جمہوری نظام کی خوبی یہ ہے کہ اس میں پارٹیوں کی پوزیشن بدلتی رہتی ہے، عام لوگ اپنی طاقت اور اپنی پسند یا ناپسند کا اظہار لیڈروں کو جتاکر یا ہراکر کرتے ہیں۔ اس طرح وہ اپنی ترجیحات کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ اسی لیے جمہوری نظام کی بقا کے لیے اپوزیشن پارٹیوں کی کافی اہمیت سمجھی جاتی ہے لیکن ان کا کام عوام کے جذبات کی ترجمانی ہونا چاہیے، سیاست برائے سیاست نہیں۔ آج سے شروع ہونے والے پارلیمنٹ کے اجلاس میں بھی اس پر نظر ہوگی کہ اپوزیشن پارٹیاں اپنا رول بہتر طور پر ادا کر پا رہی ہیں کہ نہیں۔ نظر اس بات پر بھی ہوگی کہ حکومت کی ترجیحات کی فہرست میں کون سے ایشوز زیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔ وہ عام لوگوں کو راحت دینے کے تئیں کتنی سنجیدہ ہے؟ اس سے کتنی امیدیں وابستہ کی جانی چاہئیں؟
آج جب لوک سبھا کا پہلا سیشن شروع ہوا تو نئے ارکان پارلیمان نے حلف لیا۔ کسی نے سنسکرت میں حلف لیا، کسی نے بنگالی میں، کسی نے اڑیہ تو کسی نے اسمیا اور کسی نے ڈوگری میں حلف لیا۔ ارکان پارلیمان کے ہندی کے ساتھ دیگر زبانوں میں بھی حلف لینے سے ایک بار پھر یہ بات واضح ہو گئی کہ ہمارا ملک لسانی تنوع والا ملک ہے۔ اس کی شناخت ہی کثرت میں وحدت والے ملک کی ہے۔ اسی لیے ایک مذہب کے ماننے والوں کو نشانہ بنانے کے لیے مذہب کی باتیں جب کی جاتی ہیں، مذموم بیانات دیے جاتے ہیں تو حیرت ہوتی ہے، یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا مذموم بیانات دینے والے لیڈران ہندوستان کی اصل شناخت سے واقف نہیں ہیں ؟ اگر نہیں ہیں تو پھر سب کے ساتھ انصاف کیسے کریں گے اور بغیر انصاف کیے ہوئے وہ تمام لوگوں کی فلاح و بہبود کا یکساں خیال کیسے رکھ سکتے ہیں؟ لیکن امید کی جانی چاہیے کہ انتخابات کی تشہیری مہم کا اثر پارلیمنٹ میں نظر نہیں آئے گا اور دنیا کے سب سے بڑے جمہوری ملک ہندوستان کی پارلیمنٹ کو وہ منظر نہیں دیکھنا پڑے گا جو منظر انتخابات سے پہلے دیکھنا پڑا تھاجب ایک رکن پارلیمان کو اقلیتی طبقے کا ہونے کی وجہ سے مذموم باتیں سننی پڑی تھیں جبکہ اس طرح کی باتوں سے ہمارے ملک کا وقار مجروح ہوتا ہے۔
2014 اور 2019 میں کانگریس کو 10 فیصد سیٹیں بھی نہیں مل پائی تھیں۔اپوزیشن اتحاد کی پوزیشن بھی حکمراں اتحاد کے مقابلے کافی کمزور تھی مگر اس بار حالات مختلف ہیں۔ گزشتہ بار کے مقابلے اس بار کانگریس اور اپوزیشن پارٹیوں نے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ کانگریس کے 99 لیڈروں نے عام انتخابات میں جیت حاصل کی ہے تو اپوزیشن اتحاد ’انڈیا‘ کے 234 لیڈروں نے۔ دوسری طرف حکمراں پارٹی بی جے پی کے 240 اور حکمراں اتحاد این ڈی اے کے 293لیڈران عام انتخابات میں کامیاب ہوئے ہیں۔ اسی لیے یہ توقع ہے کہ اس بار پارلیمنٹ کا سیشن زبردست ہوگا اورجمہوری نظام کی خوبیوں کا نظارہ کرنے کا موقع ملے گا اور آج ملا بھی۔ حکمراں جماعت کے لیڈروں نے اپنے اندازمیں اپنی بات کہی اور اپوزیشن جماعتوں کے لیڈروں نے اپنے انداز میں۔ لوک سبھا کے رکن پارلیمان کے روپ میں جب وزیراعظم نریندر مودی کا نام حلف لینے کے لیے پکارا گیا تو راہل گاندھی کے ہاتھ میں لال رنگ کی آئین کی کاپی تھی۔ اپوزیشن کے دیگر لیڈران بھی اس وقت تک آئین کی کاپی لہراتے رہے جب تک وزیراعظم مودی نے حلف نہیں لے لیا لیکن وزیراعظم مودی کو شاید نئے حالات کا اندازہ تھا۔ اسی لیے انہوں نے سیشن کی ابتدا سے ٹھیک پہلے میڈیا کو مخاطب کرتے ہوئے ایمرجنسی کا ذکر چھیڑا اور اسے جمہوریت پر لگا ’کالا دھبہ‘قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ایمرجنسی کی 50 ویں سالگرہ پر ملک کے لوگ یہ عہد لیں کہ بھارت میں پھر کبھی کوئی ایسا قدم اٹھانے کی ہمت نہیں کرے گا۔‘ اس کے بعد وزیرتعلیم دھرمیندر پردھان نے اڑیہ میں حلف لینا شروع کیا تو اپوزیشن کے ارکان پارلیمان نے ’نیٹ نیٹ‘اور ’شیم شیم‘ کے نعرے لگانے شروع کر دیے۔ اس طرح آج پہلے ہی دن اپوزیشن ارکان پارلیمان نے یہ اشارہ دے دیا کہ وہ اپنی طاقت کا بھرپور مظاہرہ کریں گے اور ان ایشوز کو پارلیمنٹ میں اٹھائیں گے جو عام لوگوں کے لیے اہمیت کے حامل ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ نیٹ -یوجی کا ایشو آسانی سے ختم ہونے والا نہیں ہے، کیونکہ اس سے لاکھوں طلبا کی براہ راست وابستگی ہے تو ان کے اہل خانہ اور دیگر لوگوں کی نظر اس پر ہے کہ حکومت اس سلسلے میں کیا حتمی فیصلہ لیتی ہے۔ کئی دیگر ایشوز بھی ہیں۔ اس پارلیمانی اجلاس سے یہ اشارہ مل جائے گا کہ اپوزیشن کی ترجیحات کیا ہیں اور حکومت کی ترجیحات کیا ہیں؟
[email protected]