غافلوں کی خدا نہیں سنتا: ریاض فردوسی

0

ریاض فردوسی
اس پر خطر دور میں ہر جگہ،ہر سمت میں بسنے والا انسان مسلمانوں سے بے زاری کا اظہار کر رہا ہے(الا ماشاء اللہ) دین اسلام کو روئے ارض سے مٹانے کی مہم ہر سازشوں کے ساتھ جاری ہے۔
شام کی در و دیوار مسلمانوں کے خون سے لال ہو چکی ہے،فلسطین میں مسلمانوں کا خون مشرکوں اور ظالموں نے حلال کر لیا ہے،میانمار کی فضا مسلمانوں کی آہ بکاں سے گرد آلود ہو چکی ہے،لیبیا میں ہم پر طرح کی مصیبتوں کا نزول ہوااور اب بھی ظلم و ستم کا سلسلہ جاری وساری ہے،سرزمین عراق ہمارے بھائیوں اور بہنوں کے خون سے سرخ ہو چکی ہے، غرضیکہ پچھلے کچھ سالوں سے ہرجگہ پرصرف مسلمان ہی نشانے پر ہیں،دور حاضر میں مسلمانوں پر طرح کی، ہر قسم کے ظلم وستم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں،مسلمانوں کی زوال کی داستان جو کچھ سال قبل شروع ہوئی اپنے عروج کی داستانیں لکھنے کے بعد اپنے ہی ہاتھوں سے انحطاط کا شکار ہو گئی۔ہم کسی دوسرے کو اس تنزلی کا مورد الزام نہیں ٹھہرا سکتے۔یہ گرہیں ہم نے خود اپنے ہاتھوں سے لگائیں اور انہیں خود ہی کھولنی پڑیں گی۔ اس کی بنیادی وجہ اتفاق و اتحاد میں کمی، اخلاقی گراوٹ، دانشوری و سائنس میں عدم دلچسپی، منافق بازی، وعدے کی پاسداری نہ کرنا، دین میں نئی اختراع و من پسند کو اپنی زندگی میں لاگو کرنا، تجارت میں دھوکہ دہی، انصاف کا قتل عام، جھوٹی گواہی دینا، معاشرے کو قرآن کے قوانین پر استوار نہ کرنا، تعلیم میں فقدان، اشیاء میں گراوٹ و ناپ تول میں کمی، عوام کا استحصال، حقوق کی پامالی، میرٹ کا قتل عام اور سب سے بڑھ کر کتاب اللہ سے دوری ہے۔
مسلمان ایک آفاقی تہذیب جس میں ہر رنگ و نسل و خطے کے لوگ مساوی حقوق کی بنیادوں پر اپنے اقلیتوں کے ساتھ رواداری کا سبق دیتے اپنی ترقی کا علم سر بلند کیے رہے تو دنیا ان کے زیر نگیں رہی۔ محنت و مشقت جن کا خاصہ تھا، علمی ترقی، فنون لطیفہ، آرٹ، قرآن کی روشنی میں کائنات پر کمندیں ڈالنے والے ہمارے آباو اجداد تھے لیکن ہم کیا ہیں؟ ہم اقوام عالم میں کس جگہ کھڑے ہیں ہمارا کیا مقام ہے یہ سوال اہمیت کا حامل ہے۔
مسلمان علماء کی طرف سے اس مصیبت سے نجات حاصل کرنے کے لیے امت مسلمہ کی نجات اور دشمنان اسلام کے ذلیل ورسوا ہونے کے لیے پوری امت مسلمہ نے جگہ جگہ پر قنوت نازلہ کا بھی اہتمام کررہی ہے،یہاں تک کہ پاک ومقدس سرزمین حرمین وشریفین سے بھی مسلسل دعائیں کی جارہی ہے مگر ہائے افسوس ہم مسلمانون کی بدنصیبی وبدبختی دیکھئے کہ نہ توہمارے حالات بدل رہے ہیں اورنہ ہی ہماری دعائیں قبول کی جارہی ہے اورنہ ہی ہمارے اوپر سے مصیبتوں کے بادل چھٹ رہے ہیں۔
آخر کیا وجہ ہے کہ ہمارے لئے اتنی زیادہ دعائیں کی جارہی ہیں اور ہم سب خود اپنے رب سے گریہ وزاری کررہے ہیں مگرنہ تو ہماری دعائیں قبول ہو رہی ہیں اورنہ ہی ہماری حالتیں بدل رہی ہیں اور نہ ہی ہم مسلمانوں کی مصیبتیں دور ہورہی ہیں،ہم مجبور ولاچار،بے بس ہیں مگر پھر بھی ہماری فریاد رسی نہیں ہورہی ہے جبکہ اللہ کا یہ وعدہ ہے کہ میں ہر مصیبت زدہ کی پکار کو سنتاہوں اور اس کی مصیبتوں کو دور کردیتاہوں۔ اللہ تعالی سب کی دعائیں قبول کرتا ہے،لیکن مضطر کی درخواست میں زیادہ طاقت اور خضوع و خشوع ہے اس لیے استجابت دعا کے لئے اضطرار کو شرط ہے۔اضطرار انسان کی حقیقی طلب کی نشانی ہوتی ہے۔مضطر اس شخص کو کہا جاتا ہے جو کسی شدید پریشانی یا مصیبت کی وجہ سے اللہ سے پناہ مانگے اور غیر اللہ سے مکمل نا امید ہو جائے۔اللہ تعالیٰ مجبوروں اور لاچاروں کی فریاد سنتا اور ان کی دادرسی فرماتا ہے،نبی کریم ؐ نے ایسی حالت میں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا کرنے کا ایک طریقہ سکھایا ہے، چنانچہ حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،رسولِ کریم ؐ نے مجبور کی دعا کے بارے میں فرمایا (کہ وہ یوںدعا مانگے) مفہوم: میں تیری رحمت کا امید وار ہوں ،تو مجھے آنکھ جھپکنے کی دیر بھی میرے نفس کے حوالے نہ کرنا اور میرے سارے کام درست فرما دے، تیرے علاوہ اور کوئی معبود نہیںہے۔(مسند ابو داود طیالسی، ابو بکررضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ، ص۔117، الحدیث:869)
مجبور اور لاچار مسلمان تو خاص طور پر یہ دعا مانگے جبکہ عمومی طور پر ہر مسلمان کو یہ مبارک دعا بکثرت مانگنی چاہئے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کا اوراپنے نفس کے حوالے نہ ہونے کا ہر مسلمان حاجت مند ہے اور اپنے کام درست ہونے کاہر مسلمان طلبگار ہے۔کیا ہماری فریادوں میں،دعاؤں میں،آہ و بکاں میں اضطراری کیفیت ہے؟دعا سے قبل پوری توجہ کے ساتھ توبہ النصوح فرض ہے۔اللہ کو پکارتے وقت،گریہ و فریاد کرتے وقت،دعا کرتے ہوئے ریا کاری سے گریز کیا جائے۔کیا ہمارے اعمال ریاکاری سے خارج ہیں؟ہم دین کا صرف لبادہ اوڑھے ہوئے ہیں،سارے کام غیر اخلاقی اورغیر مذہبی کرتے ہیں۔ہم مذہب کو صرف دکھاوے کے طور پر استعمال کرنا جانتے ہیں،ایک مسلمان بھی شائد ہی اللہ کے لیے کوئی نیک عمل کرتا ہو؟ہماری دعاؤں میں اخلاص کی کمی ہے۔اخلاص کے ساتھ دعا کرنے والے کو یہ نظریہ ضرور رکھنا چاہئے کہ صرف اللہ تعالی کو ہی پکارا جاسکتا ہے، اور وہی اکیلا تمام ضروریات کو پورا کر سکتا ہے۔کتاب اللہ کی روشنی میں عاجزی، انکساری، خشوع،و خضوع، قبولیت کی امید اور دعا مسترد ہونے کاخوف،حقیقت میں دعا کی روح، دعا کا مقصود اور دعا کا مغز ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS