انجینئر خالد رشید(علیگ)
ملک نے گزشتہ75سالوں میں لاتعداد الیکشن دیکھے جن میں مرکزی اور صوبائی الیکشن شامل ہیں لیکن 2024کا الیکشن کئی اعتبار سے ان تمام انتخابات سے مختلف رہا۔ یوں تو بی جے پی کے دس سالہ اقتدار کی تاریخ میں بہت سے کاموں کو تاریخی قرار دیا گیا مثلاً جی ایس ٹی، نوٹ بندی، تین طلاق، سی اے اے،دفعہ 370 وغیرہ، لیکن 2024 کا الیکشن اس لحااظ سے تاریخی رہا کیونکہ الیکشن کمیشن کی جانبداری، جھوٹ پہ مبنی بیانات، حزب اختلاف کے قائدین کے سروں پر لٹکی سرکاری ایجنسیوں کی تلواروں، الیکشن کے درمیان حزب اختلاف کے وزرائے اعلیٰ کی گرفتاریوں، تمام حدوں کو عبور کرتی مذہبی منافرت کی تقریروں، جانبدار میڈیا کے یکطرفہ کرداروں ، پران پرتشٹھا اور بے دریغ دولت کے استعمال کے باوجود حزب اقتدار کا جیت کے لیے مطلوبہ نشستوں کے ہدف کو پورا نہ کرپانا ایک تاریخی واقعہ ہے جس کو ملک کی انتخابی تاریخ میں جمہوریت کی فتح اور عوام کی جیت کے طور پر یاد کیا جائے گا۔ بہرحال اب تو نتائج بھی آچکے ہیں، کابینہ کی تشکیل کا کام بھی مکمل ہوچکا ہے اور وہ انتخابی مہم جس نے ملک کی جمہوریت کو شکست دینے کی ناکام کوشش کی، ختم ہوچکی ہے، اب امید کی جانی چاہیے کہ مودی جی ان گارنٹیوں کو پورا کریں گے جن کا اعلان وہ انتخابی مہم کے دوران سینا ٹھوک ٹھوک کے کیا کرتے تھے۔ مودی جی نے کابینہ کے قلمدانوں کا بٹوارہ جس انداز میں کیا ہے، اس سے صاف ظاہر ہے کہ حکومت کی پالیسیوں میں کوئی خاطرخواہ تبدیلی واقع نہیں ہوگی لیکن یہ سرکار بیساکھیوں کے سہارے چلے گی، اس میں بھی کسی شک کی گنجائش نہیں، کم سے کم اس وقت تک جب تک کچھ چھوٹی پارٹیوں میں توڑپھوڑ کرکے 240 کو 272 نہیں کرلیا جاتا۔ یہ کام کتنے دنوں میں ہوگا یہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن بی جے پی کے ماضی کے ریکارڈ پر نظر ڈالیں تو یہ کام یعنی دوسری پارٹیوں میں آپریشن کمل ایک معمول کی کارروائی ہے جس کو کبھی بھی انجام دیا جا سکتا ہے لیکن فی الحال بی جے پی کے لیڈروں کی وہ گردنیں جو 400 پار کے نعروں سے آسمان تکنے لگی تھیں، ان میں کچھ لچک ضرور پیدا ہوئی ہے۔ وہ مودی جی جو بی جے پی کے منشور کو بھی مودی کی گارنٹی بتایا کرتے تھے اور 56 انچ کا سینہ ٹھونک کے حزب اختلاف کو جیل میں ڈالنے کا دعویٰ کیا کرتے تھے، اب یہ تسلیم کر رہے ہیں کہ یہ حکومت بی جے پی کی نہیں، این ڈی اے کی حکومت ہے۔ مودی جی اسی نتیش کمار کو بغل میں بیٹھا کر تصویریں کھینچوا رہے ہیں جن کو اپنی ریلیوں میں اسٹیج پہ گوارہ نہیں کرتے تھے، اسی چندر بابو نائیڈو کی حلف برداری میں شرکت کی، جن کو گزشتہ سال ہی کرپشن کے الزام میں جیل بھجوایا تھا، صرف اتنا ہی نہیں بدلے ہوئے حالات میں بی جے پی کے اندر مودی مخالف آوازوں کے بلند ہونے کے امکانات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا، جس کا اشارہ گڈکری نے دے دیا ہے نیز یہ کہ وہ آر ایس ایس جس کی ضرورت بقول جے پی نڈا بی جے پی کو نہیں رہی تھی، وہ بھی کھلے عام مودی جی کو راج دھرم یاد دلانے لگی ہے۔ موہن بھاگوت کا حالیہ بیان اسی سمت اشارہ کرتا ہے کہ اب سنگھ مودی کی من مانی برداشت کرنے کو تیار نہیں ہے۔ اس کے علاوہ بی جے پی کی یہ شکست ان دو وزرائے اعلیٰ کے لیے بھی سنجیونی ثابت ہوئی ہے جو مودی اور شاہ کی جوڑی کو ایک آنکھ نہیں بھاتے تھے ۔ان دونوں کے لیے بھی یہ نتائج سنجیونی ثابت ہوئے ۔ نتیش کمار اور یوگی آدتیہ ناتھ دونوں کو آکسیجن مل گئی۔ کچھ قارئین کو شاید میرے اس تبصرے پر تعجب ہو لیکن اگر حقائق پر تھوڑاغور کریں تو میری بات سے اتفاق کریں گے۔ نتیش کمار کی سیاسی پلٹی اور اپوزیشن اتحاد ’انڈیا‘ چھوڑنے کے بعد نتیش کمار کی سیاسی شبیہ کو زبر دست نقصان ہوا تھا۔ سیاسی مبصرین کہہ رہے تھے کہ بہار میں ان کی سیاسی اننگ اب ختم ہو چکی ہے اور آنے والے صوبائی الیکشن میں بی جے پی ان کو کنارے کردے گی یا کم سے کم اپنی شرطوں پر این ڈی اے میں شامل کرے گی لیکن بدلے ہوئے حالات میں ایک بار پھرآنے والا اسمبلی الیکشن بی جے پی کو نتیش کمار کی شرطوں پر لڑنا ہوگا۔حالاں کہ یہ بات بھی اپنی جگہ صحیح ہے کہ نتیش بھی ہوا کا رخ بھانپنے میں پوری طرح ناکام رہے، اگر وہ اپوزیشن اتحاد ’انڈیا‘ میں شامل رہ کر الیکشن لڑے ہوتے تو نہ صرف ’انڈیا‘ بہار میں کم ازکم25 نشستیں جیت کر اکثریت حاصل کرلیتا بلکہ آج نتیش کمار وزیراعظم کی کرسی کے اہم دعویدار ہوتے لیکن انہوں نے پلٹی ماری اور ایسا محسوس ہونے لگا کہ اب نتیش کی سیاست ختم ہوجائے گی۔ اب نئے سیاسی منظر نامہ میں بہار تو کیا ملک میں بھی نتیش کمار کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں، کچھ ہی ماہ میں بہار میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات ہونے ہیں اور اگر مودی جی کو مرکز کی حکومت بچانی ہے تو ایک بار پھر نتیش کی قیادت میں الیکشن لڑنا پڑے گا جو نریندر مودی اور امت شاہ کی مرضی کے عین خلاف ہوگا لیکن مجبوراً ان کو یہ کڑوا گھونٹ پینا پڑے گا۔ دوسری کرسی جو ان نتائج نے محفوظ کی، وہ یوگی آدتیہ ناتھ کی ہے۔ الیکشن کے دوران جو افواہوں کا بازار گرم تھا، ان میں سب سے مدلل افواہ یہی تھی کہ اگر مرکز میں بی جے پی ایک طاقتور پارٹی بن کر ابھرتی ہے تو اس کا پہلا شکار یوگی آدتیہ ناتھ کو بننا پڑے گا لیکن اس نئے سیاسی منظرنامہ میں مودی جی یوگی کو تبدیل کرنے کا خیال بھی دماغ میں نہیں لاسکتے، کیونکہ اب ایک ایک ممبر پارلیمنٹ کی اہمیت ہے، کون جانے کتنے ممبر یوگی کے وفادار ہوں، لہٰذا ان انتخابی نتائج سے یہ واضح پیغام ملا کہ ہر بیان تول کر دینا پڑے گا اور آنے والے کئی سالوں تک ہر قدم سوچ سمجھ کر اٹھانا پڑے گا۔ بقول افتخار عارف :
یہ وقت کس کی رعونت پہ خاک ڈال گیا
یہ کون بول رہا تھا خدا کے لہجے میں
[email protected]