تاریخ اوردنیا کے سب سے ’مظلوم‘ ملک اسرائیل نے غزہ پر کارروائی کرکے اب تک کئی ہزار بچوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا ہے۔ پوری دنیا اس سفاکی کی سخت الفاظ میں مذمت کرتی ہے مگراس سفاکی کو روکنے کے لیے عملی اقدام پرتوجہ نہیں دیتی ہے۔ اقوام متحدہ نے اس صورت حال کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہاہے کہ 7اکتوبر 2023اب تک اسرائیل کی فوجی کارروائی میں 21ہزار بچے لاپتہ ہوچکے ہیں۔ یہ اعدادوشمار کسی مسلم، عرب ادارے یاایجنسی کے نہیں بلکہ برطانیہ کی تنظیم’سیوچلڈرن‘(Save Children)جو بچوں کے حقوق کے لیے پوری دنیا میں اپنی خدمات انجام دے رہی ہے، نے جاری کیے ہیں۔ یہ صرف براہ راست جنگ،بمباری وغیرہ میں مارے جانے والے بچوں کی موت کے اعدادوشمار ہیں۔ فاقہ کشی، پانی کی کمی، دوا اور علاج نہ ہونے سے جو بچے مر رہے ہیں، ان کا ذکر ان اعدادوشمار میں نہیں ہے۔اقوام متحدہ نے بچوں کے تئیں اسرائیل کی فوج کے ظالمانہ رویہ کو دیکھتے ہوئے اسرائیلی فوج کو بلیک لسٹ میں ڈال دیاتھا۔ اس بابت اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل میں یہ رپورٹ سکریٹری جنرل انٹیونیوگوئیتریس نے خود پیش کی۔ اس بلیک لسٹ کو تیار کرتے ہوئے جن امور کا خیال رکھا گیا تھا، ان میں بچوں کو قتل کرنا، ان کے جسم کے اعضاء کو نقصان اورتکلیف پہنچانا، جنسی تشدد کرنا، اغوا کرنا، بچوں کو فوج اور جنگی مقاصد کے لیے بھرتی کرنا اور ان کو جنگی مقاصد کے لیے استعمال کرنا، طبی مدد اور دیگر اقسام کی مدد سے محروم رکھنا، اسکولوں اور اسپتالوں پرحملہ کرنا شامل ہے۔ایک اور عالمی مطالعے میں اسرائیل میں بچوں کے تئیں ظالمانہ رویہ کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔عالمی میڈیا ادارے الجزیرہ اور فورنسک آرکٹیکچر(Forensic Architechture)نے مشترکہ طورپر تفتیش کی اور ایک المناک سانحہ کو رپورٹ کیا ہے جس میں ایک چھ سال کی بچی ہندرجب کواسرائیل ٹینک نے فائر کرکے اس وقت مار ڈالا جب وہ اپنے اہل خانہ کے ساتھ چندگز کی دوری پر کھڑی ہوتی تھی۔برطانیہ کی این جی او’سیوچلڈرین‘ نے غزہ کے 21ہزار بچوں کی گمشدگی کاڈاٹا پیش کیاہے جو گمشدہ ہیں۔ ان کو غائب کردیاگیا ہے۔ حراست میں لے لیاگیا ہے، یہ زمین میں دفن ہیں، منہدم عمارتوں میں دب گئے ہیں یا اجتماعی قبروں کا حصہ بن گئے ہیں۔یہ پہلا موقع نہیں ہے جب اقوام متحدہ نے غزہ کو بچوں کو قبرستان قرار دیا ہے، اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف نے کہاہے کہ اس جنگ کی سب سے بھاری قیمت بچے ادا کررہے ہیں۔ غزہ کے 90فیصد بچوں کے پاس کھانے، پینے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ غذا اور پانی کی کمی کی وجہ سے ان کی زندگی، صحت اور نشونما خطرے میں پڑی ہوئی ہے۔اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل نے نہ صرف غزہ بلکہ مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم میں بھی تقریباً اسی طرح کی سنگین صورت حال کی بابت توجہ دلائی ہے۔ اسرائیلی فوج ان علاقوں میں بچوں کو بطورخاص نشانہ بنارہی ہے۔ یواین او کی ماہ رواں میں ایک رپورٹ شائع ہوئی ہے جس میںکہاہے کہ ان تینوں مقامات پر بچوں کے خلاف 8009تشدد کی کارروائیاں ہوئی ہیں، جس کا شکار 4360فلسطینی بچے ہوئے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ایک اور ادارے یواین آرڈبلیواے نے کہاہے کہ غزہ کے پچاس ہزار بچوں کو فوری طبی امداد اور غذا درکار ہے۔اقوام متحدہ کے ادارے برائے صحت ڈبلیو ایچ او نے طبی ماہرین کی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ غزہ میں آٹھ ہزار بچوں کا غذاکی کمی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کا علاج کیاجارہاہے۔ ان میں 1600بچوں کی حالت بہت خراب ہے اور وہ موت کے دہانے پرہیں۔ بھوک کی وجہ سے بچوں کے مرنے کا سلسلہ لگاتار بڑھتا ہی جارہاہے۔غزہ کاشمار دنیا کے چند علاقوں میں ہوتاتھا جہاں پر خواندگی کی شرح غیرمعمولی طورپربہت زیادہ ہے۔ موجودہ جنگ سے قبل کے اعدادوشمار کے مطابق غزہ میں شرح خواندگی 95.7فیصد تھی اور وہاں کا عام باشندہ تمام مسائل اور مصائب کے باوجود دنیا کے سب سے تعلیم یافتہ علاقہ میںشامل تھا۔ مگر7اکتوبر2023کے بعد سے جو اعدادوشمار آنا شروع ہوئے ہیں، وہ بہت دل خراش ہیں۔ یہ مردم خیز علاقہ اب تک دانش گاہوں اور دانشوروں کے لیے جانا جاتا تھا اور اب یہ بچوں کا مقتل بن گیاہے۔ گزشتہ دنوں ماہ جون کے اوائل میں جواعدادوشمار سامنے آئے ہیں، ان کے مطابق 9ماہ سے جاری جنگ میں 7,797بچے مارے جاچکے ہیں۔ غزہ کی وزارت صحت جس کو اقوام متحدہ قابل بھروسہ سمجھتا ہے، کا کہناہے کہ ساڑھے پندہ ہزاربچے اسرائیل کی فوجی کارروائی میں لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے جب غزہ میں بچوں کو اس طرح بے دریغ قتل کیاگیا ہو، اس سے قبل2014میں اسرائیل کی کارروائی میں 540بچے مارے گئے تھے۔n
غزہ کے 21ہزار بچے کہاں پیوند خاک ہوگئے؟
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS