تشدد مغربی بنگال کی سیاست کاایک کالاسچ بن چکا ہے۔ سیاسی نظریات اور تسلط کی جنگ میں یہ ریاست اب تک اپنے سیکڑوں سپوت گنوا چکی ہے۔نیشنل کرائم ریکارڈس بیورو کے مطابق مغربی بنگال میں انتخابی تشدد ہر سال اوسط 20افراد کی جانیں لے لیتاہے۔ پنچایت انتخابات، میونسپل کارپوریشن کے انتخابات ہوں یا پھر اسمبلی اور پارلیمنٹ کے انتخابات، خون بہائے بغیر یہاں کسی کی ہار جیت کا فیصلہ نہیں ہوتا ہے۔ اسی طرح راج بھون اور ریاستی حکومت کے درمیان تنازع، اقتدار کیلئے کشاکش اور اس کے نتیجہ میں پیدا ہونے والا بحران بھی مشرقی ہندوستان کی اس ریاست کا مقدر بنتاجارہا ہے۔ گورنر اور ریاستی حکومت کے مابین جھگڑااور فساد کی وجہ سے غیرمعمولی انتظامی تعطل، یونیورسٹیو ں میںبحران اور کئی دیگر مسائل لاینحل ہوچکے ہیں۔ لوک سبھا انتخابات2024کے دوران اور نتائج آنے کے بعد سے تشدد کے درجنوں واقعات ہوچکے ہیں۔ہر چند کہ ممتاحکومت انکاری ہے مگر ریاست کی اہم اپوزیشن بھارتیہ جنتاپارٹی کا کہنا ہے کہ اس کے دفاتر توڑے پھوڑے اور نذر آتش کیے جارہے ہیں اور اس کے حامیوں کودہشت زدہ کرکے گائوں چھوڑنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔ ان حالات کا جائزہ لینے کیلئے بی جے پی کی مرکزی ٹیم مغربی بنگال کادورہ کررہی ہے۔
یہ ٹیم اپنے دورہ سے کن نتائج تک پہنچے گی اور کون سی رپورٹ پیش کرے گی یہ توآنے والے دنوں میںپتہ چلے گا مگر ریاست ان دنوں راج بھون اور ریاستی حکومت کے مابین غیر معمولی قسم کے تعطل کا مشاہدہ کررہی ہے۔گورنر سی وی آنند بوس نے ریاستی پولیس کو راج بھون کے احاطے سے نکل جانے کو کہا ہے، لیکن پولیس ابھی بھی ڈیوٹی پر ہے۔ گورنر نے راج بھون کے نارتھ گیٹ پر واقع پولیس چوکی سمیت کولکاتا پولیس کے تمام افسران اور ملازمین کو فوری طور پر احاطے کو خالی کرنے کا حکم دیا تھا۔ ان کے حکم کے باوجود پولیس پہلے کی طرح راج بھون کے احاطے میں کھڑی ہے۔
یہ تنازع حال ہی میں مغربی بنگال میں انتخابی تشدد کے متاثرین کے راج بھون آنے کے معاملے پر شروع ہوا تھا۔ان متاثرین کو گورنر نے راج بھون آنے کی تحریری اجازت دی تھی، لیکن راج بھون میں تعینات پولیس نے دفعہ 144 کا حوالہ دیتے ہوئے لوگوں کو آنے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا تھا۔ اس پر راج بھون نے پولیس کو گیٹ پر اپنی پوسٹ خالی کرنے کو کہا لیکن وہاں تعینات پولیس اہلکاروں نے اپنے افسران کے حکم کے بغیر ڈیوٹی چھوڑنے سے انکار کر دیا۔ گورنر عوام سے ملنے کے لیے پولیس چوکی کے مقام پر عوامی فورم قائم کرنا چاہتے تھے لیکن پولیس کی موجودگی کی وجہ سے وہ کام نہیں ہوسکا۔ گورنر کی ذاتی حفاظت سی آر پی ایف کی طرف سے زیڈ کیٹیگری ہے اور کولکاتا پولیس صرف بیرونی سیکورٹی فراہم کرتی ہے۔اب اگر کولکاتا پولیس راج بھون سے ہٹ جاتی ہے تو ممکن ہے کہ مرکزی فورسزکے جوانوں کو اس کی حفاظت میں تعینات کیاجائے۔گورنر کولکاتا پولیس کے رویہ سے اس وقت سے نالاں ہیں جب ڈیڑھ مہینہ قبل راج بھون کی ایک عارضی ملازمہ نے کولکاتا پولیس میں گورنر کے خلاف چھیڑ چھاڑ کی شکایت درج کرائی تھی اور کولکاتا پولیس نے اس معاملے میں جانچ شروع کی تھی اور راج بھون کے کئی ملازمین کے خلاف بھی مقدمہ درج کر کے انہیں پوچھ گچھ کیلئے بلایا تھا۔اس وقت بھی گورنر نے پولیس کے راج بھون آنے پر پابندی لگا دی تھی۔ گورنر کی تازہ ہدایت کو ریاستی حکومت نے اب تک کسی قابل نہیں جانا ہے، آگے اس ہدایت کا کیا حشر ہوگا یہ ایک دو دنوںمیںپتہ چل جائے گا، لیکن مغربی بنگال میںگورنر اور ممتاحکومت کا تنازع صرف سی وی آنند بوس تک ہی محدود نہیں ہے۔گزشتہ دس برسوں سے دیکھا جارہاہے کہ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب راج بھون اور ریاستی حکومت آمنے سامنے نہ ہوں۔ اس سے قبل بھی اس وقت کے گورنر جگدیپ دھن کھڑ کے ساتھ ممتاحکومت کا تنازع تمام حدوں سے گزرچکا ہے اور اب تو اس کے ختم ہونے کے کوئی آثار بھی نظرنہیں آرہے ہیں۔
ہندوستان جیسے وفاقی جمہوریہ میں مرکز اور ریاستوں کے درمیان ایک لازمی رشتہ ہے جس کے بغیر کام نہیں چل سکتا۔ گورنر کا عہدہ درمیانی کڑی کے طور پر مرکز اور ریاست کے رشتہ کو جوڑتا ہے۔ مگر اکثر یہ دیکھاجارہا ہے کہ گورنر کا یہ آئینی عہدہ مرکز اور ریاست کے رشتہ کوخوشگوار اورمستحکم بنانے کے بجائے مرکزی حکومت کے پولیٹیکل ایجنٹ کی طرح ریاست کی پشت پرکوڑے برساتا رہتا ہے۔ اپوزیشن کی حکمرانی والی ریاستوں میں سیاسی عدم استحکام پیداکرنا اور حکومت کو محاصرے میںرکھنا عام سی بات ہوگئی ہے۔ مغربی بنگال میں جگدیپ دھن کھڑ سے لے کر سی وی آنند بوس تک تسلسل کے ساتھ جاری یہ تنازع اگر مزید آگے بڑھا تو عین ممکن ہے کہ یہ کھلی دشمنی تک پہنچ کروفاقی جمہوریت کی جڑوں کو کہیں کھوکھلا نہ کردے۔اس صورتحال سے بچنے کی ذمہ داری دونوں ہی فریق پر ہے۔ریاستی حکومت کوئی ایسا موقع نہ دے کہ گورنرکوریاست میں سیاسی عدم استحکام پیدا کرنے کا موقع ملے اور گورنرکو بھی ریاست کی منتخب حکومت کے مینڈیٹ کا مکمل احترام کرتے ہوئے اپنی آئینی ذمہ داری ادا کرنی چاہیے تاکہ تصادم اور تعطل کی صورت نہ پیداہو۔
[email protected]
راج بھون اور ممتا حکومت کا ٹکرائو
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS