’ترقی یافتہ‘ ہندوستان اور بھوکے بچے

0

لوک سبھا انتخاب کے دوران بھارتیہ جنتاپارٹی نے سال 2023 میں28کروڑ افراد کے غربت سے باہر نکلنے کی خبروں پر دھواں دھار مہم چلائی تھی اورا سے ایک بڑی کامیابی سے تعبیر کرتے ہوئے ووٹروں کو بتایا تھا کہ یہ مودی جی کا فیض عام اگر جاری رہا تو آنے والے برسوں میں ہندوستان سے غربت کا مکمل خاتمہ ہوجائے گا۔انتخاب ہوئے، نتائج آئے، حکومت بنی، نریندر مودی تیسری بار ملک کے وزیراعظم بن گئے۔اس دوران یونیسیف نے ایک رپورٹ جاری کی ہے جس کے مشمولات بتاتے ہیں کہ ترقی کے تمام تر دعوئوں کے درمیان ہم آج بھی وہیں کھڑے ہیںجہاں چار دہائی قبل تھے۔بچوں کے حوالے سے یونیسیف نے جو رپورٹ جاری کی ہے ،اس میں کئی چونکا دینے والے انکشافات سامنے آئے ہیں۔اس رپورٹ میں ہندوستان کا شمار دنیا کے ان بدترین ممالک میں کیاگیا ہے جہاں بچوں کو مناسب غذائیت نہیں ملتی ہے۔
اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھوک کے حوالے سے ہندوستان کی صورتحال بہت خراب ہے۔ یہاں بچوں کو مناسب خوراک نہیں ملتی۔ حیران کن بات یہ ہے کہ پاکستان کی صورتحال ہندوستان سے بہتر ہے۔ رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ دنیا میں ہر چوتھا بچہ بھوک کا شکار ہے اور اچھی خوراک حاصل کرنے کیلئے جدوجہد کر رہا ہے۔ 181 ملین بچوں میں سے 65 فیصد بچے شدید بھوک میں رہنے پر مجبور ہیں۔یہ نتائج یونیسیف کی عالمی ’چائلڈ نیوٹریشن رپورٹ 2024‘ کا حصہ ہیں۔ یونیسیف کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ عالمی سطح پر 4 میں سے 1 بچہ شدید زمرے میں آتا ہے اور انتہائی ناقص خوراک کے ساتھ زندگی گزار رہا ہے۔ یونیسیف نے اپنی ’چائلڈ نیوٹریشن رپورٹ 2024‘ میں 92 ممالک پر تحقیق کی۔ دستیاب اعداد و شمار کے مطابق92 ممالک میں بچوں کی خوراک کی شدید غربت میں رہنے والے بچوں کی شرح بیلاروس میں 1 فیصد سے لے کر صومالیہ میں 63 فیصد ہے، جب کہ ہندوستان میں یہ شرح 40 فیصد ہے، جسے ’ سنگین‘ زمرے میںرکھا گیا ہے۔ صومالیہ کے بعد گنی (54 فیصد)، گنی بساؤ (53 فیصد)، افغانستان (49 فیصد)، سیرا لیون (47 فیصد)، ایتھوپیا (46 فیصد) اور لائبیریا(43 فیصد) میں صورتحال سب سے زیادہ خراب ہے۔ ہندوستان میں بچوں کی غربت کی شرح 40 فیصد ہے جو کہ بہت ہی سنگین زمرے میں آتی ہے۔ پاکستان کے حالات ہندوستان سے بہتر ہیں یہاں کے 38 فیصد بچے غذائی قلت کا شکار ہیں۔ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ ہندوستان ان 20 ممالک میں شامل ہے جہاں بچوں کو ضروری غذائیت سے بھرپور خوراک نہیں مل رہی ہے۔
اس عالمی مطالعہ کے نتائج ہندوستان کیلئے اہم ہیں۔ مرکزی وزارت صحت کے نیشنل فیملی ہیلتھ سروے 5 کے مطابق اس سے کم عمر بچوں میں سٹنٹنگ(بچوں کی جسمانی نشوو نما)کا پھیلاؤ 35.5 فیصد اور کم وزن کی شرح 32.1 فیصد ہے۔ اگر دیکھا جائے تو ملک میں جو بھی غربت اور بھوک مٹانے کیلئے کئی سرکاری اسکیمیں چل رہی ہیں،اس کے علاوہ مرکزی اور ریاستی حکومتوں کی طرف سے بچوں کو غذائیت سے بھرپور کھانا فراہم کرنے کی اسکیمیں بھی چلائی جا رہی ہیں۔ آئی سی ڈی ایس اسکیم پہلی بار ملک میں 2 اکتوبر 1975کو خواتین اور بچوں کی ترقی کی وزارت نے شروع کی تھی۔ اس اسکیم کو ابتدائی بچپن کی دیکھ بھال اور نشوونما کیلئے دنیا کے سب سے بڑے اور منفرد پروگراموں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ اس اسکیم میں کمزور گروپوں کو نشان زد کیاگیاہے جن میں 0-6 سال کی عمر کے بچے، حاملہ خواتین اور دودھ پلانے والی مائیں شامل ہیں۔ یہ اسکیم 6 خدمات کا مکمل پیکیج فراہم کرتی ہے یعنی سپلیمنٹری نیوٹریشن، امیونائزیشن، ہیلتھ چیک اپ، نیوٹریشن اور ہیلتھ ایجوکیشن، پری اسکول کی غیر رسمی تعلیم اور ریفرل سروسز وغیرہ۔ اس کے علاوہ مڈ ڈے میل اسکیم،اندرا گاندھی میٹرنٹی سپورٹ اسکیم بھی چلائی جاتی ہے۔ان سب کے باوجود اگر ملک میں غذائی قلت برقرار ہے اور بچوں کوغذائیت سے بھرپور کھانا نہیں مل رہاہے تویہ حکومت کی کھلی ناکامی ہے۔
ممکن ہے حکومت اس حوالے سے یونیسیف کے ڈیٹا پر ہی سوال اٹھائے اوراسے ہندوستان کے خلاف سازش قرار دے لیکن اس کے باوجود اس ڈیٹا کو مکمل طور پر رد نہیں کیاجاسکتا ہے۔غذائیت کی کمی معاشرے اور خاص طور پر حکومت کیلئے سنگین تشویش کا باعث ہوناچاہیے۔ غذائیت کے حوالے سے 2030 کیلئے مقرر کردہ اہداف کے مطابق دنیا میں پانچ سال سے کم عمر بچوں میں ضائع ہونے کی شرح کو 3 فیصد تک لانا ہوگا۔28 کروڑ افراد کو غربت کے دائرہ سے باہر نکال کر اسے عالمی ترقی کا سنہرا باب قرار دینے کے باوجودہندوستان میں فی الحال یہ شرح 31.7فیصد ہے۔اس صورتحال میں 2030 تک ہندوستان اپنے لیے مقرر کردہ ہدف کیسے حاصل کر پائے گا، اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS