرنے والوں کو اپنی فرانسیسی تہذیب وثقافت اور روایات ومزاج کے لیے خطرہ نظر آتے ہیں۔ n
فرانس :کیا پنجۂ یہود کی گرفت کمزور پڑگئی؟
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS