ہندوستان صنفی نابرابری کے ریکارڈ قائم کررہا ہے۔ ایک تازہ سروے رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ ہندوستان صنفی نابرابری کے محاذ پر اس سال بھی دو زینے نیچے لڑھک آیا ہے۔ ورلڈ اکنامک فورم کی طرف سے جاری کردہ گلوبل جینڈر گیپ رپورٹ 2024 میں ہندوستان 146 ممالک میں 129 ویں نمبر پر ہے۔ گزشتہ سال ہندوستان کا مقام 127 تھا۔ ہندوستان کیلئے افسوسناک صورتحال یہ بھی ہے کہ اس کے ’پسماندہ‘ کہے جانے والے پڑوسی بنگلہ دیش، نیپال، بھوٹان اور سری لنکا کی پوزیشن اس معاملہ میں کہیں زیادہ بہتر ہے۔بنگلہ دیش 99 ویں، نیپال 117 ویں، سری لنکا 122 ویںاور بھوٹان 124 ویں مقام پر ہے۔عالمگیر صنفی مساوات سے متعلق اشاریہ یا گلوبل جینڈر گیپ انڈیکس(جی جی جی آئی) بنانے کیلئے چارپہلوؤں سے مرد اور عورت کے درمیان فرق کو جانچاجاتا ہے جن میں اقتصادی شرکت اور مواقع، تعلیم کا حصول، صحت و بقا نیز سیاسی تفویض اختیارات شامل ہیں۔ گزشتہ برسوں کے بالمقابل ان پہلوئوں پر ہندوستان کا اسکور کافی نیچے ہے۔اس رپورٹ میں ہندوستان کی گرتی پوزیشن کی وجوہات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا گیا ہے کہ یہ زوال بنیادی طور پر تعلیم اور سیاسی اختیارکاری کی حیثیت میں گراوٹ کی وجہ سے آیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق اگرچہ ابتدائی، ثانوی اور اعلیٰ ثانوی تعلیم کے اندراج میں خواتین کا حصہ بڑھاہے، لیکن یہ اتنا نہیں ہے کہ اس سے آبادی کے تناسب میں صنفی نابرابری کو مساوات کی سطح پر لایا جاسکے۔ مردوں اور عورتوں کی شرح خواندگی کے درمیان فرق بھی 17.2 فیصد کا ہے۔
اس کے علاوہ بھی تفصیل کے ساتھ کئی وجوہات بیان کی گئی ہیں۔ عورتوں کی صحت،ان کی سماجی –اقتصادی حیثیت اور مختلف میدانوں میں حصے داری میں،سیاسی فیصلے لینے میں خواتین کی شرکت، ایوان قانون ساز میں خواتین کی نمائندگی، معیشت و معاشر ت میں خواتین کی بے توقیری جیسے عوامل کو اس زوال کی وجہ بتاتے ہوئے کہاگیا ہے کہ اگر صورتحال میں رفتہ رفتہ بہتری کی کوشش بھی کی گئی تو ہندوستان کو صنفی مساوات کے قریب پہنچنے میں بھی ڈیڑھ صدیوں کا فاصلہ طے کرنا ہوگا۔
’بیٹی بچائو-بیٹی پڑھاؤ، سوکنیا سمردھی یوجنا، پردھان منتری اجّو لا یوجنا، جننی سرکشا یوجنا، پردھان منتری سرکشت مترتوا ابھیان،پردھان منتری منترو وندنا یوجنا، جننی شیشو سرکشا کاریہ کرم وغیرہ جیسی کئی اسکیمیں اس صنفی تفاوت کو دور کرنے کیلئے کام کررہی ہیں اور آنکھوں کو خیرہ کردینے والے ان کے اشتہارات بھی نظرآتے ہیںلیکن زمینی سطح پر ان کا نفاذ کہیں نظر نہیں آتا ہے۔یہی صورتحال سیاسی سطح پر بھی ہے، کہنے کوتو پنچایتی راج اداروں میں خواتین کو33فیصد ریزرویشن دیا گیا ہے اورآئینی مجبوری کی وجہ سے ان پر خواتین ہی منتخب ہوتی ہیں لیکن عملاً یہ خواتین اپنے مرد سرپرستوں کی زیر نگیں ہوتی ہیں۔ ان33فیصد خواتین میں سے شاید ہی کوئی آزادانہ اور خودمختار طریقہ سے اپنے سیاسی اختیارات کا استعمال کرپاتی ہوں۔
خود کو مساوات مردو زن کی سب سے بڑی علم بردار سمجھنے والی بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکمرانی میں خواتین کی یہ صورتحال انتہائی شرم ناک ضرور ہے لیکن اسے غیرمتوقع نہیں کہاجاسکتا ہے۔ خواتین کے مسائل پر حکمراں بھارتیہ جنتاپارٹی کا ٹریک ریکارڈ کبھی اچھا نہیں رہاہے، خاص کر خواتین کے خلاف تشدد، بے حرمتی، بے توقیری اور خواتین کے سیاسی استحصال کے معاملہ میں اس نے نئے نئے ابواب قائم کیے ہیں۔ ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمز اور نیشنل الیکشن واچ کی ایک سابقہ رپورٹ میں بتایاگیاتھا کہ ہندوستان میں 134 موجودہ ایم پی اور ایم ایل ایز کو خواتین کے خلاف جرائم سے متعلق مقدمات میں الزامات کا سامنا ہے۔ ان میں بی جے پی کے موجودہ ممبران پارلیمنٹ اور ایم ایل ایز کی تعداد سب سے زیادہ 44 ہے۔ اس کے علاوہ یہ بھی اکثر مشاہدہ میں آیا ہے کہ خواتین کی عصمت دری اوران پرتشدد کے مرتکبین و ملزمین کی حمایت میں بھی بی جے پی پیش پیش رہی ہے۔
2014سے بی جے پی کی حکومت میں رہنے والے ملک کی خواتین کے ساتھ معاشرہ کا سلوک بھی توقیر آمیزاور خیر اندیشانہ نہیںہے۔ ملک کی زنانہ آبادی کو ہر شعبہ میں امتیاز کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔علمی اور معاشی سرگرمیوں میں مصروف رہنے والی خواتین سے بھی معاشرہ کا سلوک مؤدبانہ اور محترمانہ نہیں ہوتا ہے جس کی وجہ سے ان کی انسانی حیثیت پر بھی چوٹ پڑتی ہے۔ اقتصادی اور سیاسی فعالیت اور سرگرمیوں کی راہ پر چلنے والی خواتین جو کام کے ساتھ گھر کی بھی دوہری ذمہ داریاں ادا کرتی ہیں، ان کو اپنے گھروں میں وہ مقام بھی حاصل نہیں ہوپاتا ہے جس کی وہ مستحق ہیں۔
یہ صورتحال بدلے جانے کی ضرورت ہے۔ قانون فطرت کے تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے اگر ہم نے عورتوں کے ساتھ حسن سلوک کا معاملہ نہیں کیا اور ایک انسان ہونے کی حیثیت سے ان کے معنوی کمالات کی راہیں نہ کھولیں تو نہ گھر ہی جنت بن سکتا ہے اور نہ ملک میں مثبت اور کارآمد تبدیلی کا کوئی امکان ہے۔یہ کام فقط حکومت کی سطح سے نہیں بلکہ عام لوگوں کی شراکت چاہتا ہے۔عالمگیر صنفی مساوات سے متعلق اشاریہ میں جو ممالک سربلند ہیں، ان کی ترقی کا راز بھی یہی ہے کہ حکومت کے ساتھ ساتھ معاشرہ بھی اپنی زنانہ آبادی کو کمتر سمجھنے کے بجائے ان کے ساتھ متوازن رویہ اختیار رکھتا ہے۔ ہمیں بھی یہ سمجھنا ہوگا کہ
مکالمات فلاطوں نہ لکھ سکی، لیکن
اسی کے شعلے سے ٹوٹا، شرار افلاطون
[email protected]