ڈاکٹر ریحان اختر
ہندی سنیما، جسے بالی ووڈ کے نام سے جانا جاتا ہے، طویل عرصے سے ہندوستان کے تہذیبی و ثقافتی منظر نامے کا سنگ بنیاد رہا ہے جو اپنی بے مثال اور شاندار کہانیوں کے ذریعے سماجی اقدار کی تشکیل اور عکاسی کرتا ہے۔ اپنے قیام کے بعد سے ہندی سینما نے پیار ، محبت، بھائی چارے اور امن کے موضوعات کو فروغ دیا ہے جو دنیا بھر کے ناظرین و سامعین کے ساتھ گہرا تعلق رکھتے ہیں۔ ہندوستان کے بھرپور تنوع اور اتحاد کو فروغ دینے والی کہانیاں بنا کر بالی ووڈ نے نہ صرف تفریح کی حوصلہ افزائی کی بلکہ ہم آہنگی اور باہمی احترام کے پیغامات کو بھی فروغ دیا۔ جیسے جیسے صنعت ترقی کرتی ہے یہ فنکارانہ اظہار اور سماجی ذمہ داری کے درمیان ایک نازک توازن برقرار رکھتی ہے اور تکثیری ، متنوع اور متحرک معاشرے میں ایک متحد قوت کے طور پر اپنی میراث کو برقرار رکھنے کی کوشش کرتی ہے۔ ہندی سنیما کے میدان میں انڈسٹری تاریخی طور پر محبت، بھائی چارے اور امن کے پیغامات پھیلانے کا ایک طاقتور ذریعہ رہی ہے۔ فلمیں اکثر سماجی اقدار کی عکاس ہوتی ہیں، مختلف کمیونٹیز کے درمیان اتحاد اور ہم آہنگی کے احساس کو فروغ دیتی ہیں۔ تاہم، حالیہ برسوں میں مذہبی نفرت ، پولرائزیشن اور سماجی تقسیم کو چھونے والے موضوعات کو تلاش کرنے والی کچھ فلموں کے ساتھ ایک قابل ذکر تبدیلی آئی ہے۔
تاریخی پس منظر :
اپنے آغاز سے ہی ہندی سنیما نے سماجی ہم آہنگی اور اتحاد کو فروغ دینے میں ایک طاقتور ہتھیار کا کام کرتا چلا آرہا ہے۔ 1940 اور 1950 کی دہائیوں کے ابتدائی سالوں اور سنہری دور کے دوران،’’شری 420‘‘ (1955) او’’ مدر انڈیا‘‘ (1957) جیسی فلموں نے قومی اتحاد، فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور عوامی جدوجہد کے موضوعات پر زور دیا۔یہ فلمیں آزادی کے بعد کے سوشلسٹ نظریات اور سماج میں اتحاد کی اہمیت کی عکاسی کرتے ہوئے ناظرین کے ساتھ گونجتی ہیںاور ایسے کرداروں کی تصویر کشی کرتے ہیں جو اجتماعی کوششوں اور اخلاقی قوت کے ذریعے مشکلات پر قابو پاتے ہیں۔ 1960 اور 1970 کی دہائیوں میں ’’دھول کا پھول‘‘ (1959) اور’’امر اکبر انتھونی‘‘ (1977) جیسی فلموں کے ساتھ ان موضوعات کو یکجا کیا گیا، جس میں مختلف مذہبی پس منظر سے تعلق رکھنے والے مختلف کرداروں کے اکٹھے ہونے کے ذریعے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو اجاگر کیا گیا تھا۔ ان فلموں نے اس خیال کو پیش کیا کہ انسانیت مذہبی حدود سے تجاوز کرتی ہے، مختلف برادریوں کے درمیان اتحاد اور باہمی احترام کی اہمیت پر زور دیتی ہے۔ ان فلموں کی مقبولیت نے ناظرین کی طرف سے سماجی اتحاد اور بھائی چارے کو فروغ دینے والے پیغامات کی قبولیت اور تعریف کی نشاندہی کی۔ 1980 اور 1990 کی دہائیوں میں، ہندی سنیما نے خاندانی ڈراموں اور رومانوی فلموں کے ذریعے ان اقدار کو تقویت دینے کا سلسلہ جاری رکھا جس میں محبت، احترام اور یکجہتی کو اجاگر کیا گیا۔ ’’میں آپ کا کون ہوں‘‘(1994) اور’’ دل والے دلہنیا لے جائیں گیں ‘‘ (1995) نے خاندانی بندھنوں اور ثقافتی اقدار کی اہمیت پر زور دیا، توسیع شدہ خاندانی ڈھانچے کے اندر طاقت اور اتحاد کا مظاہرہ کیا۔ یہ فلمیں ثقافتی مظاہر بن گئیں جو ہندوستانی سماج کے اخلاق میں مرکزی حیثیت رکھنے والے اتحاد اور محبت کے نظریات کو فروغ دے کر سماجی بیانیے کی عکاسی اور تشکیل کرتی ہیں۔
حالیہ برسوں میں ہندی سنیما کے منظر نامے میں واضح تبدیلی آئی ہے۔ ’’ہم 2 ہمارے 12’’دی کیرالہ اسٹوری ‘‘اور ’’ دی کشمیر فائلز‘‘جیسی متنازع فلموں نے ہندوستان میں بدلتے ہوئے سماجی و سیاسی ماحول کی عکاسی کرتے ہوئے زیادہ متنازع اور تفرقہ انگیز مسائل کو جنم دیا ہے۔
پچھلے کئی سالوں سے اسلام اور مسلم مخالف ذہنیت رکھنے والے فلم اداکاروں اور ڈائریکٹرز نے کئی ساری فلمیں مسلمانوں کے خلاف بنائی ہیں اور ایک خاص مذہب کو بدنام کرنے کی مسلسل کوشش کی جا رہی ہے ساتھ ہی حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے اور دیگر مذاہب کے شائقین میں اسلام و مسلمانوں کیخلاف نفرت پیدا کرنے کی ناپاک حرکت کی گئی ہے۔ اب ’’ہم دو ہمارے بارہ ‘‘ نامی فلم تیار کی گئی ہے جس میں قرآن کریم کی آیتوں کا غلط مطلب بیان کیا جا رہا ہے، ساتھ ہی حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے اور دیگر مذاہب کے ماننے والوں میں اسلام و مسلمانوں کیخلاف نفرت پیدا کرنے کی ناپاک حرکت کی گئی ہے۔اس فلم میں قرآن و احادیث اور اسلامی عقائد و نظریات کا غلط معنی و مفہوم بیان کیا گیا ہے۔ اس فلم میں سورہ بقرہ کی آیت223کی غلط تشریح کی گئی ہے، جس میں مسلمان مردوں کو عورتوں کے ساتھ ظالم کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ اس میں پردہ، گھر سے نکلنے پر پابندی، ازدواجی تعلقات اور بچے پیدا کرنے جیسے مختلف مسائل کو غلط طریقے سے پیش کیا گیا۔ آ یت ’’نساء کم حرث لکم‘‘ کو عورتوں کو اکسانے اور کنفیوژن کے بیج بونے کے لیے اس کی غلط تشریح کی گئی ہے، جس کے تحت انہیں مردوں کی خواہشات کے لیے محض اشیاء کے طور پر پیش کیا گیا تھا۔ یہ مسخ شدہ نظریہ اسلام میں خواتین کی قدر و اہمیت کو مجروح کرتا ہے اور مسلمانوں میں پریشانی کا باعث بنتا ہے۔ اس طرح کی غلط بیانی اسلام اور اس کے پیروکاروں پر حملہ کے مترادف ہے جس سے ان کے دل زخمی اور روحیں متزلزل ہو جاتی ہیں۔ اس فلم سے ملک کے مسلمان تشویش میں مبتلا ہیں اور اپنے اپنے طور سے اس بیہودہ اور دو کوڑی کے ڈائریکٹر کے خلاف احتجاج درج کرا رہے ہیں۔
اسی طرح گزشتہ سال ریلیز ہوئی ایک متنازع فلم ’’ دی کیرالہ اسٹوری ‘‘ہے جس میں نصف سچائی دکھائی گئی ہے اور اہم ایشوز کو کنارے رکھ کر نفرت پھیلانے اور تخریب کاری سیاست کو فروغ دینے کی کوشش کی گئی فلم کو دیکھ کر یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ کہ فلم میں آدھی سچائی دکھائی گئی ہے اور بغیر ضروری تحقیق کے مذہب تبدیلی، اسلامک اسٹیٹ میں جنگجوئوں کی بھرتی، عراق پر امریکہ کے حملے کے بعد ابھری دہشت گردانہ تنظیموں اور مغربی ایشیا کے تیل پروڈیوسر علاقوں میں روس کو پیر نہ جمانے دینے کے لیے امریکہ کے ذریعہ کٹرپسند اسلامک گروپوں کو فروغ دیے جانے وغیرہ ایشوز کو اٹھایا گیا ہے۔ اس متنازع فلم کے ذریعے دعویٰ کیا گیا ہے کہ اسلامک اسٹیٹ کے ذریعہ 32 ہزار ہندو لڑکیوں کا مذہب تبدیل کروایا گیا ہے۔
اسی کڑی کی ایک فلم گزشتہ برس ریلیز ہوئی ’’ دی کشمیر فائلز‘‘ ہے فلم کی کہانی 1990 میں مقبوضہ کشمیر میں کی گئی نسل کشی پر مبنی ہے لیکن حیران کن طور پر فلم میں مسلمانوں کے بجائے پنڈتوں کی نسل کشی کو دکھایا گیا ہے اور مسلمانوں کو دہشت گرد کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ اس میں دکھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ کشمیر ہندوئوں کی سرزمین تھی، جہاں مسلمانوں نے دہشت گردی کرکے پنڈتوں کی نسل کشی کرکے انہیں ملک چھوڑنے پر مجبور کیا۔فلم کی سینما میں نمائش کے وقت انتہاپسندوں کی جانب سے مسلمان مخالف نعرے بھی لگائے تھے، جن میں مسلمانوں کو غدار قرار دے کر انہیں ملک چھوڑنے کا بھی کہا گیا تھا۔ جب سے اس فلم کو دکھایا گیا ہے اکثریت عوام ایسی ہے جو اس جھوٹ پر مبنی کہانی کو سچ مان کر مسلمانوں کے خلاف نفرت آمیز بیان بازی کرتے رہے ہیں۔ تاہم بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو ’دی کشمیر فائلز‘ کو تاریخی جھوٹ اور پروپیگنڈا قرار دیتے ہوئے لوگوں اور حکومت سے سوال کر رہے ہیں کہ اب تو کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرکے اسے بھارتی حکومت کے ماتحت کیا جا چکا ہے اور وہاں پر لاکھوں بھارتی فوجی موجود ہیں تو پھر ابھی تک بیرون ملک فرار ہوجانے والے کشمیری پنڈت واپس کیوں نہیں ٓآرہے؟
تبدیلی کے مضمرات:
ہندی سنیما میں محبت اور بھائی چارے کے موضوعات سے مذہبی نفرت و پولرائزیشن کی طرف منتقلی وسیع تر سماجی تبدیلیوں کی عکاسی کرتی ہے۔ اس کی پیچھے کئی عوامل کار فرما ہیں۔
سماجی و سیاسی ماحول:
شناخت کی سیاست کے عروج اور بڑھتے ہوئے فرقہ وارانہ کشیدگی نے فلم سازوں کو مزید متنازعہ موضوعات پر فلمیں بنانے کی ترغیب دی ہے۔اسکرین پر ان مسائل کی تصویر کشی اکثر لوگوں کے موجودہ احساسات اور خدشات کی عکاسی کرتی ہے۔
سامعین کی مانگ:
سامعین میں ایسی فلموں میں دلچسپی بڑھ رہی ہے جو حقیقی دنیا کے مسائل کو حل کرنے کے بجائے ایک خاص مذہب کے پیروکار کے خلاف بنائی گئی ہو۔اور ان کی سوچ کو متاثر کرتی ہو۔
میڈیا اور ٹیکنالوجی:
ڈیجیٹل میڈیا اور سوشل پلیٹ فارمز کے پھیلائو نے فلموں کے اثرات کو بڑھایا ہے، جس سے انہیں وسیع تر ناظرین تک پہنچنے اور زیادہ اہم بات چیت کو فروغ دینے میں مدد ملی ہے۔
سماج پر برے اثرات :
متنازعہ فلمیں جو مذہبی اختلافات اور تاریخی تنازعات جیسے حساس موضوعات سے بحث کرتی ہیں معاشرے پر بڑے اثرات مرتب کر سکتی ہیں جو اکثر موجودہ تنائو کو مزید خراب کر دیتی ہیں۔ یہ فلمیں، اہم بات چیت شروع کرنے کی کوشش کرتے ہوئے بعض اوقات ایک پیچیدہ مسئلے کا صرف ایک رخ دکھا کر تقسیم کو گہرا کر سکتی ہیں۔ یہ قدم مختلف گروہوں کے درمیان اور بھی زیادہ عدم اعتماد اور دشمنی کا باعث بن سکتا ہے، کیونکہ لوگ ان کرداروں اور کہانیوںجو دکھایا گیا ہے دل میں پیوست کر سکتے ہیں اور یقین کر سکتے ہیں کہ وہ حقیقت کی عکاسی کرتے ہیں۔ ایسی فلموں کا ڈرامائی اور اکثر مبالغہ آمیز مواد دقیانوسی تصورات اور تعصبات کو تقویت دے سکتا ہے اور معاشرے کو مزید پولرائز اور تقسیم کر سکتا ہے۔
ڈیجیٹل پلیٹ فارمز اور سوشل میڈیا پر ان فلموں کی وسیع پیمانے پر دستیابی ان کے اثرات کو مزید مضبوط کر سکتی ہے جس سے متنازعہ پیغامات تیزی سے اور وسیع پیمانے پر پھیل سکتے ہیں۔ آج کے تیز رفتار معلوماتی ماحول میں حقیقت اور افسانے کے درمیان کی لکیر دھندلی ہو سکتی ہے جس سے کمیونٹیز کے درمیان غلط فہمی اور حساسیت پیدا ہو سکتی ہے۔ ان فلموں کو سیاسی مقاصد کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے رائے عامہ کو متاثر کرنے اور سماجی اختلاف پیدا کرنے کے لیے۔ لہٰذا متنازعہ فلمیں جہاں اہم مسائل کی طرف توجہ مبذول کر سکتی ہیں، وہیں وہ سماجی ہم آہنگی اور اتحاد کو نقصان پہنچانے کا خطرہ بھی رکھتی ہیں۔
بہرحال ، آج کا سینیما اپنی قدیم روایات سے ہٹ چکا ہے سماجی مسائل و معاشی مسائل ، خاندان اور گھروں کے مسائل کو نہ دکھا کر آج ہندی سینما نے مذہبی نفرت کا راستہ اختیار کر لیا ہے جس سے سماج میں محبت ، بھائی چارہ اور امن کے فروغ کے بجائے دشمنی اور نفرت و عداوت اور ایک خاص مذہب کے پیروکار کے خلاف سماجی نفرت کا ماحول تیار ہو رہا ہے جو بظاہر کچھ نام نہاد اداکاروں اور فلم میکرز کو وقتی فائدے تو حاصل کرنا سکتے ہیں لیکن اس سے سماج کی آب و ہوا زہریلی اور جان لیوا ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا ہے۔
[email protected]