شہادت امام حسینؓ اور آج کا مسلمان: عبد العزیز

0

عبد العزیز
ہر لمحہ ، ہرساعت ، ہردن، ہر مہینہ، ہرسال اللہ کے پیدا کئے ہوئے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے پورے سال کے بعض ایام کو خصوصی فضیلت عطا فرمائی ہے اور ان ایام کیلئے کچھ مخصوص احکام مقرر فرمائے ہیں ۔ یہ محرم کا مہینہ بھی ایک ایسا ہی مہینہ ہے جس کو قرآن کریم نے حرمت والا مہینہ قرار دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا کہ چار مہینے حرمت والے ہیں ان میں سے ایک مہینہ محرم کا ہے۔
لغات قرآن کے مطابق محرم کا مصدر تحریمٌ ہے جس کا مطلب ہوتا ہے حرام کیا ہوا، منع کیا ہوا،عزت کیا گیا، حرمت کیا گیا ہے۔ محرم الحرام کا مہینہ انہی دو معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔
ہم اور آپ جانتے ہیں کہ شمسی سال کا پہلا مہینہ جنوری ہے جبکہ قمری سال کا پہلا مہینہ محرم کا ہے۔
یہ مہینہ اسلام سے پہلے بھی اور اسلام کے بعد بھی حرمت و عظمت کا مہینہ سمجھا جاتا تھا اور بہت سے مبارک واقعات 10؍محرم کو پیش آئے، جن میں سے ایک اہم واقعہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کا فرعون کے ظلم و ستم سے نجات پانا، مصر سے نکل کر جزیرہ نمائے سینا میں بخیریت پہنچ جانا اور فرعون کا غرق ہونا اسی کی یاد میں مدینہ کے یہودی عاشورہ 10محرم کو روزہ رکھتے تھے اور جب رسول اللہ ﷺ مدینہ تشریف لائے تو آپ نے فرمایا کہ ہمارا تعلق حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ان یہودیوں سے بھی زیادہ ہے اس لئے ہم کو ان سے زیادہ خوشیاں منانے اور شکر ادا کرنے کا حق ہے۔ آپ ؐ نے خود بھی روزہ رکھا اور مسلمانوں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا۔ رمضان کے روزوں کی فرضیت سے پہلے ہی عاشورہ کا روزہ فرض تھا، جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تو عاشورہ کا روزہ اختیاری اور نفل رہ گیا، اب بھی دنیا کے مختلف حصوں کے دیندار مسلمان اس روز روزہ رکھتے ہیں اور ہندستان میں سنی مسلمانوں میں اس کا رواج ہے۔
لیکن اس مبارک اور مسرت انگیز مہینہ کیساتھ جس سے اسلامی سال کی ابتدا ہوتی ہے۔ ایک نہایت نامبارک، منحوس اور غم انگیز واقعہ ہے جس کو یاد کرکے ہر مسلمان کا دل مغموم اور اس کی گردن شرم سے جھک جاتی ہے یہ نواسۂ رسول ، جگر گوشۂ بتول حسین ابن علی ؓ کی شہادت ہے جو خاص عاشورہ کے دن پیش آئی وہ اسی دن یزیدکے مقابلہ میں لڑتے ہوئے (جو تخت خلافت پر متمکن ہوگیا تھا اور شام میں بیٹھ کر اس وقت کی دنیائے اسلام پر حکومت کرتا تھا) کربلا کے میدان میں 10 محرم 60ہجری کو شہید ہوئے اور ان کے خاندان کے متعدد جوان مردوں نے جام شہادت نوش فرمایا یہی واقعہ ہے جس کی یاد میں شیعہ حضرات محرم میں تعزیے اور علم نکالتے ہیں، ماتم اور سینہ کوبی کرتے ہیں، مجالس عزا منعقد ہوتی ہیں محرم کے دس دن اور پھر صفر کی 20تاریخ کو جو چہلم کہلاتی ہے اسی سوگواری ، عزاداری اور ماتم و شیون میں گذرتی ہے۔
حضرت حسین ؓ کے شہادت کے کئی بڑے مقاصد ہیں ۔ سارے مقاصد بیان کرنے کی اس مختصر مضمون میں گنجائش نہیں ہے لیکن چند مقاصد بیان کرنے کی اہم ضرورت ہے۔
1: سب سے پہلا مقصد جو یہ حادثہ عظیمہ ہمارے سامنے پیش کرتا ہے دعوت الی الحق اور حق و حریت کی راہ میں اپنے تئیں قربان کرنا ہے۔ بنی امیہ کی حکومت ایک شرعی اور ایک غیر اسلامی حکومت تھی۔ کوئی حکومت جس کی بنیاد جبر و شخصیت ہو کبھی بھی اسلامی حکومت نہیں ہوسکتی۔ ایسی حالت میں ضروری تھا کہ ظلم و جبر کے مقابلہ کی ایک مثال قائم کی جاتی اور حق و حریت کی راہ میں جہاد کیا جاتا۔ حضرت امام حسین ؓ نے اپنی قربانی کی مثال قائم کرکے مظالم بنی امیہ کے خلاف جہاد حق کی بنیاد رکھی اور جس حکومت کی بنیاد ظلم و جبر تھی اس کی اطاعت و وفاداری سے انکار کردیا۔ پس یہ نمونہ تعلیم کرتا ہے کہ ہر ظالمانہ وجابرانہ حکومت کا اعلانیہ مقابلہ کرو اور کسی ایسی حکومت سے اطاعت و فرمانبرداری کی بیعت نہ کرو جو خدا کی بخشی ہوئی انسانی حریت و حقوق کی غارت گر ہو اور جس کے احکام مستبدہ و جابرہ کی بنیادہ صداقت و عدالت کی جگہ جبر و ظلم پر ہو۔
2: اس شہادت کی دوسری تعلیم یہ ہے کہ مقابلہ کیلئے یہ ضروری نہیں کہ قوت و شوکت مادی کا وہ پورا ساز و سامان بھی موجود ہو جو ظالموں کے پاس ہوتا ہے کیونکہ حسین ابن علی ؓ کیساتھ چند ضعفا و مساکین کی جمعیۃ قلیلہ کے سوا ور کچھ نہ تھا، حق و صداقت کی راہ نتائجِ فکر سے بے پرواہے۔ نتائج کا مرتب کرنا حق پسندوں کا کام نہیں بلکہ اللہ کا کام ہے۔ حضرت امام حسین ؓنے حقیقت میں دنیاکو بتایا ؎
بر تر از اندیشۂ سود و زیاں ہے زندگی
ہے کبھی جاں اور کبھی تسلیمِ جاں ہے زندگی
بندگی میں گھٹ کے رہ جاتی ہے اک جوئے کم آب
اور آزادی میں بحرِ بے کراں ہے زندگی
ہو صداقت کیلئے جس دل میں مرنے کی تڑپ
پہلے اپنے پیکرِ خاکی میں جاں پیدا کرے
3: حق و صداقت کی رفاقت کی آزمائش زہرہ گداز اور شکیب ربا ہیں۔ قدم قدم پر حفظ جان و ناموس اور محبت فرزند و عیال کے دامن کھینچتے ہیں لیکن یہ اسوۂ حسنہ مومنین و مخلصین کو درس دیتا ہے کہ اس راہ میں قدم رکھنے سے پہلے اپنی طلب و ہمت کو اچھی طرح آزمالیں۔ ایسا نہ ہو کہ چند قدموں کے بعد ہی ٹھوکر لگے۔ خوف وہراس، بھوک اور پییاس ، نقصان اموال و متاع، قتل نفس و اولاد یہی چیزیں انسان کیلئے اس دنیا میں انتہائی مصیبتیں ہوسکتی ہیں اس لئے ان ہی چیزوں کو راہ الٰہی کیلئے آزمائش قرار دیا گیاہے۔
مختصراً جو بات کہی جاسکتی ہے کہ حضرت حسین ؓ کااعلیٰ درجہ کا مومنانہ کردارابھر کر سامنے آتا ہے اور اس طرح کے مومنانہ کردار کی ترجمانی علامہ اقبال نے اپنے اشعار میں کچھ اس طرح کی ہے ؎
غلامی میں نہ کام آتی ہیں شمشیریں ، نہ تدبیریں
جو ہو ذوق یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں
صف جنگاہ میں مردان خدا کی تکبیر
جوش کردار سے بنتی ہے خدا کی آواز
یزید کی حکومت غیر اسلامی اور خاندانی حکومت تھی جو بادشاہت میں تبدیل ہوچکی تھی۔ کوئی شخص اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتا کہ یزید کی ولی عہدی بادشاہت کا نقطہ آغاز تھی جو آگے چل کر تھوڑی مدت کے اندر ہی بادشاہی نظام میں جو خرابیاں ہوسکتی ہیں وہ سب کی سب نمایاں ہوگئیں جو تاریخ صفحات میں درج ہیں۔ جس وقت حضرت امام حسین ؓ نے انقلابی قدم اٹھایا اسوقت یہ خرابیاں اگرچہ بہ تمام و کمال سامنے نہ آئیں تھیں مگر ہر صاحب بصیرت آدمی جان سکتا تھا کہ اس اقدام کے لازمی نتائج یہی کچھ ہیں۔ اور اس سے ان اصلاحات پر پانی پھر جانے والا تھا جو اسلام میں سیاست اور ریاست کے نظام میں کی ہیں۔ اسی لئے امام حسین ؓ نے یزید سے بیعت نہ کرسکے اور انہوں نے فیصلہ کیا جو بدتر سے بدتر نتائج بھی انہیں ایک مضبوط جمعی ہوئی حکومت کے خلاف اٹھنے میں بھگتنے پڑیں، ان کا خطرہ مول لے کر بھی انہیں اس انقلاب کو روکنے میں کوشش کرنی چاہئے۔ اس کوشش کا جو انجام ہوا وہ سب کے سامنے ہے مگر امام حسین ؓ نے اس عظیم خطرے میں کود کر جو بات ثابت کی ہے وہ یہ تھی کہ اسلامی ریاست کی بنیادی خصوصیات امت مسلمہ کا وہ بیش قیمت سرمایہ ہے جسے بچانے کیلئے ایک مومن اپنا سر بھی دے دے اور اپنے بال بچوں کو جام شہادت نوش کروادے جب ہی اس مقصد کے مقابلے میں کوئی مہنگا سودا نہیں ہے۔ دین اور ملت کیلئے یہ وہ آفت عظمیٰ ہے یا انقلاب ہے جسے روکنے کیلئے ایک مومن کو اگر پنا سب کچھ قربان کردینا پڑے تو اس میں دریغ نہیں کرنا چاہئے۔ جس کا جی چاہے حقارت کے ساتھ اسے ایک Political(سیاسی) کام سمجھ کر کم کردے مگر حسین ابن علی ؓ کی نگاہ میں اور دنیا کے حق پسندوں کی نگاہ میں یہ سراسرایک دینی اور شرعی کام تھا۔ اسی لئے انہوں نے اس کام میں جان دینے کو شہادت سمجھ کر جان دی جو رہتی دنیاتک ایک مثالی کام یا نمونۂ زندگی کے نام سے موسوم کیا جاتا رہے گا۔ مولانا محمد علی جوہر ؒنے سچ کہا ہے ؎
قتل حسین اصل میں مرگ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS