اسپیکر کے عہدہ کیلئے ہونے والے انتخاب میں یہ الگ بات ہے کہ راجستھان سے تعلق رکھنے والے حکمراں بھارتیہ جنتاپارٹی کے 62سالہ اوم برلا دوبارہ صوتی ووٹ سے الیکشن جیت کر مسلسل دوسری بار لوک سبھا کے اسپیکر منتخب ہوئے ہیں۔اگلے پانچ برسوں تک ایوان کی لگام ان کے ہاتھ میں رہے گی۔ ایوان کی کارکردگی، سرگرمی اور قانون سازی جیسے اہم معاملات میں ان کاکہا ہوا لفظ نقش کالحجر ہوگا نہ اس کی داد فریاد ہوگی اور نہ وہ قابل سماعت و مواخذہ ہی ٹھہرے گا۔ تکنیکی اعتبار سے ایک بار پھر وہ پارلیمانی جمہوریت کے ’مقدس محافظ‘بن چکے ہیں۔
ریاست اور حکومت کے جاریہ نظام میں پارلیمانی جمہوریت کی روایات کا حقیقی محافظ اگرکسی کو قرار دیا جاسکتا ہے تووہ یہی منتخب ارکان کا صدر نشیں ہے،جسے عرف عام میں اسپیکر کہاجاتا ہے۔ لوک سبھا کے اسپیکر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ پارلیمنٹ کے اراکین اپنے اپنے حلقوں کی نمائندگی کرتے ہیں، لیکن اسپیکر ایوان کے مکمل اختیار کی نمائندگی کرتا ہے۔ لوک سبھا کے اسپیکر کا انتخاب آئین کے آرٹیکل 93 کے تحت کیا جاتا ہے۔ حفظ مراتب کے لحاظ سے اسپیکر کا عہدہ کابینہ کے تمام وزرا سے بلند، چیف جسٹس آف انڈیا کے مساوی اور صدر، نائب صدر اور وزیر اعظم کے بعد دوسرے نمبر پر ہوتا ہے۔ایوان کے اندر یہ عہدہ وزیراعظم سے بھی زیادہ اہم ہے کیوں کہ اس عہدہ پر براجمان شخص حکومت کو بھی احکامات صادر کرتا ہے۔اس عہدے پر فائز ہونے کے بعد کوئی بھی شخص پارٹی مفادات اور وابستگیوں سے بالا تر ہوکرحقیقی جمہوریت کی علامت بن جاتا ہے۔ہندوستان کی پارلیمانی تاریخ میں لوک سبھا کے اسپیکر کو انتخاب کے بجائے باہمی رضامندی سے مقرر کرنے کی روایت رہی ہے۔ اس لیے اس انتہائی اہم عہدے کیلئے ایک ایسے شخص کا انتخاب کیا جاتا ہے جو نہ صرف ایوان کے قواعد و ضوابط سے واقف ہو بلکہ لوک سبھا کے رکن کے طور پر بھی کافی وقت گزار چکا ہو اور تمام جماعتوں کے ساتھ اس کے اچھے ذاتی تعلقات ہوں۔ اس عالی مرتبت عہدہ کے تقدس کا تقاضا ہے کہ اس پر اتفاق رائے سے کسی صاحب بصیرت کو براجمان کیاجائے نہ کہ اس عہدہ کیلئے انتخاب کرایا جائے۔
یہ ہندوستانی جمہوریت کی کم نصیبی ہے کہ 18ویں لوک سبھا میں اس اہم ترین عہدہ کیلئے بھی اتفاق رائے قائم نہ ہوسکا اور انتخاب کی نوبت آگئی اور نوبت اس لیے آئی کہ روایت کے مطابق حکمراں بھارتیہ جنتاپارٹی نے ڈپٹی اسپیکر کے عہدہ کیلئے اپوزیشن بلاک سے کسی کو نامزد کرنے سے صاف انکار کردیا۔ حالانکہ یہ روایت رہی ہے کہ بالعموم اسپیکر حکمراں جماعت کی جانب سے ہوتا ہے اور ڈپٹی اسپیکر اپوزیشن سے لیاجاتا ہے لیکن بھارتیہ جنتاپارٹی نے اس حسین جمہوری روایت کو قبول کرنے سے انکار کردیا جس کی وجہ سے اپوزیشن نے اسپیکر کے عہدہ کیلئے اوم برلا کے نام پر اتفاق نہیں کیا اور اپنا امیدوار کے سریش کوبناڈالا۔ سریش کیرالہ کی ماویلی کارا سیٹ سے 8 بار الیکشن جیت کر پارلیمنٹ پہنچے ہیں۔ وہ ایک دلت رہنما ہیں جنہوں نے پہلی بار 1989 میں کامیابی حاصل کی اور 2009 میں ڈاکٹر منموہن سنگھ کی حکومت میں وزیر محنت اور روزگار کے طور پر بھی خدمات انجام دیں۔ اس وقت وہ ان ارکان میں سے ایک ہیں جنہوں نے ایوان میں سب سے زیادہ مرتبہ کامیابی حاصل کی ہے۔ کانگریس نے ان کا نام پروٹیم اسپیکر کیلئے بھی پیش کیاتھا اور امید یہ تھی کہ ان کی سینئرٹی کو دیکھتے ہوئے انہیں پرو ٹیم اسپیکر بنایا جائے گا جو نو منتخب اراکین کو حلف دلائیں گے۔ لیکن حکمراں بھارتیہ جنتاپارٹی نے انہیں پروٹیم اسپیکر کے عہدہ کیلئے بھی موزوں نہیں سمجھاجس کے بعد اسپیکر کے عہدہ کیلئے انتخاب کی نوبت آگئی۔
غالباً لوک سبھا کی تاریخ میں یہ دوسرا موقع تھا جب حکمراں پارٹی اور اپوزیشن نے لوک سبھا میں اس عہدے کیلئے اپنے اپنے امیدوار کھڑے کیے۔ ملک کے پہلے عام انتخابات 1952 کے بعد تشکیل دی گئی پہلی لوک سبھا میں کانگریس نے جی وی ماولنکر کو نامزد کیا تھا اور اپوزیشن نے اس عہدے کیلئے شنکر شانتارام مورے کو نامزد کیا تھا۔ ماولنکر نے 394ووٹ حاصل کرکے اسپیکر کے عہدہ پر کامیابی حاصل کی تھی۔لیکن اس بار اپوزیشن کامیاب نہیں ہوسکا اور اوم برلا صوتی ووٹوں سے کامیاب ہوکر دوسری بار اسپیکر بنادیے گئے ہیں۔
اوم برلانے اپنی سابقہ مدت کار میں اپوزیشن کو کچلنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ وہ مباحثوں میں حکومت کو بچاتے تھے۔ 17ویں لوک سبھا بحیثیت اسپیکر اوم برلا کے نامہ اعمال میں اپوزیشن ارکان کے بیانات کو کارروائی سے ہٹانا، اپوزیشن ارکان کے مائیک بند کرنا، اپوزیشن جماعتوں کے ارکان پارلیمنٹ کو معطل کرنا، راہل گاندھی، مہوا موئتر اجیسی ارکان پارلیمنٹ کو نااہل ٹھہرانا،متنازع بلوں کو پاس کرانے کیلئے ایوان کو اپوزیشن سے ’پاک‘ کرنا وغیرہ شامل ہیں۔پارلیمانی جمہوریت کے حقیقی محافظ کے طور پر اوم برلا اس بار کیا کریں گے یہ تو آنے والا وقت بتائے گا لیکن ان کی سابقہ کارکردگی دیکھتے ہوئے اس شبہ کو تقویت مل رہی ہے کہ وہ حکمراں بھارتیہ جنتاپارٹی کے آمرانہ انداز حکمرانی پر آمنا و صدقنا کہتے ہوئے ہر وہ کام کرگزریں جو پارلیمانی جمہوریت کی روح کے منافی ہوتا ہے۔
[email protected]
اوم برلا -نئے خدشات
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS