صبیح احمد
حالیہ عام انتخابات کے نتائج سے تلملائی بی جے پی نے کانگریس کے ’اسلحہ‘ سے ہی اس پر پلٹ وار کرنے کی بھر پور کوشش کی لیکن انہیں کامیابی نہیں مل سکی۔ آئین کے حوالے سے کانگریس کا وہ بیانیہ ہی تھا جس کی وجہ سے الیکشن کے دوران اچانک بازی پلٹ گئی۔ حالانکہ بی جے پی نے اسے اپنے حق میں کرنے کی ہرممکن کوشش کی، تمام تر حربے اپنائے اور طرح طرح کا بیانیہ ترتیب دیا لیکن اس کا کوئی بھی حربہ کام نہ آیا۔ کانگریس کا پیغام سماج کے تمام طبقوں، خاص طور پر نچلی سطح تک پہنچ چکا تھا۔ آخر کار جو ہونا تھا وہ ہوا۔ گزشتہ 2 عام انتخابات کے نتائج کی بنیاد پر خوش فہمی میں مبتلا ’400 پار‘ کا نعرہ دینے والی بی جے پی کی حالت یہ ہوگئی کہ خود اپنے دم پر حکومت بنانے کے قابل بھی نہیں رہی۔ وزیراعظم مودی کی قیادت میں بی جے پی نے تیسری بار حکومت تو بنا لی لیکن بیساکھیوں کے سہارے۔ اسے نتیش کمار کی جے ڈی یو اور چندرا بابو نائیڈو کی ٹی ڈی پی کی مدد لینے پر مجبور ہونا پڑا۔ کسی طرح حکومت تو بن گئی ہے لیکن دھچکے کی چبھن ختم نہیں ہو پا رہی ہے۔ پارٹی اس غور وفکر اور تجزیہ میں لگ گئی ہے کہ آخر یہ کیسے ہوگیا؟ بھگوا بریگیڈ کی تمام حکمت عملیاں یوں ناکام کیسے ہو گئیں؟ اس خلش کا ہی نتیجہ ہے کہ حکومت بنتے ہی سب سے پہلے جلد بازی میں پارلیمنٹ کے اجلاس بلا کر 50 سال قبل کے کانگریس کے ایک پرانے زخم کو کریدنے کی کوشش کی۔ 1975 میں نافذ کردہ ایمرجنسی کے خلاف غیرمتوقع طور پر پارلیمنٹ میں ایک مذمتی قرارداد پیش کر دی۔
یعنی 18ویں لوک سبھا کے پہلے اجلاس سے ہی حکمراں پارٹی اور اپوزیشن کے درمیان بیانیہ کی جنگ شروع ہوگئی ہے۔ جہاں اپوزیشن اتحاد ’انڈیا‘ نے پارلیمنٹ میں ’آئین کی فتح‘ کا بیانیہ ترتیب دیا، اس کے جواب میں بی جے پی نے ایمرجنسی کی مذمت کی تحریک لا کر کانگریس کو گھیرنے کی کوشش کی۔ لیکن متحدہ اپوزیشن نے پارلیمنٹ میں نیٹ اور طلبا کا مسئلہ اٹھا کر بی جے پی کی اس حکمت عملی کو بھی ناکام بنا دیا۔ کانگریس اور اپوزیشن اتحاد نیٹ کے معاملے پر متحد نظر آرہے ہیں۔ اپوزیشن نے پیپر لیک اور دیگر مبینہ بے ضابطگیوں کی وجہ سے داخلہ امتحانات کو ملتوی کرنے اور منسوخ کرنے کے بارے میں مرکزی حکومت پر براہ راست دبائو بنا رکھا ہے۔ کانگریس لیڈر راہل گاندھی نے ایک ویڈیو پیغام جاری کیا ہے، جس میں انہوں نے طلبا سے ’سڑک سے لے کر پارلیمنٹ تک‘ ان کے لیے لڑنے کا وعدہ کیا ہے۔ کانگریس اور اپوزیشن اتحاد پارلیمنٹ کے اجلاس میں تقریباً روزانہ یہ ایشو اٹھا رہا ہے۔ جمعہ کو لوک سبھا میں اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی نے ایوان کی کارروائی شروع ہوتے ہی نیٹ کا ایشو اٹھایا۔ اسی طرح راجیہ سبھا میں قائد حزب اختلاف ملکارجن کھرگے نے نیٹ پیپر لیک کا ایشو اپوزیشن ارکان پارلیمنٹ کے ساتھ اٹھایا اور کہا کہ اس معاملے پر بات ہونی چاہیے۔ انڈیا بلاک کی میٹنگ میں یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ اپوزیشن نیٹ کے معاملے پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گی۔ وہ پارلیمنٹ کے باہر اور اندر اس ایشو کو اٹھاتے رہیں گے۔ کانگریس پارٹی طلبا کو مسلسل پیغام دے رہی ہے اور اس ایشو پر ان کے ساتھ کھڑی ہے۔ راہل خود پارلیمنٹ میں طلبا کی قیادت کر رہے ہیں۔ وہ نیٹ پر بحث میں بھی حصہ لے سکتے ہیں۔
بہرحال اپوزیشن انتہائی جارحانہ انداز میں حکومت کو گھیرنے کی کوشش کر رہی ہے اور کم از کم ابھی تک وہ اس میں کامیاب ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پارلیمنٹ کے پہلے ہی اجلاس میں حکومت نے اپوزیشن کے اس جارحانہ انداز پر لگام کسنے کے لیے ایمرجنسی کے نفاذ کی 50 ویں برسی پر اس کے خلاف ایک مذمتی قرارداد پیش کر دی۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ آخر 1975 کی ایمرجنسی کے خلاف ہی اکثر کیوں آواز اٹھائی جا رہی ہے؟ کیا یہ آئین سے ماورا قدم تھا؟ آئین میں اس کا التزام ہے یا نہیں؟ کیا اس سے پہلے ملک میں کبھی ایمرجنسی یا ہنگامی حالات کا اعلان نہیں کیا گیا؟ اور یہ ہے کہ ایمرجنسی ہوتی کیا ہے؟ درحقیقت ایمرجنسی کی ہندوستانی آئین میں ایک منفرد خصوصیت ہے جو حالات کے تحت وفاقی حکومت کو ایک وحدانی حکومت میں تبدیل کرتی ہے۔ ہمارے آئین میں اس طرح کی خصوصیت کو شامل کرنے کی واحد وجہ اس کے دیگر ستونوں کی حفاظت کرنا تھی۔ یہ دوسرے ستون – سالمیت، خودمختاری، اتحاد اور قوم کی سلامتی ہیں۔ ہندوستانی آئین میں ہنگامی دفعات کا تصور سیاسی انتشار اور قومی اتحاد کی ضرورت کے پس منظر میں کیا گیا تھا۔
ہندوستان کے آئین میں3 قسم کی ہنگامی صورتحال کا ذکر کیا گیا ہے: قومی ایمرجنسی، اسٹیٹ (ریاستی) ایمرجنسی اور مالیاتی ایمرجنسی۔ آئین کے حصہ XVIII کے آرٹیکل352 کے تحت قومی ایمرجنسی، آرٹیکل 356 کے تحت ریاستی ایمرجنسی اور آرٹیکل 360 کے تحت مالیاتی ایمرجنسی کا التزام ہے۔اولالذکر 2 ایمرجنسی کا نفاذ تو کئی بار ہو چکا ہے لیکن آخرالذکر مالیاتی ایمرجنسی کبھی نافذ نہیں کی گئی ہے۔ اب تک 3 بار قومی ایمرجنسی کا نفاذ کیا جا چکا ہے۔ سب سے پہلے 1962 میں ہند-چین جنگ کے دوران ایمرجنسی لگائی گئی تھی۔ دوسری بار 1971 میں ہند-پاک جنگ کے دوران ایمرجنسی کا اعلان کیا گیا تھا۔ تیسری بار 1975 میں ’داخلی خلفشار‘ کی وجہ سے ایمرجنسی لگائی گئی تھی۔ اس پر کافی تنازع ہوا تھا جو آج تک جاری ہے۔ یہ ایمرجنسی وزیراعظم اندرا گاندھی نے لگائی تھی۔ آئین کے آرٹیکل 352 کے تحت اس وقت کے صدر جمہوریہ فخرالدین علی احمد کے حکم کے مطابق یہ ایمرجنسی 25 جون 1975 سے 21 مارچ 1977 تک نافذ رہی۔ اس مدت کو ہندوستان کی تاریخ میں آزادی کے بعد سب سے زیادہ متنازع دور قرار دیا جاتا ہے کیونکہ اس دور کو بے لگام ریاستی قید و بند، اختلاف رائے کو دبانے اور شہری آزادیوں پر حکومتی کریک ڈاؤن کے لیے یاد کیا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اندرا گاندھی کی طرف سے ایمرجنسی کا نفاذ اقتدار کی مرکزیت، بدعنوانی اور مہنگائی کی وجہ سے ان کی حکمرانی کے خلاف بڑھتے ہوئے شہری احتجاج کا ردعمل تھا۔ ایمرجنسی الٰہ آباد ہائی کورٹ کے اس فیصلے کا بھی ردعمل تھا جس نے انہیں انتخابی بددیانتی کا مجرم ٹھہرایا تھا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا 1975 میں نافذ کردہ ایمرجنسی کو ماورائے آئین قرار دیا جا سکتا ہے؟ نہیں۔ کیونکہ آئینی التزامات کے تحت یہ ایمرجنسی لگائی گئی تھی لیکن یہ بات صحیح ہے کہ اس دوران بڑے پیمانے پر زیادتیاں کی گئیں جو آئینی التزامات کے غلط استعمال کے زمرے میں آسکتی ہیں یا آتی ہیں۔ اگرچہ ایمرجنسی کو حکومت نے ’اندرونی خلفشار‘ کو کنٹرول کرنے کے لیے ایک ضروری اقدام کے طور پر جائز قرار دیا تھا، لیکن شہری آزادیوں اور سیاسی اختلاف کو دبانے کے لیے اس پر بڑے پیمانے پر تنقید کی جاتی رہی ہے۔ اس عرصہ میں انسانی حقوق کی بڑے پیمانے پر خلاف ورزیاں اور پریس سنسر شپ دیکھنے میں آئی۔ حالانکہ یہ مستقبل میں ایسے منظرناموں کو روکنے کے لیے ہندوستانی آئین میں ’چیک اینڈ بیلنس‘ کی ضرورت کو بھی سامنے لائی۔ اس حوالے سے 44ویں ترمیم نے ہندوستانی آئین میں ہنگامی دفعات کی تصویر کو تبدیل کر دیا ہے۔ اس ترمیم نے ایگزیکٹو کے غیر منصفانہ اثر و رسوخ کو محدود کر دیا ہے۔ ایمرجنسی سے متعلق آئینی شق میں ’اندرونی خلفشار‘ کی جگہ ’مسلح بغاوت‘ نے لے لی ہے۔ اگرچہ بحرانوں سے نمٹنے کے لیے ہنگامی حالات کا اعلان ضروری ہے، لیکن ان کا غلط استعمال ہونے کا خطرہ لاحق رہتا ہے، جیسا کہ 1975 کی ایمرجنسی کے دوران دیکھا گیا۔ نازک توازن کو برقرار رکھنا بہت ضروری ہے۔ اس لیے پرانے زخم کو بار بار کریدنے کے بجائے آئینی طور پر ایسے انتظامات کیے جانے چاہئیں کہ کوئی بھی حکومت دوبارہ اس طرح کی حماقت نہ کر سکے۔
[email protected]