محمد حنیف خان
امتحانات میں ڈیوٹی کے دوران کئی طرح کے طلبا و طالبات سے سابقہ پڑتا ہے، بعض ایسے ہوتے ہیں جو نقل کرتے ہوئے گرفت میں آجاتے ہیں اور بعض ایسے ہوتے ہیں جو امتحان ہال میں نگرانی کرنے والوں کو بھی جُل دینے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔یہ اور بات ہے کہ ایسے بچے ان نگران کو دھوکہ دینے کے بجائے خود کو اور ا پنے والدین کو دھوکہ دیتے ہیں۔جو لوگ گرفت میں آجاتے ہیں، ان میں بعض طلبا و طالبات ایسے ہوتے ہیں جنہیں ان کی پشیمانی اور اظہار شرمندگی کی بنا پر بعض اساتذہ نظر انداز کردیتے ہیں جبکہ بعض کچھ بھی نہ سن کر ان کی کاپیاں سیل کرادیتے ہیں۔
ہمارے ایک دوست نے دوران امتحان ایک بڑی اچھی بات کہی کہ کسی بھی ادارے کو تباہ و برباد کرنا ہو آپ طلبا و طالبات کو چھوٹ دے کر نقل کو رائج کردیجیے، امتحان کا سسٹم تباہ ہوجائے گا اور ادارہ برباد ہوجائے گا۔
ہمارے دوست کی اس بات کو ذرا وسیع تناظر میں دیکھیں اور غور کریں کہ اگر وہ ادارہ نہ ہو کر ملک ہو تو؟ یہاں بھی تو یہی ہوگا کہ امتحانات میں نقل کو رائج کردیجیے، ملک کا پورا نظام درہم برہم ہوجائے گا۔
کسی بھی ملک کی تعمیر و ترقی کا راز اس کے نظام تعلیم میں مضمر ہوتاہے، جس ملک میں بچوں کو تعلیم سے آراستہ کرنے کا نظام بہتر اور چاق چوبند ہوتاہے، اس ملک کے عوام کا مقدر آب زر سے لکھا جاتا ہے۔دنیاکے ترقی یافتہ ممالک کو دیکھیں اور ان کی شرح خواندگی کو دیکھ لیں اندازہ ہوجائے گا کہ خوشحالی کی بنیاد کیا ہے۔
ہندوستان میں دوطرح کے تعلیم یافتہ لوگ ہیں، ایک پڑھے لکھے اور دوسرے لکھے پڑھے (ڈاکیومینٹیڈ)۔ تعلیم یافتہ افراد کی جو دوسری قسم ہے یہی دراصل ملک کے لیے دیمک ہے جو لکڑی کی طرح ملک کو کھاجاتے ہیں اور کسی کو پتہ بھی نہیں چلتا۔یہ لکھے پڑھے لوگ ہمیشہ عوام کے لیے درد سر رہے ہیں۔
یہاں ایک سوال پیدا ہوتاہے کہ لکھے پڑھے لوگ کون ہیں؟ اس کا بہت چھوٹا سا جواب ہے نقلچی/یاپیسے دے کر ڈاکیومنٹ حاصل کرنے والا۔یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو پیسے دے کر پہلے سرٹیفکیٹ حاصل کرتے ہیں جو در اصل نوکری کی سب سے پہلی بنیاد ہے، اس کے بعد سیاسی وسماجی اور رشوت کے ذریعہ نوکری بھی حاصل کرلیتے ہیں پھر یہ لوگ زندگی بھر خود تو عیش کرتے ہیں مگر ان کی زد میں آنے والے عوام خون کے آنسو روتے ہیں۔
یونیورسٹیوں اور یوجی و پی جی کالجوں میں درس و تدریس کے لیے حکومت ہند نیشنل ایلجبلٹی ٹیسٹ کراتی ہے جسے عرف عام میںNETکہا جاتاہے۔نیشنل ٹیسٹنگ ایجنسی(NTA) نے 18 جون کو یہ امتحان کرایا تھا، چونکہ پورے ملک میں ایک ساتھ یہ امتحان ہوتاہے جس میں عمر کی بھی کوئی حد بندی نہیں ہے، اس لیے کثیر تعداد میں طلبا اس امتحان میں شریک ہوتے ہیں۔یوجی سی کے چیئرمین کے مطابق اس بار 11لاکھ سے زائد امیدواروں نے اس امتحان کا فارم بھرا تھا جبکہ 81فیصد امیدواروں نے امتحان میں شرکت کی اور امتحان دیا مگر اس کے دوسرے دن ہی اس امتحان کو کالعدم قرار دے دیا گیا۔ وزارت تعلیم نے امتحان سے قبل سوالنامے کے عام(پیپر لیک) ہونے کا شبہ ظاہر کرتے ہوئے اسے منسوخ کرکے اس کی جانچ سی بی آئی کے سپرد کردی ہے۔
اس سے قبلNational Eligibility Entrance Testکرایا تھا جسے عرف عام میںNEETکہتے ہیں۔اس ٹیسٹ کے نتائج کی وجہ سے طلبا پریشان تھے، 24 لاکھ سے زائد طلبا نے اس امتحان میں شرکت کی تھی کیونکہ یہ وہ امتحان ہے جس میں کامیاب ہونے سے سنہرے مستقبل کا دروازہ کھل جاتا ہے۔ایم بی بی ایس اور بی ڈی ایس جیسے کورسیز میں اسی امتحان کے ذریعہ داخلہ ملتاہے۔جب اس کے نتائج کا اعلان ہوا تو67طلبا کو720 میں سے720نمبر ملے، اس کے ساتھ ہی کچھ ایسے بھی طلبا و طالبات ہیں جنہیں 719 اور 718 نمبر ملے ہیں۔اس نتیجہ کے بعد جب تنازع شروع ہوا تو این ٹی اے نے سبب بھی بتایا کہ ایسا کیوں ہے مگر سپریم کورٹ کے سخت رخ کے بعد تقریباً 1563طلبا کو دوبارہ امتحان دینا ہوگا اور اگر کوئی ان میں سے امتحان نہیں دینا چاہتا ہے تو ہمدردی کی بنیاد پر جو نمبر ملے تھے، انہیں کاٹ کر دوبارہ اصل نتیجے کا اعلان کیاجائے گا۔
مذکورہ دونوں امتحانات ملکی سطح کے ہیں جن کی ملک کی تعمیر و ترقی میں بڑی اہمیت ہے۔درس و تدریس سے متعلق امتحانNETکو تو محض شک کی بنیاد پر منسوخ کردیا گیا ہے مگر صحت و طب سے متعلق امتحانNEET کو ابھی تک منسوخ نہیں کیاگیاہے جب کہ اس میں دھاندلی کے متعدد ثبوت سامنے آچکے ہیں۔بہار کی پولیس نے متعدد ملزمین کو گرفت میں لیا ہے۔گجرات میں ایک پورے سینٹر کو ہی مینیج کرلیا گیا تھا جہاں امتحان دینے والے کئی ایسے امیدوار تھے جن سے کہا گیا تھا کہ انہیں او ایم آر شیٹ میں صرف ان ہی سوالات کے جواب دینے ہیں جو معلوم ہوں باقی وہ چھوڑ دیں، ایک دوسرا شخص امتحان کے بعد او ایم آر شیٹ بھردے گا۔ اسی وجہ سے اس امتحان کو بھی منسوخ کیے جانے کا مطالبہ کیا جارہا مگر حکومت خاموش ہے۔
حکومت نےNET کا امتحان منسوخ کرکے ایک اچھا قدم اٹھایا ہے اور شفافیت کا بھی مظاہرہ کیا ہے مگر اس NEET کے معاملے میں اس نے یہ قدم کیوں نہیں اٹھایا، محل نظر ہے۔لیکن صرف امتحان کو منسوخ کردینے سے حکومت پر لگے داغ دھل نہیں جائیں گے اور نہ اس کی شفافیت میں چار چاند لگ جائیں گے کیونکہ یہ پیپر لیک کا کوئی پہلا معاملہ نہیں ہے۔
حکومت کو بھی پتہ ہے کہ ایجوکیشن مافیا ہیں جنہوں نے اسے ایک صنعت کا درجہ دے رکھا ہے۔کہا جاتاہے کہ اس وقت ہندوستان میں تعلیم اور میڈیکل دو ایسے شعبے میں جہاں اندھی کمائی ہے، اس پر سونے پر سہاگہ کوچنگ سینٹر کلچر ہے جنہوں نے تعلیم کو کلی طور پر پیشہ بنا دیا ہے۔
پیپر لیک بادی النظر میں کسی شرارتی کی شرارت یا خواہشات کے غلام کا عمل ہوسکتاہے مگر اس کے بڑے دوررس اور منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
آپ خود سوچیں کہ ایک نااہل شخص اگر پیشہ ور ڈاکٹر کی ڈگری لے کر پریکٹس کرنے لگے تو کیا ہوگا؟ ایک نااہل شخص کو یونیورسٹی میں معلم کا فریضہ سونپ دیا جائے تو ملک کی صحت اور اس کی فکر کا عالم کیا ہوگا؟
کیا پیپر لیک کے بعد اسے منسوخ کردینے سے سبھی مسائل حل ہوجائیں گے؟ یقینا اس کا جواب نفی میں ہوگا۔ سب سے بڑا مسئلہ تو ان طلبا و طالبات کا ہے جنہوں نے دن رات محنت کرکے امتحان کی تیاری کی اور انہوں نے پیپر بھی اچھا کیا مگر ناقص نظام کی وجہ سے اب ان کو دوبارہ امتحان دینا ہوگا۔حکومت کو یہ سمجھنا چاہیے کہ آج کا نوجوان بری طرح سے دباؤ کا شکار ہے، وہ چہار طرفہ دباؤ کی زد میں ہے۔ امتحان خود ایک بہت بڑا دباؤ ہوتاہے اور بار بار یہ دباؤ ان کی ذہنی کیفیت کو کس قدر نقصان پہنچاتا ہے، ہر شخص اندازہ نہیں لگا سکتا۔
ایک طرف آج کا نوجوان اپنے مستقبل کے تعلق سے حد درجہ مایوسی کا شکار ہے کیونکہ بے روزگاری نے پورے معاشرے کو اپنی زد میں لے رکھاہے، سرکاری نوکریوں کے ساتھ ہی پرائیویٹ نوکری کا بھی ملنا محال ہے۔اس کے کندھے امیدوں اور خوابو ں کے بوجھ سے جھکے ہوئے ہیں۔راہل گاندھی نے بڑے دو ٹوک انداز میں پیپر لیک اور امتحان منسوخی کے بارے کہا ہے کہ یہ صرف تعلیم کے شعبے کا حال نہیں ہے بلکہ یہی حال ہر شعبہ حیات کاہے۔انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ سسٹم کی یہ تباہی ایک خاص فکر کے لوگوں کو اس سسٹم میں لانے کی وجہ سے ہے کیونکہ جن افراد کو امتحانات کی ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں، وہ نا اہل ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ نااہلی کی بنا پر ہی اس طرح کے معاملات سامنے آتے ہیں۔
حکومت کو اس سمت میں مضبوط قدم اٹھانا چاہیے، اس کو پارلیمنٹ میں اس سے متعلق بل لانا چاہیے۔نظام تعلیم کی یہ خامی اگر نہیں دور کی گئی تو ملک کو تباہی سے کوئی نہیں بچا سکتا کیونکہ بچے نقل کے ذریعہ ڈاکٹر اور مدرس بنیں گے، رشوت کے ذریعہ امتحانات میں کامیابی حاصل کریں گے اور آگے چل کر یہی لوگ ملک کی قسمت کا فیصلہ کریں گے تو سوچئے کیا ہوگا۔اگر کسی ملک کو تباہ کرنا ہے تو اس کے نظام تعلیم کو تباہ کردو اور اگر پائیدار بنیادوں پر کسی ملک کی تعمیر و ترقی کرنا ہے تو نظام تعلیم کو چاق چوبند کردو، دونوں صورتوں میں کامیابی مل جائے گی۔حکومت کس سمت میں جائے گی یہ فیصلہ اب اسے کرنا ہے۔
[email protected]