ایم اے کنول جعفری
الیکشن کمیشن آف انڈیا نے 2024 کے عام انتخابات کے بعد ہریانہ، جھارکھنڈ،مہاراشٹر اور مرکز کے زیر انتظام جموں و کشمیر میں قانون ساز اسمبلی کے انتخابات کی تیاریوں کا 25جون سے عمل شروع کردیا ہے۔ ہریانہ، جھارکھنڈ اور مہاراشٹر ریاستوں کی اسمبلیوں کی میعاد بالترتیب 3نومبر، 26 نومبر 2024 اور 5جنوری 2025 کو ختم ہوجائے گی۔جموںو کشمیر اور تینوں صوبوں کے لیے رائے دہندگان کی فہرست اَپ ڈیٹ کرنے کا کام یکم جولائی2024 سے شروع کیا جائے گا۔جموں و کشمیر میں تنظیم نو کے بعد پہلی مرتبہ قانون ساز اسمبلی کے انتخابات ہونے ہیں۔پری اسپیشل سمری ریویو(ایس ایس آر) کے تحت طے شدہ تاریخ سے گروپ ہاؤسنگ سوسائٹیوں،کچی آبادی،شہری علاقوں اور دیہی علاقوں کے رائے دہندگان کے لیے انتہائی آسان مقامات پر پولنگ اسٹیشنوں کے قیام کا انتظام،پولنگ اسٹیشنوں کی معقولیت یا دوبارہ ترتیب اور ووٹر لسٹ کو اَپ ڈیٹ کرنے کے لیے نظرثانی کا کام کیا جائے گا۔ کسی بھی مقام کے پولنگ اسٹیشن میں ترمیم کرنے سے قبل کیے گئے کام کے تحت بوتھ لیول افسر(بی ایل او) گھر گھر جاکر تصدیق کرنے کا کام کریں گے۔ضرورت کے تحت پولنگ اسٹیشنوں کو متحرک کرنے کا لازمی عمل24جولائی تک مکمل کرلیا جائے گا۔
الیکشن کمیشن کے ذریعہ نام جوڑنے یا ہٹانے(اینٹی گریٹیڈ) کے بعد رائے دہندگان کی فہرست کا مسودہ 25جولائی تک شائع کیا جائے گا۔ان پر8اگست تک دعوے اور اعتراضات لیے جائیں گے اور ان پر 19اگست تک فیصلہ لے لیا جائے گا۔ ووٹر لسٹوں کی حتمی اشاعت 20اگست تک کی جائے گی۔ الیکشن کمیشن کی توجہ ووٹر لسٹ کی شمولیت،درستگی اور صحت کو یقینی بنانے پرمرکوز ہے،تاکہ کوئی بھی اہل شہری، رائے دہندگان کی فہرست میں شامل ہونے کے اپنے حق سے محروم نہ رہ سکے۔ووٹر لسٹ میں اس بات کا بھی خیال رکھا جاتا ہے کہ جس طرح کوئی اہل شہری ووٹر بننے سے نہ چھوٹ جائے،اُسی طرح اس کا نام دو جگہ نہ آجائے۔ بغیر کسی ڈپلی کیٹ ووٹر کے فہرست تیار کرنے کے ساتھ اس بات پر بھی زور دیا جاتا ہے کہ ووٹر لسٹ اغلاط سے تو پاک ہوں ہی، نااہل اندرجات کی شمولیت سے بھی گریز کیا جائے۔ الیکشن کمیشن نے انتخابات ہونے والی ریاستوں و مرکز کے زیرانتظام علاقوں میں رہائش پذیر تمام اہل شہریوں سے پولنگ بوتھ پر بی ایل او کے پاس جانے اور ووٹر لسٹ میں اپنا اور اپنے اہل خانہ کا نام دیکھنے کی درخواست کی ہے۔کسی نام کے چھوٹنے پر اُسے لسٹ میں شامل کرانے یا شامل نام کے حذف کرانے کی صورت میں آن لائن قواعد پوری کر لیں۔اس کام میں دوسروںکا تعاون کریں،تاکہ تمام اہل شہری آئندہ انتخابات میں اپنے رائے دہی کے حق کا استعمال کر سکیں۔واضح رہے کہ مرکزی حکومت کی جانب سے5اگست2019کو ایک سخت قدم اُٹھاتے ہوئے آرٹیکل370 کو ختم کرنے کے ساتھ جموں و کشمیر ریاست کو مرکز کے زیر انتظام جموں و کشمیر اور لداخ نام کے دو خطوں میں تقسیم کر دیا تھا۔الیکشن کمیشن نے مرکزی حکومت کے مشورے سے ہریانہ،جھارکھنڈ اور مہاراشٹر کے ساتھ جموں و کشمیر میں بھی اسمبلی انتخابات کرانے کا فیصلہ لیا ہے۔ اس سے قبل یہاں آخری مرتبہ 2014 میں اسمبلی الیکشن کرائے گئے تھے۔جموں و کشمیر میں بی جے پی اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی(پی ڈی پی) کی مخلوط حکومت تھی۔ 2018 میں بی جے پی کے اتحاد توڑکر علیحدگی اختیار کرنے کی بنا پر پی ڈی پی رہنما محبوبہ مفتی کی سرکار گر گئی تھی اور وہاں صدر راج نافذ ہوگیا تھا۔دسمبر2023میں عدالت عظمیٰ نے الیکشن کمیشن کو ہدایت دی تھی کہ جموں و کشمیر میں ستمبر 2024تک ہر حال میں اسمبلی کے انتخابات کرائے جائیں۔وزیر داخلہ امت شاہ نے بھی ایک انٹرویو میں 30ستمبر سے پہلے جموں و کشمیر میں اسمبلی انتخابات کرانے کی بات کہی تھی۔ہریانہ میں آخری اسمبلی انتخابات2019میں ہوئے تھے۔ بی جے پی کو41اور جے جے پی کو10سیٹیں ملی تھیں۔بی جے پی نے جے جے پی کے علاوہ 6آزاد اورایک ہالوپا رکن اسمبلی سے اتحاد کرکے حکومت بنائی،لیکن وزیراعلیٰ منوہر لال کھٹر 5سالہ مدت پوری نہ کر سکے۔ 12مارچ2024کو اتحاد ٹوٹ گیا۔کھٹر کی جگہ نایاب سنگھ سینی رہنما منتخب ہوئے۔اُنہوں نے48ارکان اسمبلی کی حمایت کا دعویٰ کیا۔ مہاراشٹر میں2019میں الیکشن ہوئے تھے۔ بی جے پی نے106سیٹوں پر کامیابی حاصل کی تھی، لیکن شو سینا اور بی جے پی کے درمیان وزیراعلیٰ کے عہدے کو لے کر اتفاق نہیں ہو سکا۔56ارکان اسمبلی والی شیو سینا نے44ارکان والی کانگریس اور53ارکان اسمبلی والی این سی پی کے ساتھ مل کر ’ مہاوکاس اگھاڑی‘ حکومت بنائی۔ ادھوٹھاکرے وزیراعلیٰ بنائے گئے۔ مئی 2022میں شیو سینا کے ایکناتھ شندے نے39ارکان اسمبلی کے ساتھ پارٹی سے بغاوت کی۔30جون2022کو بی جے پی کے ساتھ نہ صرف مخلوط حکومت بنائی،بلکہ وزیراعلیٰ بھی بنے۔جھارکھنڈ میں 2019میں اسمبلی انتخابات ہوئے تھے۔جھارکھنڈ مکتی مورچہ کو29، کانگریس کو17، آرجے ڈی اور سی پی آئی(ایم ایل)کو 1-1سیٹ ملی۔ہیمنت سورین وزیراعلیٰ منتخب ہوئے۔ زمین گھوٹالے میں نام آنے پر انہیں 31جنوری کو گرفتاری سے پہلے استعفیٰ دینا پڑا۔چمپئی سورین وزیراعلیٰ بنے۔
2024 کے عام انتخابات میں جموں و کشمیر کی 5سیٹوں میں سے بی جے پی اورجموں وکشمیر نیشنل کانفرنس کو2-2 اور آزاد اُمیدوارکو1سیٹ ملی۔ہریانہ کی10نشستوں میں سے بی جے پی اور کانگریس کو 5-5 سیٹوں پر کامیابی ملی۔ مہاراشٹر کے48پارلیمانی حلقوں میں سے بی جے پی نے9، حلیف جماعت این سی پی نے 1، شیوسینا(شندے) نے7،انڈیا بلاک میں شامل کانگریس نے13، شیوسینا (یوبی ٹی)نے9اور این سی پی(شردپوار)نے8سیٹوں پر فتح پائی۔1سیٹ آزاد اُمیدوار کے حصے میں آئی۔جھارکھنڈ کے 14پارلیمانی حلقوں میں سے بی جے پی نے8، اے جے ایس یو پارٹی نے1، کانگریس نے2اورجھارکھنڈ مکتی مورچہ نے3سیٹوں پر جیت درج کی۔
سپریم کورٹ کے حکم کے بعد جموں و کشمیر میںمقررہ مدت تک اسمبلی انتخابات کا ہوناتو یقینی ہے، لیکن سوال ریاست کے درجے کی بحالی کا ہے۔ عام انتخابات میں اُمیدوں کے خلاف نتائج آنے کا سامنا کر رہی بی جے پی کی اعلیٰ قیادت کے لیے ضروری ہے کہ وہ ہندو-مسلم، مندر مسجد، پاکستان دہشت گرد، لوجہاد اور نفرتی بیانات سے بیزار ہوچکے عوام کا بھروسہ جیتنے کے لیے مہنگائی،بے روزگاری، کسانوں، مزدوروں اور خواتین کی دقتوں کو دُور کرنے پرتوجہ مرکوزکرے۔دفعہ370ہٹانے سے قبل جموں و کشمیر میں دہشت گردانہ واقعات ہو رہے تھے۔ سرحد کی حفاظت کررہے جوانوں کوزندگیوں کی قربانیاں دینی پڑرہی تھیں۔یہ سلسلہ ابھی بھی جاری ہے۔ دہشت گرد اپنی حرکتوں سے باز نہیں آ رہے ہیں۔اَب بھی ہمارے جوانوں کو شہادت کا جام پینا پڑ رہا ہے۔ دہشت گردانہ واقعات کے پیچھے پڑوسی ملک کا ہاتھ ہے۔عالمی سطح پریہ مسئلہ اُٹھانے کے باوجود ہم پاکستان کا علاج نہیں کر پائے۔نواز شریف اور اٹل بہاری واجپئی کے دوراقتدار میں دونوں ممالک کے درمیان دوستانہ ماحول تھا۔کیا شہباز شریف اور نریندر مودی کے دور حکومت میں ویسا ماحول پھر سے نہیں بنایا جا سکتا؟ کشمیریوں کا بھروسہ پانے کے لیے اسمبلی انتخابات کرانا تو ضروری ہے ہی،جموں و کشمیر کو ریاست کا درجہ دینا بھی از حد ضروری ہے۔ 20جون کو جموں و کشمیر میں زراعت اور اس سے منسلک شعبوں کے منصوبوں کا آغاز کرتے ہوئے وزیراعظم نریندر مودی کی جموں و کشمیر میں انتخابات ہونے اور اسے جلدی ہی مکمل ریاست کا درجہ دیے جانے کی یقین دہانی سے اُمید کی جانے چاہیے کہ ا سمبلی انتخابات کے بعد جموں و کشمیرکو ایک مرتبہ پھر ریاست کا درجہ حاصل ہو جائے گا۔
(مضمون نگار سینئر صحافی اور اَدیب ہیں)
[email protected]