مغربی بنگال کی ممتابنرجی حکومت اور مرکزکی مودی حکومت کے درمیان تنازع، کشمکش اور رسہ کشی عام سی بات ہوگئی ہے۔ مودی حکومت چاہتی ہے کہ وہ اقتدار اور قوت کے تمام سرچشموں سے مکمل فیض حاصل کرتے ہوئے ریاستوں کو اپنا باج گزار بنائے تو ممتابنرجی ملکی آئین میں دیے ہوئے وفاقی ڈھانچہ کی برقراری کی دہائی دیتی ہیں اور ریاستوں کے دائرۂ کار و اختیار میں مرکز کی مداخلت کو غیرآئینی ٹھہراتی ہیں۔یہ سلسلہ گزشتہ 10برسوں سے جاری ہے۔اقتدار کی اس کھینچ تان میں دونوں فریق اپنی پوری طاقت آزماتے ہیں، کبھی مرکز کی رسی دراز ہوتی ہے اور ممتاحکومت پر کمند آگرتی ہے تو کبھی ممتابنرجی اپنے جارحانہ اندازحکمرانی کی وجہ سے مرکز پر غالب نظرآتی ہیں۔ وفاق اور ریاست کے اسی تنازع کے سلسلے میں ایک عرضی حالیہ دنوں سپریم کورٹ میں داخل کی گئی تھی۔اپنی عرضی میں مغربی بنگال کی ممتابنرجی حکومت نے مرکزی حکومت پر جانب داری کا الزام لگاتے ہوئے اندرون بنگال مرکزی جانچ ایجنسی سینٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن(سی بی آئی) تحقیقات کی مخالفت کی ہے۔ممتاحکومت کا کہنا ہے کہ مرکزی حکومت مرکزی ایجنسیوں بشمول سی بی آئی کاسیاسی اور غلط استعمال کرتے ہوئے ریاست میں بحران پیدا کرکے اپنی مداخلت کا جوازفراہم کرناچاہتی ہے۔ اس نے اپنے ان ہی الزامات کی بنیاد پر سی بی آئی کواندرون ریاست تحقیقات کیلئے دی گئی عمومی رضامندی واپس لے لی ہے۔اس کے باوجودکلکتہ ہائی کورٹ کی ہدایت پر سی بی آئی شمالی24پرگنہ ضلع میں واقع سندیش کھالی میں مبینہ جنسی استحصال کے معاملوں کی تحقیقات کررہی ہے اور دوسرے معاملات میں بھی مسلسل مقدمات درج کر رہی ہے۔
بنگال حکومت نے سی بی آئی کے اس موقف کو چیلنج کرتے ہوئے سپریم کورٹ میں عرضی داخل کی تھی۔ سپریم کورٹ نے اس عرضی کو ’ میرٹ‘ کی بنیاد پر قابل سماعت ٹھہرایا ہے اورتبصرہ کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے سوال کیا ہے کہ حکومت کی جانب سے عام رضامندی واپس لینے کے باوجود مرکزی ایجنسی ریاست میں مسلسل مقدمات کیوں درج کر رہی ہے؟ اس کیس کی اگلی سماعت 13 اگست کو ہوگی لیکن حکمراں ترنمول کانگریس کو عرضی کی وقتی قبولیت سے تقویت ملی ہے اور اس نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ سچائی کی جیت ہے۔
بظاہر ترنمول کانگریس کا یہ دعویٰ درست نظرآرہاہے۔یہ کھلی سچائی ہے کہ مرکزی ایجنسیاں ریاستوں میں کھلے سانڈ کی طرح گھوم رہی ہیں اور بی جے پی کے تمام مخالفین کو چن چن کر سینگوں پر اچھال رہی ہیں۔دہلی، جھارکھنڈ اور مغربی بنگال پر تو ان کی خصوصی توجہ ہے۔ مغربی بنگال میں سال 2014 میں سی بی آئی نے چٹ فنڈ گھوٹالہ کے سلسلے میں ترنمول کانگریس کے کئی وزرا اور ایم ایل ایز کو گرفتار کیا تھا۔ اس کے بعد ایک اسٹنگ ویڈیو میں رقم لینے والے پارٹی کے کچھ لیڈروں سے بھی پوچھ گچھ کی اوربعدمیںانہیں گرفتار کیا گیا۔ ممتابنرجی سی بی آئی کے ان اقدامات کو ریاست کے اختیار میں مداخلت قراردے کراس کے خلاف احتجاج کرتی رہیں اورپھر سال 2018 میں سی بی آئی تحقیقات کیلئے دی گئی عام رضامندی کو واپس لے لیا تھا۔
یادرہے کہ ڈی ایس پی ای ایکٹ کے سیکشن 6 کے مطابق، کسی ریاست کی سرحدوں کے اندر سی بی آئی کی تحقیقات کیلئے اس ریاست کی پیشگی رضامندی کی ضرورت ہوتی ہے۔ تاہم مرکزی حکومت سی بی آئی کو کسی ریاست میں اس طرح کے جرم کی تحقیقات کا اختیار دے سکتی ہے، لیکن صرف متعلقہ ریاستی حکومت کی رضامندی سے۔لیکن سی بی آئی نے ریاستی حکومت کی رضامندی نہ ملنے کے باوجود اپنی سرگرمی جاری رکھی۔ روزویلی اورشارداچٹ فنڈ گھوٹالوں کے معاملات میں بھی سی بی آئی پیش پیش رہی جس سے وزیراعلیٰ ممتابنرجی کافی برہم ہوئیں اور 2019میں شاردا گھوٹالہ میں اس وقت کے کولکاتا پولیس کمشنر راجیو کمار کے گھر پہنچنے والی سی بی آئی کی ٹیم کو کولکاتا پولیس نے حراست میں لے لیا۔ اس معاملے میں خود وزیراعلیٰ ممتا بنرجی بھی موقع پر پہنچی تھیں۔ بعد میں انہوں نے سی بی آئی کے چھاپے کے خلاف تقریباً 70 گھنٹے تک احتجاج بھی کیا تھا۔ اس معاملے میں مرکزی اور ریاستی حکومتیں آمنے سامنے تھیں۔ اس معاملے میں ممتا بنرجی حکومت نے مرکزی حکومت کے تین آئی پی ایس افسران کو مرکزی وزارت داخلہ میں ڈیپوٹیشن پر تعینات کرنے کے فیصلے کو بھی قبول نہیں کیا تھا۔ بالآخر سپریم کورٹ کی مداخلت سے سی بی آئی کو راجیو کمار سے میگھالیہ کی راجدھانی شیلانگ میں پوچھ گچھ کرنے کی اجازت دی گئی، اس شرط پر کہ وہ اسے فی الحال گرفتار نہیں کرسکتی۔
آئین میں دی گئی صراحت کے باوجود مرکز کے اشارہ پر ریاستوں میں بغیر ان کی مرضی کے سی بی آئی کی متوازی تحقیقات حکومت کا نظم و نسق چلانے میں سب سے بڑی رکاوٹ اور وفاق کی روح کے خلاف ہے۔عدالت عظمیٰ کا کام تنازعات کا حل فراہم کرنے کے ساتھ انصاف کی سربلندی کیلئے مروجہ قوانین کی تشریح و توضیح اور ان پر نظرثانی بھی ہے، اس لیے امید کی جارہی ہے کہ اس معاملہ کا جلد ہی فیصلہ ہوجائے گا کہ قانون میں دیے گئے سی بی آئی کے اختیارات آئین سے کہاں متصادم ہیں اور اگر ہیں توا ن کا ازالہ کرکے مرکز اور ریاستوں کے درمیان اس تنازع کو مکمل طور پر ختم کردیاجائے۔
[email protected]
ریاستوں میں سی بی آئی تحقیقات کا معاملہ
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS