حسینہ کا دورۂ چین

0

چوتھی بار بنگلہ دیش کی وزیراعظم بننے کے بعد شیخ حسینہ پہلے غیر ملکی دورے پر دو روز کے لیے 21 جون کو ہندوستان آئی تھیں۔اس دورے کے دوران تقریباً آٹھ معاہدوں پر دستخط ہوئے تھے۔ شیخ حسینہ دوسرے غیر ملکی دورے پر آج 8 جولائی، 2024 چین گئی ہیں۔ یہ چار روزہ دورہ ہے۔ اس دورے کے دوران وہ چینی سربراہ شی جن پنگ اور چینی وزیراعظم لی کیانگ سے ملاقات کریں گی۔ ایسا سمجھا جاتا ہے کہ مختلف پروجیکٹوں کے لیے چین سے بنگلہ دیش کو بطور قرض خطیر رقم مل سکتی ہے۔ اس سے حسینہ حکومت کو اپنے بجٹ کے خسارے کو پورا کرنے میں آسانی ہوگی، چنانچہ حسینہ کے اس دورۂ چین کی بڑی اہمیت ہے۔ نظر اس پر بھی ہوگی کہ بیجنگ، ڈھاکہ کو اور قریب لانے اور بنگلہ دیش میں دائرۂ اثر بڑھانے کے لیے کیا کرتا ہے۔ گزشتہ ڈیڑھ دہائی میں بیجنگ اور ڈھاکہ کافی قریب آئے ہیں۔ دونوں کے مابین تجارت میں اضافہ ہوا ہے۔ چین نے وہاں کافی سرمایہ کاری کی ہے۔ بنگلہ دیش کی اس سے بڑھتی قربت کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔ چین-بنگلہ دیش تعلقات کا جائزہ لینے پر اندازہ ہوتا ہے کہ زیادہ فائدے میں چین ہی ہے۔ اس اندیشے کا پیدا ہونا فطری ہے کہ کیا بنگلہ دیش، سری لنکا کی راہ پر ہے؟
چین نے موقع سے فائدہ اٹھاکر بنگلہ دیش کو قریب کر لیا ہے۔ وہ اس کے محل وقوع کی اہمیت سے ہمیشہ سے واقف ہے اور اس کی ہندوستان سے قربت سے بھی۔ اسی لیے 2012 میں پدماندی پر برج کی تعمیر میں بدعنوانی کا الزام عائد کر کے ورلڈ بینک نے معاونت میں دلچسپی نہیں دکھائی، بنگلہ دیش کی حکومت نے اسے اپنے بوتے پر مکمل کرنے کا بیڑا اٹھایا اور 2014 میں اس کی تعمیر کی ذمہ داری چائنا میجر برج کمپنی کو دی تو بیجنگ کے لیے یہ ایک اشارہ تھا کہ حالات سازگار ہیں۔ 2016 میں چینی سربراہ شی جن پنگ نے ڈھاکہ کا دورہ کیا اور دو درجن سے زیادہ پروجیکٹوں کے لیے بنگلہ دیش کو 21 ارب ڈالر سے زیادہ کا قرض دینے کا اعلان کیا۔ یہاں سے چین اور بنگلہ دیش کے تعلقات کا نیا باب شروع ہوا۔ اس کے بعد سے شی حکومت نے بنگلہ دیش کو پوری طرح دائرۂ اثر میں لے لینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ اسی لیے وہ بنگلہ دیش کو قرض دیتی رہی ہے۔ آج چین کا شمار ان ملکوں میں ہوتا ہے جن سے بنگلہ دیش نے کافی قرض لے رکھا ہے۔ یہ قرض بظاہر اس نے بنگلہ دیش کی ترقی کے لیے یا اس کی معاونت کے لیے دیا ہے مگر اس سے وہ بہت زیادہ فائدے میں ہے۔ وہ جو قرض دیتا ہے، اس سے اسے سود ملتا ہے۔ اس کے قرض سے شروع ہونے والے پروجیکٹوں میں اکثر اسی کی کمپنی کو ٹھیکہ ملتا ہے۔ اس سے اس کی کمپنیوں کو پھولنے پھلنے کا موقع ملتا ہے۔ یہ کمپنیاں کام کے لیے بڑی تعداد میں چین سے لوگوں کو لاتی ہیں۔ اس سے چینیوںکو روزگار ملتا ہے اور شی حکومت کو بے روزگاری کے مسئلے سے نمٹنے میں آسانی ہوتی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق، بنگلہ دیش میں 6,000 چینی شہری ہیں مگر ایسا سمجھا جاتا ہے کہ یہ تعداد کہیں زیادہ ہے۔ ان فوائد کے علاوہ بنگلہ دیش کے اچھے حالات کو دیکھتے ہوئے چین وہاں سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ گزشتہ برسوں میں اس نے وہاں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔ چین اور بنگلہ دیش کی تجارت 23 ارب ڈالرتک پہنچ گئی ہے۔ بنگلہ دیش کے ٹاپ 5 امپورٹرس میں چین نہیں ہے مگر اس کے ٹاپ 5 ایکسپورٹرس میں چین سرفہرست ہے۔ 2024 میں اب تک سب سے زیادہ 21.5 فیصد اشیا اس نے چین سے اور پھر 12.2 فیصد اشیا ہندوستان سے منگوائی ہیں۔ ان اعداد و شمار سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ بنگلہ دیش سے تعلقات مستحکم کرکے چین ہر طرح سے فائدے میں ہے۔ اس نے بنگلہ دیش سے رشتہ مستحکم کرکے خلیج بنگال میں اپنی پوزیشن مضبوط بنانے کی کوشش کی ہے تاکہ امریکہ کی ہند بحرالکاہل اسٹرٹیجی کا جواب دینے کی پوزیشن میں رہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا بنگلہ دیش،سری لنکا کی راہ پر ہے؟ دعویٰ سے اور ایک جملے میں اس کا جواب دینا مشکل ہے۔ حسینہ حکومت کے انداز کار سے یہ لگتا ہے کہ وہ ہندوستان اور چین دونوں سے رشتہ رکھنا اور دونوں سے فائدہ اٹھانا چاہتی ہیں، البتہ چین کے مقابلے وہ ہندوستان کو زیادہ اہم مانتی ہیں اور یہ اشارہ دیتی رہتی ہیں جیسے مسلسل چوتھی بار بنگلہ دیش کی وزیراعظم بننے کے بعد ان کا پہلا غیر ملکی دورہ چین کا نہیں، ہندوستان کا تھا۔ بیجنگ اور ڈھاکہ کی بڑھتی ہوئی قربت کے باوجود اطمینان کر لینا ٹھیک نہیں ہے۔ یہ خیال رکھنا ہوگا اور خوش قسمتی سے حکومت ہند کو یہ خیال ہے کہ بنگلہ دیش محل وقوع کے لحاظ سے ہمارے ملک کے لیے بہت اہم ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS