ایم اے کنول جعفری
امتحان جہاں طلبا کی تعلیم اورقابلیت کی کسوٹی ہے،وہیں اس سلسلے میں منعقد ہونے والے سخت ترین مقابلہ جاتی امتحانات میں کامیابی کے بعد نوجوان سرکاری اعلیٰ عہدوں کے لیے منتخب ہوکر ملک کی خدمات انجام دینا چاہتے ہیں۔ یہ طلبا کا وہ خواب ہے،جسے تعلیم کے دوران وہ اور ان کے اہل خانہ شب وروز دیکھتے ہیں۔ جوطلبا اور طالبات کسی وجہ سے یوپی ایس سی،آئی پی ایس، آئی اے ایس جیسے اعلیٰ عہدوں تک رسائی حاصل کرنے یا میڈیکل کالجوں میں داخلے کے امتحانات این ای ای ٹی(نیٹ) میں کامیاب ہونے یا پی ایچ ڈی اور فیلو شپ کی اہلیت کے لیے ہونے والے امتحانات این ای ٹی(نَیٹ) میں پاس نہیں ہوپاتے، وہ دیگر سرکاری،نیم سرکاری اور غیر سرکاری نوکریاں حاصل کرنے پر اکتفا کے باوجود مزید امتحانات دیتے رہتے ہیں۔ ایسے طلبا و طالبات کی تعداد بھی کم نہیں ہے جو صحت، انصاف، انجینئرنگ، ٹیچنگ، بینکنگ، زراعت، صنعت، کمپیوٹرسائنس،خلائی سائنس اور جوہری سائنس سمیت سائنس کے دیگر شعبوں میں طبع آزمائی کرتے ہیں۔اپنا مستقبل خوش گوار بنانے اور اہل خانہ کی کفالت کا جذبہ رکھنے والے طلبا ہدف کے حصول کے لیے رات دن ایک کرکے امتحانات کی تیاری کرتے ہیں۔ لاکھوں طلبا سال سال بھر یا اس سے بھی زیادہ وقت کوچنگ کرتے ہیں۔ سخت محنت اور کوچنگ والے طلبا اس وقت ٹھگے رہ جاتے ہیں، جب امتحان کا پیپر لیک ہو جاتا ہے یا عین وقت پر امتحانات منسوخ کر دیے جاتے ہیں یا نمبر اتنے زیادہ دے دیے جاتے ہیں کہ عقل حیران ہوجاتی ہے یا بے سبب گریس مارکس دے کر بعد میں واپس لے لیے جاتے ہیں۔
مقابلہ جاتی امتحانات میں پیپر لیک ہونے یا امتحانات رد کرنے کا خمیازہ طلبا،طالبات یا نوکری کے لیے جدوجہد کر رہے اُمیدواروں کو بھگتنا پڑتا ہے۔ ایک کے بعد ایک امتحان کی منسوخی سے لگتا ہے کہ لاکھوں نوجوانوں کے مستقبل سے کھیلنے اور موٹی رقم کے عوض پیپر لیک کرنے میں لگے مافیا کے سامنے امتحانات کرانے والے ادارے بونے ثابت ہورہے ہیں۔ لچر انتظام کی بنا پراس سال بھی امتحانات سے قبل سوشل میڈیا پلیٹ فارم پرمکمل اور ہو بہو پیپر وائرل ہوگیا۔ کہیں کہیں توطلبا کو سوال و جواب باقاعدہ طور پر رٹوائے گئے اور جو کچھ انہوں نے رٹا تھا، و ہی سب کچھ امتحان میں آیا۔ نِیٹ- یو جیNEET-UG)) سے24لاکھ طلبا، یوجی سی- نَیٹ (UGC-NET) سے9لاکھ طلبا، سی ایس آئی آر- نَیٹ (CSIR-NET) سے2لاکھ طلبا اور این ای ای ٹی-پی جی (NEET-PG) سے 2 لاکھ طلبا کا مستقبل جڑا ہے۔نیٹ-یوجی امتحان میں بدعنوانی اور پیپر لیک کا معاملہ 5ریاستوں بہار، گجرات، مہاراشٹر،جھارکھنڈ اور اُترپردیش سے سامنے آیا۔ ایک مرکز سے امتحان دینے والے 67 اُمیدواروں کے720میں سے 720 نمبر(صد فیصد)آنے نے سبھی کو چونکا دیا۔بہار سے یہ بات بھی سامنے آئی کہ امتحان سے ایک روز قبل طلبا کو پیپرکے سوالات اور ان کے جوابات رٹوائے گئے۔وہی اگلے روز امتحان میں بھی آئے۔پولیس کو دیے پیپرلیک کے اعترافی بیان میں ملزمان نے 30لاکھ سے 40لاکھ روپے تک کی رقم سالور گینگ کو دینے کی بات قبول کی۔ امتحان منسوخ کرانے کے لیے طلبا سڑکوں پر آگئے۔احتجاج اور مظاہرے شروع ہوگئے۔سرکار پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں تو طلبا کا غصہ بھی ساتویں آسمان پر ہے۔حیرت کی بات یہ ہے کہ کئی دہائیوں سے طلبا کو کوچنگ کرارہے بڑے مراکزاپنے طلبا کو ٹاپروں کی فہرست میں جگہ دلانے میں ناکام رہے،جب کہ نقل مافیا موٹی رقم کے عو ض متعلق طلبا کو ٹاپرکی لسٹ میںشامل کرانے میں کامیاب ہوگئے۔نیٹ-یوجی امتحان منسوخ نہیںہوا،لیکن یوجی سی-نیٹ امتحان ہونے کے بعد منسوخ کر دیا گیا۔ اسی کے ساتھ یو جی سی-نیٹ، سی ایس آئی آر-نیٹ، این ای ای ٹی-پی جی کے امتحانات اگلے حکم تک ملتوی کر دیے گئے۔ان کی تاریخوں کا اعلان بعد میں کیا جائے گا۔اپوزیشن کے شور مچانے پر سرکار نے امتحانات کرانے والے ادارے نیشنل ٹیسٹنگ ایجنسی (این ٹی اے) کے ڈائریکٹر جنرل سبودھ کمار کو عہدے سے ہٹاکر ان کی جگہ ریٹائرڈ آئی اے ایس افسر پردیپ سنگھ کھرولا کو تعینات کیا ہے۔پہلے این ٹی اے کو کلین چٹ دینے والے مرکزی وزیر تعلیم دھرمیندر پردھان نے تسلیم کیا کہ ایجنسی میں اصلاح کی ضروت ہے۔ انہوں نے اصلاحی اقدام کے لیے اسرو کے سابق چیئرپرسن ڈاکٹر کے رادھا کرشن کی قیادت میں7 رکنی اعلیٰ سطحی کمیٹی تشکیل دی ہے۔دیگر ارکان میں ڈاکٹر رندیپ گلیریا، پروفیسر بی جی راؤ، پروفیسر رام مورتی، پنکج بنسل، پروفیسر آدتیہ متل اور گووند جیسوال شامل ہیں۔ نیٹ-یو جی امتحان پیپر لیک تفتیش کا معاملہ سی بی آئی کو سونپا گیا ہے۔ یہ مطالبہ عدالت عظمیٰ میں داخل عرضیوں کے علاوہ طلبا اوراپوزیشن کی جانب سے بھی کیا جا رہا تھا۔اس بابت سی بی آئی نے پہلی ’ایف آئی آر‘ درج کی ہے۔ طلبا اور اپوزیشن کا دیگر بڑا مطالبہ نیٹ-یو جی امتحان کی منسوخی کا ہے،لیکن اس کے لیے نہ تو حکومت ہی راضی ہے اور نہ ہی سپریم کورٹ کی جانب سے اس سمت میں کوئی پیش رفت کی گئی ہے۔ یہ معاملہ عدالت عظمیٰ کے علاوہ دیگر اعلیٰ عدالتوں میں بھی چل رہا ہے۔این ٹی اے نے 1563 اُمیدواروں کو گریس مارکس دینے کی غلطی تسلیم کرتے ہوئے اُن کا دوبارہ امتحان لیا۔ یہ نتیجہ 30جون کو آئے گا۔ عدالت عظمیٰ کی جانب سے6جولائی سے شروع ہونے والی کونسلنگ پر روک نہیں لگانے سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ آگے کی کارروائی میں پیش رفت ہوگی۔خدشہ یہ بھی ہے کہ اگر امتحان منسوخ کردیاجاتاہے تو کونسلنگ اور اس کی بنیاد پر ہوئے سبھی داخلے منسوخ ہو جائیں گے۔ سرکار نے پیپر لیک سے نمٹنے کے لیے ایک قانون نافذ کیا ہے۔21جون کو جاری نوٹیفکیشن کے مطابق اسے ’ عوامی امتحانات(غیر منصفانہ ذرائع کی روک تھام) ایکٹ2024‘نام دیا گیا ہے۔یہ بل 10فروری کو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں نے منظور کیا تھا۔اس کا مقصد ملک بھر میں منعقد ہونے والے عوامی امتحانات اور مشترکہ داخلہ امتحانات میں غیر منصفانہ طریقوں کو روکنا ہے۔قانون کے تحت امتحانات میں گڑبڑی کرنے پر3سے5برس کی قیداور10لاکھ روپے کے جرمانے کی سزا ہے۔اتنا ہی نہیں منظم طریقے سے کیے گئے اس جرم کے لیے ایک کروڑ روپے تک کے جرمانے کا التزام ہے۔
ملک میں مہنگائی اور بے روزگاری بڑھی ہے۔آبادی کا 65فیصد حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ نوجوانوں کا ایک بڑا حصہ یا تو روزگار کی تلاش میں سرگرداں ہے یا مقابلہ جاتی امتحانات میں قسمت آزمانے میں لگا ہے۔ روزگار نہیں ملنے اور امتحانات میں طلبا کی محنت رائیگاں جانے سے اُمیدواروں کے خواب بکھرجاتے ہیں۔ کانگریس کی جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی نے 5برسوں میں 43 امتحانات کے پیپر لیک ہونے کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ مودی حکومت کو کروڑوں طلبا کا مستقبل تباہ ہو نے اور ان کے ارمانوں پر پانی پھرنے کی پروا نہیں ہے۔راہل گاندھی نے پیپر لیک معاملے میں حکومت کی بے ضابطگیوں کے علاوہ بی جے پی اور آر ایس ایس کا تعلیمی اداروں پر قبضہ بتایا۔ پیپر لیک مسئلے سے نمٹنے کے لیے یا تو انتہائی سختی سے کام لیا جائے یا پھر امتحانات کے سوال نامے کو آبجیکٹو ٹائپ پیٹرن پر مشتمل ایک نمبر کے سوال کے جواب کے لیے آدھے منٹ کے حساب سے سوالات اور وقت کا تعین کیا جائے۔ طلبا و طالبات کو امتحان گاہ میںاصل متن کی کتاب مہیا کرائی جائے اور امتحان ختم ہونے کے بعد اُسے واپس لے لیا جائے۔ اُمیدوار اپنی یاد اور کتاب کی مدد سے ٹینشن فری ہوکر سوالات کے جوابات لکھ سکیں گے ا ور ککرمتوں کی طرح اُگ آئے کوچنگ سینٹر،بدعنوانی اور تعلیمی شعبے سے مافیا راج ختم ہو جائے گا۔
(مضمون نگار سینئر صحافی اور اَدیب ہیں)
[email protected]