کانگریس کی طرح راہل گاندھی بھی بھارتیہ جنتاپارٹی (بی جے پی)اور اس کے لیڈروں کیلئے ہمیشہ ہی مرد نامطلوب اور فرد مردود رہے ہیں۔گزشتہ دس برسوںکی سیاسی تاریخ میں بی جے پی اور اس کے حواریوں نے انہیں سیاست سے نکالنے کی ہر ممکن کوشش کی۔اس کوشش میں وہ تحقیر و تذلیل، الزام و اتہام کی متعفن گلیوں سے گزرتے ہوئے دشنام کی دلدلی زمین تک بھی پہنچ گئے مگرکامیابی نہیں ملی۔ آج راہل گاندھی اپوزیشن لیڈر ہیں۔ پارلیمانی جمہوریت میں اپوزیشن لیڈر شیڈو وزیراعظم ہوتا ہے۔ حکومت کی پالیسی، کام کاج کی نگرانی اور احتساب اس کا بنیادی کام ہوتا ہے۔اپنے اس بنیادی فریضہ کی ادائیگی کرتے ہوئے کل راہل گاندھی نے ایوان میں سیاسی پختگی اور بالغ نظری کا بھر پور مظاہرہ کیا۔حکومت کو ایسا آئینہ دکھایا کہ وہ کانگریس اور راہل گاندھی پر اب تک تلملائی ہوئی ہے۔آج وزیراعظم نریندر مودی نے جہاں کانگریس کو پیراسائٹ بتایا، وہیںراہل گاندھی کو ایک بار پھرسے ’بچہ‘ قرار دے کر اس تلملاہٹ کو کم کرنے کی کوشش کی۔ وزیراعظم نریندر مودی نے اپنی جوابی تقریر میںکہا کہ کانگریس ایک پیراسائٹ(پرجیوی) ہے جو اپنے ہی ساتھیوں کو کھاجاتی ہے۔وہ اپنے اتحادی کیلئے پیراسائٹ ہے جو ان کے ووٹ کھاجاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کانگریس پارٹی 2024 سے پرجیوی کانگریس کے طور پر جانی جائے گی۔ 2024 سے موجود کانگریس ایک پیراسائٹ کانگریس ہے اورپیراسائٹ وہ ہوتا ہے جواسی جسم کو کھاتا ہے جس کے ساتھ وہ رہتا ہے۔ کانگریس اس پارٹی کے ووٹ بھی کھاتی ہے جس کے ساتھ وہ اتحاد کرتی ہے اور وہ اپنی اتحادی پارٹی کی قیمت پر ترقی کرتی ہے۔دس برسوں سے اقتدار کا مزہ لوٹنے والے وزیراعظم نے کانگریس کو ملک میں اقتصادی انتشار اور سماجی انارکی کا سبب بتایا۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے گفتارکے تمام آداب اور تہذیب و اخلاق کے تمام قرینوں کو پامال کرتے ہوئے قائد حزب اختلاف کو99نمبر لانے والا ناکام بچہ ٹھہرایا، ان پر غبن کے الزامات لگائے اور سزایافتہ بھی بتایا۔
حقیقت یہ ہے کہ کل پارلیمانی اجلاس کے چھٹے دن لوک سبھا میں اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی اور راجیہ سبھا میں اپوزیشن لیڈر ملکارجن کھرگے نے اپنی تقریروں میں جس طرح عوام کے مسائل اور درد کی عکاسی کی، وہ بی جے پی کو ہضم نہیں ہوپائی۔صدر کے خطاب کے بعد شکریہ کی تحریک پر پیر کو لوک سبھا میں بحث ہونی تھی۔ قائد حزب اختلاف راہل گاندھی نے ایوان کے اندر نیٹ(این ای ای ٹی ) پر بحث کا مطالبہ کیا، انہوں نے کہا کہ این ای ای ٹی پر بحث کے ذریعہ وہ 24 لاکھ طلبا کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ یہ ایوان طلبا کے درد سے واقف ہے۔ لیکن بی جے پی اس معاملے پر اسی طرح بحث کرنے سے گریز کرتی نظر آرہی ہے جیسے منی پور کے معاملے میںاس نے کیا تھا۔ جب بی جے پی نے این ای ای ٹی پر بحث کا موقع نہیں دیا تو راہل گاندھی نے بھی ہندوتو کے نام پر پھیلائے جانے والے تشدد سے لے کر اگنی ویر اور بدعنوانی تک کے تمام مسائل پر بی جے پی کو اس طرح گھیر لیا کہ وزیراعظم نریندر مودی اور وزیرداخلہ امت شاہ سے لے کر راج ناتھ سنگھ اور روی شنکر پرساد بھی اپنا دفاع کرتے نظر آئے۔
گزشتہ برسوں کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ راہل گاندھی کی تقریر کے دوران وزیراعظم مودی نے بھی پارلیمانی آداب طاق پر رکھ دیے اور تین تین بار مداخلت کی پھر بھی وہ اپنے دفاع میں کوئی ایسی بات نہیں کہہ سکے جو قائد حزب اختلاف کو خاموش کرا سکتی۔ راہل گاندھی نے اپنی تقریر ’ جے سنویدھان‘ سے شروع کی، پھر اپنے اوپر کیے گئے زبانی حملوں سے لے کر ای ڈی کی تحقیقات، ایودھیا، منی پور، این ای ای ٹی، جموں و کشمیر میں ’انڈیا‘کی جیت، اقلیتوں کے خلاف مہم، ہجومی تشدد وغیرہ تک ہرموضوع پرایسی شعلہ فشانی کی کہ بی جے پی حواس باختہ ہوگئی اورحکمرانوں کے سر پندار پر بھی چوٹ پڑی۔ راہل گاندھی نے پارلیمنٹ میں خاص طور پر اس بات پر زور دیا کہ کس طرح ہندوتو کے نام پر بی جے پی کے دور حکومت میں نفرت اور تشدد کو فروغ دیا جاتا ہے۔ نریندر مودی اور امت شاہ نے اسے پورے ہندو سماج کی توہین سے جوڑکر بات بگھارنے کی مذموم کوشش کی۔ لیکن راہل گاندھی نے صاف کہہ دیا کہ مودی، بی جے پی اور آر ایس ایس کا مطلب ہندو نہیں ہے۔
لوک سبھا میں پیر کے روز راہل گاندھی کی تقریر حکمراں بی جے پی کے سینہ میں پیوست ہوجانے والا تیر نیم کش ثابت ہوئی۔ آج وزیراعظم کی جوابی تقریر میں کانگریس کو ’پیراسائٹ‘ اور راہل گاندھی کو ’ناکام بچہ‘ قراردینا اسی تیر نیم کش کی کسک، ٹیس اور چبھن کو کم کرنے کی کوشش تھی۔ کانگریس اور قائد حزب اختلا ف راہل گاندھی کے چہرے پر کالک پوتنے کی کوشش میں وہ اپنے ہی نامہ اعمال کی سیاہی میں اضافہ کرگئے اور بتادیا کہ متاع تہذیب واخلاق کی بجائے ان کا دامن اتہام و دشنام کے خزانہ سے معمور ہے۔
[email protected]
اٹھارہویں لوک سبھا کے دو دن
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS