عبدالعزیز
حضرت ابراہیمؑ اللہ کے برگزیدہ پیغمبرہیں۔ ان کی زندگی میں بے شمار ایمان افروز واقعات ہوئے، لیکن خانہ کعبہ کی تعمیر اور قربانی خاص طور پر آپ کی زندگی کے دو اہم واقعات ہیں۔ دنیا میں تقریباً ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء علیہم السلام آئے۔ انہیں آزمائشوں سے گزرنا پڑا۔ حضرت ایوبؑ نے زندگی کا ایک حصہ علالت میں گزارا، حضرت یونسؑ چالیس دن تک مچھلی کے پیٹ میں رہے، حضرت یعقوبؑ کی بینائی چلی گئی، حضرت یوسفؑ کو مصر کے بازار میں بیچا گیا، حضرت موسیٰؑ کو اپنی قوم سے بے شمار اذیتیں ملیں اور جادو گرو ںنے آپ کی نبوت کو چیلنج کیا، حضرت نوحؑ کی قوم کی نافرمانیوں کی وجہ سے طوفان آیا، آقائے مدنی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو طرح طرح کی اذیتیں دی گئیں۔غرض نبیوں کو بڑی آزمائشوں سے گزرنا پڑا۔ حضرت ابراہیمؑ کو اپنے بیٹے کی قربانی دینے کی آزمائش سے گزرنا پڑا۔ذرا تصور کیجئے ، کیا دنیا کا کوئی باپ اپنے جگر کے ٹکڑے کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر چھری چلا سکتا ہے ،لیکن اللہ کے بنی کو اس آزمائش سے بھی گزرنا پڑا ہے۔
انبیاء ؑ کرام تمام آزمائشوں میں کامیاب ہوئے۔ حضرت ابراہیم ؑ کو جب اللہ نے اپنی عزیز ترین چیز قربان کرنے کا حکم دیا تو یہ ایک جانگسل آزمائش تھی،لیکن اللہ کے خلیل اس آزمائش میں سچے ثابت ہوئے، چنانچہ اپنے رب کی منشا پر مکمل طور پر اترنے کے نتیجے میں اللہ نے جو جزا دی ہے اس پر خوشیاں منانے کا نا م ہے عید الاضحی۔ جانوروں کی قربانی کرنا ،حاجیوں کا صفا و مروہ کے درمیان چلنا ،شیطانوں کو کنکریاں مارنا یہ سب اسی عظیم واقعے کی علامت کے طور پر ہیں جن کوسیدنا ابراہیم ؑ نے اپنے رب کی خوشنودی کیلئے انجام دیا تھا۔تاریخ میں آج تک ایسا نہیں ہوا کہ کسی باپ نے اپنے اکلوتے بیٹے کی گردن پر محض اپنے رب کی خوشنودی کیلئے چھری چلائی ہو،لیکن حضرت ابراہیم ؑ نے ایسا کرکے ایک مثال قائم کی ہے۔بظاہر یہ ایک تاریخی واقعہ ہے جس کی یاد ہر 10 ذی الحجہ کو قربانی دے کر تازہ کی جاتی ہے، سچ تو یہ ہے کہ ا ن کا یہ عمل صرف دس ذی الحجہ کو ہی نہیں بلکہ سال کے ہر دن اور ہر پل یاد کرنے کیلئے ہے۔ان کا یہ عمل یہ احساس دلانے کیلئے ہے کہ دنیا میں انسان کو جو بھی نعمتیں ملی ہیں وہ تمام خالق کی دی ہوئی ہیں،یہاں تک کہ ہمارے جذبات و احساسات اور مال و دولت سب اسی کے ہیں۔اگر اس کی منشا ہو تواس کی راہ میں ان سب کو بے دریغ قربان کیا جا سکتا ہے۔اگر ہم صرف دس ذی الحجہ کو جانوروں کی قربانی کرکے، دوست و احباب کی دعوتیں کرکے یہ سمجھتے ہیں کہ عید الاضحی کا حق اداہوگیا تو یقینا ہم نے قربانی کے اس عظیم دن کے تقاضے کو نہیں سمجھا ہے۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آخری حج کے موقع پر قربانی کے ایک دن پہلے یعنی 9 ذی الحجہ کو یوم عرفہ کے د ن اپنے تاریخی خطبہ کیلئے قربانی سے ایک دن پہلے جو آخری خطبہ دیاہے، اس خطبے کا لب لباب بھی تقریباً یہی ہے کہ انسان کی زندگی کا اصل مقصد ہی خالق کو راضی کرنا ہے۔ آپ کا یہ خطبہ رہتی دنیا تک کیلئے ایک عظیم پیغام ہے۔ اس خطبے میں آپ نے بنی نوع انسان کی زندگی کے ہر شعبے پر روشنی ڈالی اور یہ بتایا کہ ایک مومن کی زندگی کس طرح گزرنی چاہئے۔ اب ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ اللہ کے رسولؐ نے یوم عرفہ کے دن جو پیغام انسانیت کے نام دیا ہے۔ اس پیغام کو ہم اپنی زندگی میں کس حد تک نافذ کر رہے ہیں۔ آپؐ نے اس موقع پر جو کچھ بھی فرمایا تھا اس کا مختصر مفہوم کچھ اس طرح ہے: ’’ لوگو! میری باتیں سن لو ، مجھے کچھ خبر نہیں کہ میں تم سے اس قیام گاہ میں اس سال کے بعد پھر کبھی ملاقات کرسکوں۔ہاں،جاہلیت کے تمام دستور آج میرے پائوں کے نیچے ہیں، عربی کو عجمی پر اور عجمی کو عربی پر، سرخ کو سیاہ پر اور سیاہ کو سرخ پر کوئی فضیلت نہیں مگر تقویٰ کے سبب سے۔ خدا سے ڈرنے والا انسان مومن ہوتا ہے اور اس کا نافرمان شقی۔ تم سب کے سب آدم کی اولاد میں سے ہو اور آدم مٹی سے بنے تھے۔لوگو! تمہارے خون، تمہارے مال اور تمہاری عزتیں ایک دوسرے پر ایسے حرام ہیں جیسا کہ تم آج کے دن کی اس شہر کی اور اس مہینہ کی حرمت کرتے ہو۔دیکھو عنقریب تمہیں خدا کے سامنے حاضر ہونا ہے اور وہ تم سے تمہارے اعمال کی بابت سوال کرے گا۔اگر کسی کے پاس امانت ہو تواسے اس کے مالک کو ادا کرے اور اگر سود ہو تو وہ موقوف کردیا گیا ہے۔ اللہ نے فیصلہ فرما دیاہے کہ سود ختم کردیا گیا۔لوگو!تمہاری اس سر زمین میں شیطان اپنے پوجے جانے سے مایوس ہوگیا ہے ، لیکن دیگر چھوٹے گناہوں میں اپنی اطاعت کیے جانے پر خوش ہے اس لئے اپنا دین اس سے محفوظ رکھو۔ لوگو!اپنی بیویوں کے متعلق اللہ سے ڈرتے رہو۔ خدا کے نام کی ذمہ داری سے تم نے ان کو بیوی بنایا اور خدا کے کلام سے تم نے ان کا جسم اپنے لئے حلال بنایا ہے۔ تمہارا حق عورتوں پر اتنا ہے کہ وہ تمہارے بستر پر کسی غیر کو آنے نہ دیں، لیکن اگر وہ ایسا کریں تو ان کو ایسی مار مارو جو نمودار نہ ہو اور عورتوں کا حق تم پر یہ ہے کہ تم ان کو اچھی طرح کھلائو اچھی طرح پہنائو۔اگر کٹی ہوئی ناک کا کوئی حبشی بھی تمہارا امیر ہو اور وہ تم کو خدا کی کتاب کے مطابق لے چلے تو اس کی اطاعت اور فرماں برداری کرو۔ لوگو!نہ تو میرے بعد کوئی نبی ہے اور نہ کوئی جدید امت پیدا ہونے والی ہے۔ خوب سن لو کہ اپنے پروردگار کی عبادت کرو اور پنجگانہ نماز ادا کرو‘‘۔
اگر چہ یہاں پر خطبے کے کچھ حصوں کو لکھا گیا ہے، مگر غور کریں تو اللہ کے رسول کا یہ خطبہ تمام دینی تعلیمات کا نچوڑ ہے۔یہ خطبہ اللہ اور اس کے بندے کے درمیان سچے تعلق کی وضاحت کرتا ہے۔یہ خطبہ اسلام کے معاشرتی نظام کی بنیادیں مہیا کرتا ہے۔معاشرتی مساوات، نسلی تفاخر کا خاتمہ، عورتوں کے حقوق ، غلاموں کے ساتھ حسن سلوک، ایک دوسرے کی جان و مال اور عزت کا احترام کا درس دے رہا ہے۔ دنیا بھر کو اس خطبہ کے ذریعہ بتایاگیاکہ اسلامی معاشرہ کن اصولوں پر تعمیر ہوگا اور یہ نظام انسانیت کیلئے رحمت ثابت ہوگا۔ یہ ہمارے محبوب نبی کا آخری پیغام ہے اس کی نوعیت پیغمبر اسلام کی وصیت کی سی ہے۔
آج کا دن یہ احتساب کرنے کا ہے کہ ہم اپنے جذبات و احساسات کو کس حد تک رب کی منشا پر قربان کررہے ہیں۔آج کے اس دن کو صرف سیرو تفریح اور دوست و احباب سے ملنے جلنے کا دن بنائے بیٹھے ہیں یا شکرانے کے طور پر اس دن کے ہر پل کورضائے رب میں گزار رہے ہیں۔حدیث شریف میں کہا گیا ہے کہ ذی الحجہ کا پہلا عشرہ انسانی زندگی کا بہترین عشرہ ہے۔ اس عشرے میں وہ نیکیوں کا انبار لگا سکتا ہے،لیکن کیا ہم نے کبھی احتساب کیا کہ ہمارا عمل رب چاہی ہے یا مَن چاہی،ہم لہو ولعب میں سارا وقت گزار دیتے ہیں اور یہ سمجھ لیتے ہیں کہ قربانی کا حق ادا ہو گیا۔ حضرت ابن عمر ؓ روایت کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے فرمایا کہ ’’ ان دس دنوں سے بڑھ کر اور کوئی دن نہیں جن میں نیک عمل اللہ کو زیادہ محبوب ہوں، پس ان دنوں میں تکبیر وتحمید اور تہلیل کثرت سے کرو‘‘۔
اللہ کے رسولؐ نے اپنے خطبے میں کہا کہ مومن کا مومن پر حق ہوتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا ہم اس حق کو ادا کر رہے ہیں۔کیا ہم اپنے پڑوسی کا حق ادا کر رہے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ عید الاضحی سے ہمیں جو پیغام دیا جارہا ہے اس کو ہم نے یکسر بھلا دیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہم من چاہی زندگی کو رب چاہی زندگی پر ترجیح دے رہے ہیں۔ ہمار یہ حال ہے کہ قربانی کا گوشت اپنے فریجر میں جمع کرکے ہفتوں کھاتے ہیں اور ہمارا غریب پڑوسی کھانے کیلئے ترستا ہے۔ہمارا اپنے پڑوس کے ساتھ یہ سلوک ہوتا ہے کہ جانور قربانی کرنے کے بعد اس کی الائشیں سڑکوں کے کنارے، گلیوں میں یونہی چھوڑ دیتے ہیں، گھر کے اندر جانور کا جو خون بہا ہے اس کوصاف کر کے باہر کی طرف بہا دیتے ہیں اور اس بات کو نظر انداز کردیتے ہیں کہ ہمارا پڑوسی اس عمل سے دشواریوں میں پڑ سکتا ہے، جبکہ اسلام میں نہ صرف پڑوسی کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی ترغیب دی گئی ہے بلکہ صفائی ستھرائی کو ایمان کا حصہ کہا گیا ہے مگر ہم قربانی کے بعد ان سچائیوں کو نظر انداز کردیتے ہیں۔اس کے علاوہ ہم اس بات کو بھی بھول جاتے ہیں کہ ہمارے اس عمل کی وجہ سے گندگیاں پھیلیں گی تو بیماریاں پیدا ہوںگی جن سے قوم کے بچے خاص طور پر متاثر ہوسکتے ہیں۔ ایک طبی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ قربانی کے جانوروں کے فضلات کو فوراً تلف نہ کیے جانے سے کاٹگو وائرس پھیلنے کا خطرہ رہتا ہے۔یہ وائرس مریض کے جسم میں پلیٹ لیٹس کو تیزی سے کم کر دیتا ہے ، جس سے مریض کی موت ہوسکتی ہے۔اب ذرا غور کیجئے کہ ہماری ذرا سی بے احتیاطی سے کسی کے لیے کتنا بڑا مسئلہ پیدا ہوسکتاہے۔ یہ بات یا درکھنے کی ہے کہ عید الاضحی کا جتنا تعلق انسان کی ذات سے ہے اتنا ہی کمیونٹی اور انسانیت کی یکجہتی سے بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے ’’ اے بنی نوع انسان ، بے شک ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ہے۔ پھر ہم نے تمہاری قومیں اور قبیلے بنادیئے تاکہ تم ایک دوسرے سے پہچانے جائو۔ بلا شبہ اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جوزیادہ پرہیزگار ہے‘‘۔
حجۃ الوداع کے خطبے میں تفاخر سے سختی کے ساتھ روکا گیا ہے، لیکن ہمارا یہ حال ہے کہ جب فربہ اور بڑا جانور خریدتے ہیں تو اس جانور کو اس نیت کے ساتھ محلے اور گلیوں میں گھماتے ہیں کہ لوگ اس کی تعریف کریں۔غرض ہم اپنی زندگی پر نظر ڈالیں تو ایسا لگتا ہے کہ اللہ کے نبیؐ نے حجۃ الوداع کے موقع پرامت کے نام جو خطبہ دیا ہے، ہم اس کو اپنی زندگی سے نکالتے جا رہے ہیں۔عید الاضحی کا دن ہمیں اس خطبے کو اپنی زندگی میں نافذ کرنے کا مطالبہ کرتا ہے۔
[email protected]
اصل قربانی نفس کی قربانی ہے : عبدالعزیز
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS