مسلمانوں کی ’گورنمنٹ لنچنگ‘

0

مجلس اتحاد المسلمین کے سربراہ اسدالدین اویسی کے سیاسی افکار و نظریات اور انداز سیاست سے ممکن ہے لوگ اختلاف کریں لیکن ان کی بعض باتیں ایسی ہوتی ہیں جن کی صداقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے۔ کل انہوں نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ جو کام پہلے بھیڑ کیا کرتی تھی، اب وہی کام حکومت کررہی ہے۔2015 میں ایک ہجوم اخلاق کے گھر میں داخل ہوا اور اس کی فریج میں رکھے گوشت کو گائے کا گوشت سمجھ کر اخلاق کو مار ڈالا۔ کون جانے کتنے مسلمانوں پر اسمگلنگ اور چوری کا جھوٹا الزام لگا کر قتل کیا گیا۔ جو کام پہلے ہجوم کرتا تھا، اب حکومت کر رہی ہے۔ مدھیہ پردیش حکومت نے کچھ مسلمانوں پر ان کی فریج میں گائے کا گوشت رکھنے کا الزام لگایا اور 11گھروں کو بلڈوز کردیا۔ انتخابی نتائج سے پہلے اور بعد میں بھی مسلمانوں کے گھر گرائے جاتے ہیں، صرف مسلمانوں کو قتل کیا جاتا ہے۔
مجلس سربراہ کے اس بیان کی سچائی سے انکار ممکن نہیں ہے۔ 2014کے بعد سے یہ مشاہدہ عام ہے کہ گائے، گائے کے گوشت اور اس کے بو ل و براز کو بچانے کے نام پر ایسی دہشت گردی مچائی گئی ہے جس کی مثال تقسیم ہندکے وقت بھی نہیں دیکھی گئی تھی۔ گئو کشی کے خلاف مہم میں اب تک نہ جانے کتنے مسلمانوں کو ہجوم نے پیٹ پیٹ کر قتل کرڈالا ہے۔ اترپردیش کے اخلاق احمد سے لے کر جھارکھنڈ کے تبریز انصاری تک ایسی مثالیں ہندوستانی سیکولرازم کے دامن پر سیاہ دھبہ بن چکی ہیں اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔مدھیہ پردیش کے منڈلا ضلع کے ایک گاؤں میں گزشتہ ہفتے کے آخر میں پولیس کی ایک بڑی ٹیم نے کئی گھروں کی فریج سے گائے کا گوشت ’بچایا‘ اور اگلے دن ان گھروں کو مسمار کردیا۔ اتنی بڑی غیر قانونی کارروائی کے بعد کسی جانب سے اس کی نہ تو مذمت ہورہی ہے اور نہ سیکو لر کہے جانے والے لیڈروں نے بے گھرمسلمانوں سے پرسش احوال کی ہی کوئی کوشش کی ہے۔
کون نہیں جانتا کہ مدھیہ پردیش کے جانوروں پر ظلم کی روک تھام کا ایکٹ اور امتناع گئو کشی ایکٹ دونوں بہت سخت ہیں۔ نئے وزیراعلیٰ نے اس سال کو پھر سے ’گوونش رکشا ورشا‘ بھی قرار دیا ہے۔ اس لیے مدھیہ پردیش کی پولیس ہر گھر کی فریج میں جھانکتی اور گائے کے گوشت کی بو ڈھونڈتی پھررہی ہے۔منڈلاضلع کے بانسواہی میں بھی اسے یہ بو مل گئی، اگلے دن دیکھا گیا کہ سرکاری بلڈوزر آئے اور ان گھروں کو منہدم کرڈالا جہاں فریج میں گائے کا گوشت ملا تھا۔ بے گھرہونے والوں میں سے ایک جلیل احمدقریشی کا کہنا ہے کہ پولیس نے مسماری آپریشن سے دو دن قبل ان کے بیٹے عقیل کے گھر کا دورہ کیا تھا۔ فریج سے پانی پیا اور گھر کی تلاشی لی تھی۔ پولیس کو کچھ نہیں ملاتھا پھر بھی اس کے تینوں بیٹوں کے گھر مسمار کر دیے گئے۔ پولیس نے عقیل، آصف اور عادل اور دیگر 8 افراد کے خلاف مدھیہ پردیش پرہیبیشن آف کاؤ سلاٹر ایکٹ 2004 کی دفعہ 4، 5 اور 9 کے تحت مقدمہ درج کیا ہے۔ تاہم منڈلا ضلع کے پولیس سپرنٹنڈنٹ رجت سکلیچا کے مطابق ان گھروں اور ریفریجریٹرز میں چھپائی گئیں گائے کی کھالوں، ہڈیوں اور گائے کے گوشت کے کافی ثبوت ملنے کے بعد ایف آئی آر درج کی گئی۔جہاں تک مکانات کے انہدام کا معاملہ ہے، وہ مکانات سرکاری زمین پر بنے تھے اور حکام نے مکینوں کو نوٹس بھیج رکھاتھا۔
قانون کی حکمرانی کا دعویٰ کرنے والی بی جے پی کی حکومت میں بغیر کسی عدالتی کارروائی کے فقط شبہ کی بنیاد پر ملزم کے گھروں کا منہدم کیاجانا عام سی بات ہوگئی ہے۔ایسا نہیں ہے کہ بانسواہی گائوں کے کچھ لوگوںنے اچانک گائے ذبح کی ہو اوراس کا گوشت کھانے کا آغاز کر دیا ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ اس گائوں میں مسلمانوں کی قریشی برادری آباد ہے جس کا کام ہی گوشت سے متعلق ہے۔جانوروں کی کھالیں وہ جبل پور بھیجتے ہیںجہاں قدیم زمانے سے جوتوں کاکاروبار ہوتاآرہاہے۔ یہ یقین کرنا مشکل ہے کہ پولیس، مقامی سرپنچ یا سرکاری دفتر کے لوگوں کو یہ پہلی بار معلوم ہوا تھااورا نہوں نے یہ کارروائی کی۔ تاہم اگر اسے فرض بھی کرلیاجائے تو اس کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جانی چاہیے تھی نہ کہ ریاستی حکومت پولیس کے نام پر غنڈے بھیج کرا ن گھروں کو مسمار کراتی۔
2015 میں اتر پردیش میں محمد اخلاق کو گھر میں گائے کا گوشت رکھنے کے جرم میں قتل کر دیا گیا تھا۔ پاگل دیہاتیوں نے قانون کو اپنے ہاتھ میں لے لیاتھا۔2024میں مدھیہ پردیش نے دکھا دیا کہ تقریباً ایک دہائی کے بعد بھی صورتحال وہی ہے، اگر کچھ بدلا ہے وہ یہ ہے کہ اس بار خود حکومت نے وہ کردار ادا کیا ہے جو اب تک ہجوم کرتا آرہاتھا۔ مودی3-کے ابتدائی دور میں ہونے والا یہ واقعہ مسلمانوںکی ’گورنمنٹ لنچنگ‘ ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS