مودی دور حکومت میں ہندوستان کی خارجہ پالیسی کئی سنگین چیلنجز سے گزر رہی ہے۔دنیا بھر میں ہونے والی ہنگامہ آرائی، بدامنی اور جنگ و جدل کے درمیان ہندوستان خود کو بہتر پوزیشن پر لانے کی کوشش ضرور کررہاہے مگراس میں کامیابی کی وہ شرح نہیں ہے جو اس سے قبل کے وزرائے اعظم کے ادوار میں دیکھی جاچکی ہیں۔ ’ پڑوسی پہلے‘ کا وظیفہ پڑھنے کے باوجود نیپال اور سری لنکا جیسے ممالک سے ہمارے تعلقات میں گرم جوشی کم ہورہی ہے۔ پاکستان سے رشتہ کا ذکر ہی بے جا ہے اور چین ہمارا دشمن ہی ٹھہرا۔میانمار اور بھوٹان سے تعلقات بے فیض اور بوجھ بن رہے ہیںتو مالدیپ سے کمزور پڑرہے رشتے سرخیوں میں ہیں۔ایک بچ جاتا ہے پاکستان کی طرح ہماری داخلی سیاست کا مرکز بننے والابنگلہ دیش۔ہندوستان کے ساتھ دنیا کی پانچویں طویل ترین سرحد شیئر کرنے والا یہ ملک ہماری تجارتی اور تذویراتی ضرورتوں کیلئے ناگزیرحیثیت رکھتا ہے اورشاید یہی وجہ ہے کہ انتخابی سیاست میں بنگلہ دیشی دراندازی کو اہم ترین موضوع بنانے اوراس کے ذریعہ مسلمانوں کو متہم اور بدنام کرکے ووٹ حاصل کرنے کے باوجوداس کے ساتھ رشتوں کی ڈور مضبوط بنانے کی ہر ممکن کوشش کی جارہی ہے۔
ہندوستان پر دھیرے دھیرے انحصار کم کررہے بنگلہ دیش کی خاتون وزیراعظم شیخ حسینہ کو مودی -3میں ہندوستان کے پہلے سرکاری مہمان کا درجہ حاصل ہوا۔بنگلہ دیش کی وزیراعظم شیخ حسینہ دو دنوں کے دورہ پر ہندوستان پہنچی تھیں۔ان کا یہ دورہ کئی لحاظ سے ہندوستان اور بنگلہ دیش دونوں کیلئے اہم اور تاریخی کہا جا سکتا ہے کیوںکہ دونوں ممالک کے درمیان طے پانے والے معاہدوں نے نہ صرف دوطرفہ تعلقات کو ایک نئی جہت دی ہے بلکہ سفارتی سطح پر بھی تعلقات کو ایک نئی سمت دی ہے۔دونوں ممالک نے کئی معاہدوں پر دستخط کیے ہیں جن میں بحری تعاون اور بحری معیشت، سمندری سائنس میں تعاون، ماہی گیری میں تعاون، ریلوے رابطہ،ڈیزاسٹر مینجمنٹ میں تعاون شامل ہیں۔ اس کے ساتھ ہندوستان آنے والے بنگلہ دیش کے شہریوں کیلئے ای میڈیکل ویزا کی سہولت شروع کیے جانے پر دونوں نے رضامندی ظاہر کی ہے۔نیز ہندوستان رنگ پور، بنگلہ دیش میں ایک نیا قونصل خانہ بھی کھولے گا تاکہ اس ملک کے شمال مغربی علاقے کے لوگوں کیلئے خدمات کی سہولت فراہم کی جا سکے۔ اگر دیکھا جائے تو وزیراعظم نریندر مودی اور بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ کے درمیان دو طرفہ ملاقات اس لحاظ سے بھی تاریخی رہی ہے کہ دونوں رہنماؤں نے باہمی تعاون کے طویل مدتی ایجنڈے کو حتمی شکل دی ہے۔ میٹنگ کے بعد ہندوستان اور بنگلہ دیش کی جانب سے ’ مستقبل کیلئے مشترکہ نقطہ نظر‘ کے عنوان سے ایک دستاویز جاری کیا گیا۔ اس میں جہاں ہندوستان نے بنگلہ دیش کے کئی مطالبات تسلیم کر لیے ہیں، وہیں بنگلہ دیش نے بھی اپنے پڑوسی ملک کے مفادات کو مدنظر رکھنے کا وعدہ کیا ہے۔ دونوں ممالک نے طویل المدتی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے دفاعی تعاون کی پالیسی بنانے کی بات کی ہے۔
اگر دیکھا جائے تو دونوں ملکوں کے تعلقات میں کچھ تلخی آئی ہے تو اس کی وجہ تیستا آبی معاہدہ ہے۔تیستا گنگا کی ایک معاون ندی ہے اور بنگال اور بنگلہ دیش سے گزرنے سے پہلے سکم میں شروع ہوتی ہے۔ ہندوستان کے پاس دریا کا 55 فیصد پانی ہے اور بنگلہ دیش پہلے سے ملنے والے پانی سے زیادہ بڑاحصہ چاہتا رہاہے۔ اس ندی کے سلسلے میں معاہدہ میںہندوستان کو کافی سفارتی مشقتوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ تیستا ندی کے پانی کے بٹوارے کے سلسلے میں دونوں ملکوں کے درمیان کئی ادوار کی میٹنگ ہوئی تھی جو نتیجہ ْخیزثابت نہیں ہوئی تو دوسری جانب اس سے مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ ممتابنرجی بھی ناراض ہوگئی تھیں۔ انہیں شکایت تھی کہ مغربی بنگال اس معاہدہ میں ایک فریق ہے لیکن اسے ان میٹنگوں میں شامل نہیں کیاگیا اور نہ ہی معاہدہ کے وقت مغربی بنگال کی رائے لی گئی۔ تاہم ممتابنرجی کی ناراضگی کی پروا کیے بغیر دریائے تیستا کے حوالے سے ہندوستان نے بنگلہ دیش کے ساتھ جو معاہدہ کیا ہے، اسے ہندوستان کی ایک بڑی کامیابی ضرور کہاجاسکتا ہے کیوں کہ تیستا معاہدہ سے ہندوستان کے دیرینہ مخالف چین کی حوصلہ شکنی ہوئی ہے۔عرصے سے چین دریائے تیستا کے بہانے بنگلہ دیش کی طرف سے بھی ہندوستان کو گھیرے میں لینے کی تیاری کر رہا تھا۔ ایسے میں اس معاہدہ نے چین کے منصوبوں کو خاک میں ملا دیا ہے۔ دریائے تیستا کے حوالے سے طے پانے والے معاہدے کے تحت ہندوستان اب اس دریا کے تحفظ اور انتظام میں بڑا کردار ادا کرنے جا رہا ہے۔ اس سے نہ صرف بنگلہ دیش کو فائدہ حاصل ہوگا بلکہ ہندوستان کو تجارت کیلئے ایک بڑی گزرگاہ ملنے کے ساتھ ساتھ اسے سیاسی اور تذویراتی فوائد بھی حاصل ہوں گے۔
تاریخی،سماجی اور ثقافتی حوالوں سے ہندوستان اور بنگلہ دیش کے مفادات مشترک ہیں، اس لیے ضروری ہے کہ دونوں ممالک کے تعلقات میں کھلے پن، مشترکہ اعتماد، تعاون اور باہمی احترام جیسے اصولوں کی پاسداری کی جائے اور اعتماد کا رشتہ مستحکم کیاجائے۔ ہندوستان اور بنگلہ دیش کے درمیان ہونے والے تازہ معاہدہ اس سمت میں اہم کردار ادا کرنے والے ہیں، اسے ہند-بنگلہ تعلقات کے نئے سنہرے دورکا آغاز بھی کہاجاسکتا ہے۔
[email protected]