2011سے مغربی ایشیا اورسینٹرل ایشیا کے مسلم ممالک میں جو نام نہاد جمہوری تحریک چل رہی تھی اس نے ملت اسلامیہ کو ناقابل تلافی جانی و مالی و دیگر نقصانات سے دوچار کیا ہے۔ پورا علاقہ آج نام نہاد جمہوری تحریک کے اثرات سے گزر رہا ہے۔ عراق ، لیبیا، شام، لبنان، یمن، بحرین ممالک میں ابھی بھی راکھ کے نیچے دبی ہوئی چنگاریاں سلگ جاتی ہیں۔ کئی حلقوں میں اس بات کی کوشش ہورہی ہے کہ ماضی قریب کی کدورتوںکو بالائے طاق رکھ کر ایک نئے مستقبل کے لئے مشترکہ لائحہ عمل تلاش کیا جاسکے تاکہ آئندہ کسی بھی ملک میں ایسے حالات پیدا نہ ہوں جو آج کل غزہ میں دیکھے جارہے ہیں۔ جہاں لاکھوں افراد ، بوڑھے بچے اور عورتیں صہیونی بربریت کا نشانہ بنی ہوئی ہیں، سے بچا جاسکے۔ غزہ کی موجودہ بدترین صورت حال پر تقریباً پورا عالم اسلام خاموش تماشائی بنا ہوا ہے اوریہی نہیں بلکہ اس کی تپش پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے۔
پچھلے دنوں شام میں موجودہ صورت حال کو ختم کرنے اور ترکی اور شام کے اندر تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش اس وقت ثمرآور ہوتی دکھائی دی جب ترکی کے صدر طیب اردگان کا یہ بیان سامنے آیا کہ وہ شام کے صدر کے ساتھ ملاقات کرسکتے ہیں۔ یہ ایک انقلابی بیان تھا۔ پچھلے دنوں پورے مغربی ایشیا میں افہام وتفہیم، مذاکرات اور تعلقات کو استوار کرنے کی کوششیں کی گئیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کئی ملکوں نے اپنے تعلقات بحال کرلئے۔ پچھلے دنوںسعودی عرب میں عرب ملکوںکی سربراہ کانفرنس میں شام کے صدر بشارالاسد کی موجودگی نے اس افہام وتفہیم کے جذبے کو اور جلا بخشی۔ آج تقریباً تمام خلیجی ممالک میں کم از کم سفارتی تعلقات تو قائم ہوگئے ہیں اورکئی ممالک تو تشدد کی گھٹاٹوپ تاریخ کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون اور سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔ ایران کی اعلیٰ ترین قیادت کا سعودی عرب جانا اور سعودی عرب کی ایران میں سرمایہ کاری اور اسی طریقے کے کئی غیرمعمولی اقدام نے ایک امید پیدا کی تھی کہ شاید ملت اسلامیہ کو عقل آرہی ہے اور وہ برادرکشی کوختم کرتے ہوئے اغیار کی سازشوںکو سمجھیںگے اور اپنے صفوںمیں اتحاد پیدا کرلیںگے۔ دو دن قبل ترکی کے صدر طیب اردگان کا مذکورہ بالا بیان آیا ہی تھا کہ سرحد کے دونوں طرف ایسے غیرمناسب واقعات کی خبریں آنی شروع ہوگئی ہیں جن میں ترکی میں شامی مہاجرین اور شام میں ترکی کے کنٹرول والے علاقوں میں ایک معمولی تنازع کو لے کر قتل و غارت گری کا بازار گرم ہوگیا۔ یہ علاقہ انتہائی حساس ہے اور پورے خطے میں اس قدر کشیدگی ہے کہ کسی وقت بھی کوئی بڑا تنازع یا لڑائی چھڑسکتی ہے۔ شام میں بڑی تعداد میں ترکی کی افواج خیمہ زن ہے۔ بظاہر ترکی میں ان کے قیام کا مقصد شام کی سرحد سے کرد باغیوں کی تخریبی حرکتوں کو کنٹرول کرنا ہے۔ خیال رہے کہ ترکی میں کرد باغی علیحدگی پسندگی کی تحریک چلائے ہوئے ہیں اور ترکی کے دارالخلافہ انقرہ اور اہم شہروں میں تشدد کی ایسی وارداتیں سامنے آئی تھیں جن میں ترکی کا کافی جانی ومالی نقصان ہوا۔ یہ حرکتیں ترکی میں عدم استحکام اور سیاسی اتھل پتھل برپا کرنے کی ایسی سازشیں ہیں جن پر ترکی نے ہمیشہ ہی انتہائی سخت موقف اختیار کیا ہے اور بعض اوقات ترکی کی سرزمین پر ہونے والی کارروائیوں کے جواب میں عراق اور شام کے اندر کئی فوجی کارروائیاں ترکی افواج نے کی ہیں۔ ظاہر ہے کہ کسی بھی خودمختار اور اقتدار اعلیٰ والے ملک میں کسی پڑوسی یا غیرملکی افواج کی موجودگی اس ملک کے عوام کی عزت نفس پر بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات بہت خراب ہیں اور ابھی تک 2011سے کشیدگی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی ہے۔ دونوںپڑوسی ملک ہیں اور ان دونوں ملکوں میں کئی اقتدار مشترک ہیں۔ جو ان دونوںملکوں کے درمیان خلیج کو پاٹنے میں اہم رول اداکر سکتی ہیں۔ مگر اس پورے خطے پر اغیار اور اس خطے کے امن کے دشمنوں کا اتنا زبردست کنٹرول ہے کہ وہ کسی معمولی افہام وتفہیم کی کوشش کو برداشت نہیں کرتے ہیں۔ کردوںکی آبادی والے خطے عراق، شام اور ایران ترکی کے لئے دردسر بنے ہوئے ہیں۔ امریکہ اور اس کے حواری بشمول اسرائیل ان کردوں کی خودارادیت کے نام پر ایسے عناصر کو ہوا دے رہا ہے جو ایک آن میں پورے خطے کو آتش فشاں میں بدل سکتا ہے۔ اغیار کو ایران اور سعودی عرب کے درمیان مذاکرات اور بہتر تعلقات پھوٹی آنکھ نہیں بھا رہے۔ ترکی ایک بڑی طاقت ہے۔ناٹو کا ممبر ہے، ایک بڑی معیشت ہے مگر یوروپی ملک ہونے کے باوجود یورپ کا روشن اور اعلیٰ ذہن اقتدار اور کام ترکی کو یوروپی یونین کی مکمل رکنیت دینے کوتیار نہیں ہے اور دوسری جنگ عظیم کی تقریباً 8دہائیوںکے خاتمے کے باوجود یہ ممالک اپنے ذہنوں سے اپنی آنکھوں سے تعصب کا چشمہ اتارنے کو تیار نہیں ہیں۔ ترکی کو یوروپی یونین کے دوسرے ملکوں کی طرح وہ مراعات اور فائدے حاصل نہیں ہیں جو اس کی ترقی، خوشحالی میں ایک کلیدی رول ادا کرسکتی ہے۔
بہرکیف ترکی اور شام میں موجودہ صورت حال نے ایک بار پھر ان حلقوں کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے جوکہ مغربی ایشیا اور سینٹرل ایشیا میں امن اور خوشحالی چاہتے ہیں۔ اور چاہتے ہیں کہ یہ ممالک متحد ہوکر اپنے عوام کی خوشحالی کے لئے سنجیدہ ہوکر کوئی مشترکہ اورمتحدہ لائحہ عمل اختیار کریں۔
ترکی میں تقریباً 40لاکھ توصرف شام کے مہاجرین ہیں جو شام میں خانہ جنگی سے پہلے سے وہاں پناہ لینے کے لئے مجبور ہیں۔ گزشتہ 13 سال سے شامی مہاجرین ترکی کے معاشرے میں گھل مل گئے ہیںاور ترکی حکومت یوروپی یونین اور دیگرامدادی و رفاہی اداروںکے ساتھ مل کر ان مہاجرین کے قیام وطعام کا بندوبست کر رہی ہیں۔ یہ مہاجرین ترکی کی معیشت کو متاثر کر رہے ہیں۔ پچھلے عام الیکشن میں ترکی میں طیب اردگان کی پارٹی اورحکومت کی مہاجرین کے تئیں پالیسی پر سخت نکتہ چینی کی جارہی تھی اور طیب اردگان پر الزام تھا کہ ان کی مہاجرین نوازی کی وجہ سے شام کی معیشت اور اندرونی سیکورٹی کی صورت حال متاثر ہورہی ہے۔ مگرطیب اردگان کی پارٹی ان اعتراضات کے باوجود دوبارہ برسراقتدار آگئی۔ جہاں تک وسطی ترکی میں موجودہ بحران اور تخریب کاری کا تعلق ہے اردگان نے الزام لگایا ہے کہ اپوزیشن پارٹیاں شامیوں اور ترکی کے عوام کے درمیان تصادم کو شہ دے رہی ہیں۔ تصادم کی موجودہ صورت حال ترکی کے وسطی اور شام کے ان علاقوں میں بنی ہوئی ہے جہاں ترکی کی افواج ہیں۔ شام کے شمال میں ترکی کی فوجیں اورجنگیں بیڑے ہیں اور وہ کرد باغیوں کو کنٹرول کرنے اور ترکی میں ان ممکنہ تخریبی اور دہشت گردانہ کارروائیوں کو کنٹرول کرنے کے لئے تعینات ہیں۔ ٭٭
شام اور ترکی کی سرحد پر کشیدگی سے حالات کی ابتری کا اندیشہ
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS