خواجہ عبدالمنتقم
کوئی بھی نیا قانون بنانے میں جلد بازی نہیں کی جانی چاہیے اور ایسا ہوتا بھی نہیں ہے چونکہ کسی قانون کے مسودے کو حتمی شکل دینے میں ایک زمانہ آزمودہ طریقہ اپنایا جاتا ہے جس کا ہم قانون سازی سے متعلق مضامین میں حوالہ دیتے رہے ہیں۔ ہاں اگر ایمانداری سے یہ طریقہ نہیں اپنا یا گیا ہے تو اس ضمن میں شکایت تمام پہلوؤں پرغور کرنے کے بعد درست قرار دی جاسکتی ہے لیکن اگر اس ضمن میں ایمانداری سے کام لیا گیا ہے تو تنقید برائے تنقید کی راہ اختیار کرنا مناسب نہیں۔ کچھ ایسا معاملہ نئے تعزیری قوانین کا بھی ہے۔ گزشتہ ہفتے ہمارا مضمون ’نئے تین قوانین سوالات کے گھیرے میں کیوں؟عنوان کے تحت شائع ہوا تھا لیکن اختصار کے سبب اس کے تکنیکی پہلوؤں کا جائزہ نہیں لیا جا سکاتھا۔
وضع قانون ایک ہفت خواں ہے، یعنی رستم کی سات مہمیں، جسے طے کرنا آسان کام نہیں۔ اس کے لیے ایسی ایسی کٹھن منزلوںسے گزرنا پڑتا ہے کہ اگر ان کی بھول بھلیوں میں قافلے بھی بھٹک جائیں تو تعجب نہیں۔ آئیے اب اس بات پر غور کرتے ہیں کہ یہ منزلیں کون کون سی ہیں۔ قانون وضع کرنے کے لیے کیبنٹ کو مجوزہ قانون سے متعلق تمام پیچیدگیوں پر غور کرنا پڑتا ہے اور اس بات کا پورا پورا دھیان رکھنا پڑتا ہے کہ قانون کی شکل ایسی ہونی چاہیے جو ملک کے تمام لوگوں کو بلا حیل وحجت یا بنا ان کے جذبات مجروح ہوئے، قابل قبول ہو اور اس سے ان کی ضروریات پوری ہوں اور جو دشواریاں درپیش ہیں وہ دور ہوسکیں۔ کیبنٹ کی منظوری کے بعد متعلقہ وزارت بھی ان تمام پیچیدگیوں پر غور کرتی ہے اور ایک واضح تجویز وزارت قانون کو بھیجتی ہے۔ وزارت قانون میں واضع قانون (Legislative Counsel) کو، قانون وضع کرتے وقت بہت سی منزلوں سے گزرنا پڑتا ہے جیسے قانون وضع کرنے کے لیے جو ہدایات دی گئی ہیں، انہیں ٹھیک سے سمجھنا،ان کا تجزیہ کرنا، دستیاب یا حاصل کردہ امدادی مواد کی مدد سے مسودہ (ڈرافٹ) تیار کرنا، ڈرافٹ تیار کرنے کے بعد اسے حتمی شکل دینے سے قبل اس کی باریکی سے جانچ پڑتال کرنا وغیرہ۔
مسودہ تیار کرنے والے افسرکی حتی الامکان کوشش یہی ہوتی ہے کہ ملک وعوام کے سامنے ایک ایسا قانون رکھا جائے جس میں کوئی خامی نہ ہو، لیکن غلطی کرنا انسانی فطرت ہے۔واضع قانون، قانون وضع کرنے کے بعد اس کو ایک بل کی شکل دیتا ہے اور وہ بل ایک جمہوری حکومت میں ہمارے ملک کی طرح پارلیمنٹ میں پیش کیا جاتا ہے۔ وہاں پر مکمل بحث کی جاتی ہے، بل کے مختلف پہلوؤں پر غور کیا جاتا ہے اور اگر کوئی بل تکنیکی نوعیت کا ہے، جس کے مثبت اور منفی اثرات پر غور کرنا اشد ضروری ہے تو ایسے بل مختلف پارلیمانی کمیٹیوں کے حوالے کردیے جاتے ہیں، جو اس کے تمام پہلوؤں پر غور وخوض کرنے کے بعد اپنی رپورٹ دیتی ہیں۔ پھر ان رپورٹوں پر تفصیلی بحث ہوتی ہے اور اس بحث کے بعد اگر کچھ ترامیم ضروری ہوں تو وہ ترامیم کی جاتی ہیں۔ بعدازاں ان ترامیم کو اس بل میں حسب ضرورت شامل یا نہ شامل کرکے ایوان کے ذریعہ پاس کردیا جاتا ہے۔ اس کے بعد وہ بل راشٹرپتی کو، ان کی منظوری کے لیے بھیج دیا جاتا ہے۔ راشٹرپتی اگر یہ سمجھتے ہیں کہ اس بل میں کچھ کمیاں ہیں یا قابل اعتراض باتیں ہیں تو وہ بل واپس بھیج سکتے ہیں۔
مجموعہ تعزیرات بھارت کا مسودہ تیار کرنے میں کئی دہائیاں لگ گئی تھیں جس کی تفصیل مابعد درج ہے اور یکساں سول کوڈ مختلف پیچیدگیوں کے سبب تا ہنوز ڈرافٹ نہیں کیا جا سکا ہے اور نہ ایسا ہونے کا امکان ہے۔ ہمیں یاد ہے کہ قانونی خدمات اتھا ریٹیز ایکٹ(Legal Services Authorities Act) غیر معیاری ڈرافٹنگ کے سبب کافی عرصے تک تنقید کا موضوع رہا۔ جو قوانین تمام مثبت و منفی پہلوؤں پر غور کرنے کے بعد بنائے جاتے ہیں، وہ دہائیوں تک نافذالعمل رہتے ہیں اور ان میں بہت کم ترامیم کی جاتی ہیں۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت ہے تعزیرات ہند(آئی پی سی )جو نہ صرف ہندوستان میں بلکہ تقریباً اسی شکل میں کچھ ملکی ترامیم کے ساتھ ہندوستان، پاکستان، بنگلہ دیش، سری لنکا اور سنگاپور میں لاگو ر ہی۔
تعزیرات ہند کا مسودہ تیار کرنے کی ذمہ داری ہندوستان کے پہلے لاء کمیشن کو،جو چارٹر ایکٹ،1833کے تحت قائم کیا گیا تھا، سونپی گئی تھی۔ اس کمیشن کے سربراہ لارڈبیبنگٹن میکالے تھے۔اس تعزیرات کا مسودہ تیار کرنے کے لیے لارڈ میکالے کی سربراہی میں ایک کمیٹی قائم کی گئی تھی جس کے دیگر اراکین میک لیوڈ،اینڈرسن اور ملٹس تھے۔
اگرچہ مجموعہ تعزیرات ہند کا مسودہ تیار کرنے کا کام لارڈ میکالے کی سربراہی میں ہوا مگر افسوس کہ 1860میں لارڈ میکالے اس کی حتمی شکل پرنظر نہیں ڈال سکے چونکہ وہ ایک سال قبل ہی اس دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔ اس کوڈ کاپہلا مسودہ ہندوستان کے اس وقت کی گورنر جنرل آف انڈیا کونسل کے روبرو 1837میں رکھا گیا تھا۔ اس کے بعد اس میں اور ردوبدل کیے گئے۔ ڈرافٹنگ کا کام 1825 میں مکمل ہوا اور اسے مجلس قانون ساز نے1856میں بغرض غور پیش کیا لیکن 1857کی جنگ آزادی کے نتیجہ میں جو ہنگامی صورت حال ملک میں پیدا ہوئی، اس مسودہ کو قانون کی شکل دے کر نافذ نہیں کیا جاسکا اور اسے6اکتوبر1860کو منظوری ملی۔ یہ قانون یکم جنوری 1862 کو نافذ ہوا۔اس طرح اس مسودے کے تیار ہونے میں تقریباً ڈیڑھ صدی کا وقت لگ گیا۔ایک صدی میں یہ مسودہ انتہائی محنت اور نہایت احتیاط کے ساتھ تیار کیا گیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس قانون کی مختلف دفعات کو جب جب عدالت کے روبرو چیلنج کیا گیا تو وہ انصاف کی کسوٹی پر پوری اتریں اور چند دفعات کے علاوہ جنہیں وقت، نظائر عدالت اور حالات کے مطابق بدلنا پڑا یااس میں نئی دفعات کو شامل کرنا پڑا، باقی دفعات تاہنوز اپنی اصل شکل میں موجود رہیں۔حیرت کی بات ہے کہ بنیادی طور پر اس کا ڈرافٹ ایک ایسے شخص نے یعنی میکالے نے تیار کیا جس کی دلچسپی زیادہ ترسیاست اور ادب میں تھی مگر اس کے باوجود تعزیرات ہند کا شمار آج بھی اعلیٰ درجہ کیclassics میں ہوتا ہے۔
بھارتیہ نیائے سنہتا، جو یکم جولائی،2024 سے نافذ ہوگئی ہے، وہ دراصل مجموعہ تعزیرات بھارت، 1860 کا نقش ثانی ہے۔وہ ہمارے ججز اور ناقد، ماہرین قانون اور تمام اسٹاک ہولڈرس کے لیے بہترین قانونی غذائے تنقید ہے جیسے مبینہ طور پر بل پر بھرپور بحث نہ ہونا، قانون کی اہمیت اور تکنیکی نوعیت کے باوجود سلیکٹ کمیٹی کے پاس نہ بھیجنا، حزب اختلاف کو اعتماد میں نہ لینا۔ در اصل یہ ایک قانونی ایشو ہے، نہ کہ سیاسی معاملہ۔اس لیے مفاد عامہ کے مد نظر پارلیمنٹ میں اس کی خوبیوں اور خامیوں کی بابت متعلقہ قانونی نکتوں اور پیچیدگیوں پر با معنی بحث ہوسکتی ہے اور اگر پارلیمنٹ اس نتیجے پر پہنچتی ہے کہ اس میں سے کچھ دفعات حذف کی جائیں،کچھ میںترمیم کی جائے اور کچھ نئی دفعات شامل کی جائیں توعقبی کارروائی کی جاسکتی ہے۔
(مضمون نگارماہر قانون، آزاد صحافی،مصنف،سابق بیورکریٹ و بین الاقوامی ادارہ برائے انسانی حقوق سوسائٹی کے تا حیات رکن ہیں)
[email protected]