پریم پرکاش
گلوبل وارمنگ کے ساتھ پانی کے بحران کا معاملہ اب تشویش سے زیادہ حقیقت ہے۔ اس بارے میں آج کوئی ایک ملک نہیں، بلکہ پوری دنیا فکرمند ہے۔ بات کریں ہندوستان کی تو ایک ہی وقت میں خوفناک سیلاب اور بوند بوند پانی کے لیے ہاہاکار ملک کے مختلف حصوں میں نظر آرہا ہے۔ پانی کو لے کر ہندوستان کے لیے صورتحال اس لیے بھی سنگین ہے کہ دنیا کی کل آبادی میں ہندوستان کی حصہ داری 18فیصد ہے، جبکہ عالمی تناسب کے لحاظ سے پینے کے لائق صاف پانی کے چار فیصد وسائل ہی یہاں دستیاب ہیں۔ ہم اکیلے اتنا زیادہ زیرزمین پانی ضائع کرتے ہیں، جتنا امریکہ اور چین مل کر کرتے ہیں۔
بات زراعت کی کریں تو زیرزمین پانی پر ہمارا انحصار سب سے زیادہ ہے۔ زراعت سے لے کر باقی تمام شعبوں میں پانی کے کفایتی استعمال پر ہمیں غور کرنا ہوگا۔ اچھی بات یہ ہے کہ آج جو صورت حال ہے اس میں اب حکومتوں کے لیے پانی مسئلہ نہیں، بلکہ مشن ہے۔ وقت کے ساتھ بدلتی حکومتوں کی یہ نئی حقیقت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ کچھ دہائیوں میں آبی تحفظ کے تعلق سے دنیا کے نقشہ پر کئی ماڈل اُبھرے ہیں۔ تبدیلی کے اس سفر کی ایک سائیڈ پر سنگاپور جیسا چھوٹا ملک ہے تو دوسری سائیڈ پر ہندوستان جیسا بڑی آبادی اور جغرافیائی ملک۔ نئی حکومت کی تشکیل کے ساتھ ہی وزیراعظم نریندر مودی نے کچھ باتیں واضح طور پر ملک کے سامنے رکھی ہیں۔ انہوں نے جہاں ترقی یافتہ ہندوستان کی تعمیر کے تعلق سے اپنے عزم کو دہرایا، وہیں حکومت کی پہلے سے چل رہے منصوبوں کو آگے بڑھانے کی بات بھی کہی۔ اس بارے میں کابینہ کے ساتھیوں کو انہوں نے خاص طور پر کچھ ہدایتیں دی ہیں۔ البتہ، بڑھتے درجہ حرارت کے درمیان پانی کے مسئلہ کی جو صورتحال ملک کے دارالحکومت اور باقی حصوں میں ہے، اس میں ضرور حکومت کی پالیسی اور نظریہ کے تعلق سے کچھ باتیں کلیئر ہونے کی ہیں۔ بہرحال، بات پہلے سنگاپور کی۔ دنیا بھر میں سیروتفریح کے لیے سب سے پسندیدہ مقام اور بزنس ڈیسٹینیشن کے طور پر سنگاپور کا نام پوری دنیا میں ہے۔ تین دہائی پہلے جب ڈیجیٹلائزیشن پر زور دیا گیا تو پوری دنیا کی کمپنیوں نے اپنے پروڈکٹس کو یہیں سے تمام ممالک میں بھیجنا اور مارکیٹنگ کرنا سب سے بہتر مانا۔ لیکن جیسا کہ آج وہاں کے لوگوں کو لگتا ہے کہ سنگاپور کی ایک دوسری پہچان بھی ہے جو زیادہ محرک ہے، زیادہ موزوں ہے۔ آنے والی چار دہائیوں کے لیے آج سنگاپور کے پاس واٹرمینجمنٹ کو لے کر ایسا بلیوپرنٹ ہے، جس میں آبی تحفظ سے پانی صاف کرنے تک پانی کی کفایت اور اس کے بچاؤ کو لے کر تمام طریقے شامل ہیں۔ سنگاپور کی خاص بات یہ بھی ہے کہ اس کا واٹرمینجمنٹ شہری علاقوں کے لیے خاص طور پر مفید ہے۔
غورطلب ہے کہ سنگاپور ایسا شہر-ملک ہے، جس کے پاس نہ تو کوئی نیچرل واٹر یونٹ ہے، نہ ہی خاطرخواہ زمینی پانی کے ذخائر ہیں، اتنی اراضی بھی نہیں کہ بارش کے پانی کا ذخیرہ کرسکے۔ ایسے میں گندے پانی کو صاف کرنے، سمندری پانی کا کھارہ پن کم کرنے اور بارش کے پانی کے زیادہ سے زیادہ ذخیرہ کرنے کے ساتھ سنگاپور نے پانی سے وابستہ اپنی ضرورتوں کو پورا کرنے کا ایسا ماڈل تیار کیا، جو ایڈوانسڈ ٹیکنالوجی کے ساتھ سماجی تبدیلی کی بڑی مثال ہے۔ سنگاپور سے ہندوستان ترغیب تو حاصل کرسکتا ہے، لیکن ہمارے ملک کی آبادی اور جغرافیہ زیادہ مخلوط اور جامع ہے۔ لہٰذا پانی کو لے کر ہندوستانی درکار اور سروکار بھی کافی مختلف ہیں۔ اسے ہندوستانی سیاست میں ہوئی مثبت تبدیلی کے ساتھ حکومتی سطح پر آئی نئی منصوبہ بندی کی سمجھ بھی کہہ سکتے ہیں کہ اب صفائی اور گھر گھر ٹونٹی سے پانی کی رسائی جیسا ایشو سال کے ایک یا دو دن نعروں-پوسٹروں سے آگے حکومت کی اعلان کردہ ترجیح ہے۔ ہندوستان پانی اور صفائی کے سوال کو نہ صرف منصوبہ بند اہداف میں، بلکہ آہستہ آہستہ فروغ پاتی عوامی شرکت اور بیداری کے طور پر بھی دیکھ اور سمجھ رہا ہے۔ 10سال قبل نیویارک کے میڈیسن اسکوائر پر ہندوستانی برادری کو مخاطب کرتے ہوئے وزیراعظم مودی نے کہا بھی تھا کہ ہم گنگا کو صاف کرنے میں کامیاب ہوگئے تو یہ ملک کی 40فیصد آبادی کے لیے بڑی مدد ثابت ہوگی۔
آج ہم اس مقام پر ہیں جب کامیابی سے زیادہ پہلے اور بعد کا فرق دیکھ سکیں۔ یہ فرق تب اور اہم معلوم ہوگا جب ہم اس نظریہ سے غور کریں کہ ہندوستان جیسے جغرافیائی اور نظریاتی فرق والے ملک میں کوئی اتفاق رائے قائم کرپانا آسان نہیں ہے۔ یہ بھی کہ ہندوستان میں پانی ریاست کا ایشو ہے۔ لہٰذا خاص طور پر ندیوں کو لے کر کسی یونیفائڈ پروجیکٹ پر اتفاق کے ساتھ آگے بڑھنا چیلنجنگ ہے۔ پانی کو لے کر ہندوستان کی صورت حال میں تبدیلی نظر آنے کی ایک بڑی بنیاد حکومت کی سمجھ اور پالیسی ہے۔ ملک میں حکومتوں کی منصوبہ بند تفہیم اور عزم میں نظر آئی کمزوری ہی رہی ہے کہ عقیدت سے لے کر معیشت تک کے لیے اہم ندیوں کو سینٹر میں رکھ کر دہائیوں تک کوئی فیصلہ کن قدم نہیں اٹھایا گیا۔ پانی کو لے کر کام کررہے تمام محکموں کو ساتھ لے کر 2019میں وزارت جل شکتی کی تشکیل کے بعد پانی کے شعبہ میں ہم کافی آگے بڑھے ہیں۔ یہ سبقت گنگا سمیت کئی ندیوں کی ’کایاکلپ‘ سے وابستہ کوششوں سے لے کر امرت سروور مشن تک کئی سطحوں پر کامیابی کے اعدادوشمار کی شکل میں سامنے ہیں۔
نمامی گنگے دس سال کا سفر پورا کررہی ہے۔ وائلڈ لائف انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا کی جانب سے 2020-23تک کیے گئے سروے میں گنگا اور اس کی معاون 13ندیوں میں 3936ڈالفن ملی ہیں۔ یہ ملک میں ندی کے پانی کی شفافیت کی بہتر ہوئی صورت حال کا ثبوت ہے۔ نمامی گنگے کو اقوام متحدہ کا ماحولیاتی پروگرام (United Nations Environment Programme) اور اقوام متحدہ کی فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن(ایف اے او) کے ذریعہ چلائے گئے ایک گلوبل موومنٹ کے تحت ٹاپ10ورلڈ ریسٹوریشن فلیگ شپ میں جگہ دی گئی ہے۔ اقوام متحدہ کی یہ ستائش ہندوستان کی واٹر پالیسی اور وـژن کی بڑی ٹیسٹی مونی ہے۔ آج ملک میں 14.85کروڑ سے زیادہ دیہی کنبوں تک نل سے صاف پانی پہنچ رہا ہے۔ نوبل انعام یافتہ پروفیسر مائیکل کریمر کی ایک ریسرچ کے مطابق سبھی دیہی کنبوں تک کوریج کے ساتھ جل جیون مشن(پانی زندگی ہے مشن) کے عملدرآمد سے بچوں کی شرح اموات میں سالانہ 1.36کروڑ کی کمی آئے گی۔ واضح ہو کہ پانی کے ساتھ منمانی کے خطرے کو سمجھتے ہوئے ملک آج ضروری جوابدہی اور سمجھداری کے دور میں ہے۔ آبی تحفظ کو لے کر معاشرہ اور حکومت کا ایک سمت میں آگے بڑھنا نہ صرف کارگر رہا ہے، بلکہ مستقبل کے خطرات کے لحاظ سے بھی ضروری پہل ہے۔
rvr