خواجہ عبدالمنتقم
آر ایس ایس کے سربراہ جناب موہن بھاگوت یہ فرما رہے ہیں کہ پیغمبر صاحب کا اسلام کیا ہے؟ یہ سمجھنا ہوگا اور ہمیں اس ملک کے تمام لوگوں کو اپنا بھائی سمجھنا چاہیے۔ہر ذی شعور اور ذی عقل شخص کو چاہیے کہ وہ صحیح بات کو ہمیشہ صحیح کہے خواہ وہ کسی نے بھی کہی ہو۔ہمارے نبیؐ تو صدیوں قبل بطور رحمۃ اللعالمین پوری دنیا کو پیغام اخوت دے چکے ہیں۔ بقول خواجہ صولت حسین صولت سنبھلی:
ادا کیسے کریں ہم شکریہ شمع رسالتؐ کا
سبق جس نے دیا ہم کو محبت کا اخوت کا
خطبۂ حجتہ الوداع:حضوراکرمؐ نے اپنے وصال سے قبل جو آخری خطبہ دیا تھا، اسے خطبۂ حجتہ الوداع کہا جاتا ہے اور اس کا نفس موضوع اس بات کا شاہد ہے کہ یہ حقوق انسانی کا مثالی اور ابدی منشور ہے جو اس وقت وجود میں آیا جب دنیا کے لوگ ’انسانی حقوق‘ جیسی اصطلاح تک سے بھی واقف نہ تھے۔ حضوراکرمؐ نے سیکڑوں سال پہلے انسان کو عطا کیے جا نے والے ان حقوق کی بات کی تھی جنہیں گزشتہ صدی میں انسانی حقوق کا نام دیا گیااورلوگوں کو یہ لگا جیسے کہ انسانی حقوق کی اصطلاح کوئی نئی وضع کی گئی اصطلاح ہے۔ آج عالمگیریت کے اس دور میں چاہے میگنا کارٹا(منشور اعظم) 1215ء، قانون حبس بے جا1679ء، فطری قانون، امریکہ کا اعلان آزادی 1776ء، اقوام متحدہ کا انسانی حقوق سے متعلق عالمگیر اعلامیہ1948ء منشور برائے شہری اور سیاسی حقوق، یا اس صدی کے اوائل میں اقوام متحدہ کے ذریعے منظور کیے گئے گلوبل ایجنڈے یا نیوملینیم ڈکلیئریشن جیسی دستاویزات کی بات ہو، جن میں مساوات، مساوات مردوزن، انسانی جان کے احترام وتعظیم ، عالمی برادری میں یگانگت، عالمگیریت، ماحولیاتی تحفظ، خواتین کے حقوق، نسلی امتیاز کا خاتمہ، انصاف، نصفت، جیسے انسانی حقوق عطا کیے جانے کی بات کہی گئی ہے، حضوراکرمؐ نے اپنے آخری میں خطبہ میں ان کا اس طرح ذکر کیا ہے اور تمام انسانوں پر اس پر عمل کرنے کی تاکید کی ہے کہ آج تک ان کا یہ خطبہ ہر مذہب ومکتب فکر کے ماننے والوں کے لیے مشعل راہ کا کام کررہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ خطبہ مظلوم، مقہور، کمزور، مجبورانسانوں اور سسکتی اور دم توڑتی مظلومیت کی شکار اور طبقاتی ونسلی عصبیتوں سے جوجھتی اس دنیا کی اصلاح اور فلاح کے لیے حقوق وفرائض کا سرمد، حتمی، عملی وابدی منشور ہے اور تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ حضوراکرمؐ کا یہ پیغام یقینی طور پر اس مظلوم دنیا کے لیے ایک انقلابی فرمان اور مژدۂ جاں فزاں ثابت ہوا اور نہ صرف مسلمان مؤرخوں بلکہ غیر مسلم دانشوروں، تاریخ دانوں، اصحاب قلم، مفکروںو فلسفیوںنے اس بات کو نہ صرف مانا ہے بلکہ قلم بند بھی کیا ہے کہ اسلام اپنے ان اصولوں کی ہی وجہ سے دنیا کے ہر ہر کونے میں پہنچا اور یہ کہنا کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا محض متعصبانہ ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے۔
انسانی حقوق اسلام کے نظریہ حیات کا لازمی ودائمی جزء لاینفک ہیں جنہیں حقوق العباد کی شکل میں عملی جامہ پہنانے کی ضمانت فراہم کی گئی ہے۔اس عظیم انسان کو یک ایسا فرد واحد کہنا غلط نہ ہوگا جس نے دنیا کی بیشتر جغرافیائی حدود میں اپنے پیغام انسانیت کو پہنچایا اور وہ بھی ایک ایسی ابدی شکل میں جس کا وجودتاقیامت قائم رہے گا اور ان اصولوں کوجو بھی فرد، جماعت، تنظیم، ادارہ یا حکومت زک پہنچانے کی کوشش کرے گی، اسے ظالم وجابر سمجھا جائے گا اور اس کے اس طرح کے فعل کو آج کے انسانی حقوق کے معیار کے مطابق بھی فعل مکروہ سمجھا جائے گا اور اسے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے زمرے میں رکھا جائے گا۔ آج ہر شخص جو بھی کسی میدان میں ذرا سی شہرت حاصل کرلیتا ہے تو وہ خود کو فرد واحد سمجھنے لگتا ہے مگر فرد واحد وہ ہے جسے دنیا سمجھے۔ یہ فرد واحد ہمارے حضورؐ ہی ہیں اور آج بھی ان کا یہ پیغام اور گنبدخضراء سے دنیا کے ہر ہر کونے تک پہنچنے والی مذہب اسلام کی روشنی اس بات کی گواہ ہے کہ حقیقی معنوں میں یہی وہ فرد واحد ہے جو آیا اس دنیا میں بن کر حامی غم نصیبوں کا، آسرا بیکسوں کا ، مشفق غریبوں کا، معاون کمزوروں کا، جس نے توڑدیں دیواریں رنگ و نسل کی، قوموں و قبیلوں کی اور بخشی انسان کو انسان کی عظمت، ختم کردی برتری گوروں کی کالوں پر، دولت مندوں کی غریبوں پر اور بادشاہوں کی غلاموں پر۔ یہی وہ عظیم ہستی ہے جس نے انسانی حقوق کے اولین علمبردار کی حیثیت سے نوع انسانی کو انسانی حقوق کا دائمی پیغام دیا۔
خطبۂ حجۃ الوداع9ذی الحجہ10ھ بمطابق 6مارچ 632ء، انسانی حقوق کا عالمی اور دائمی منشور ہے۔ اگر اسے انسانی حقوق کا مکمل چارٹر کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ اس تاریخی دستاویز میں تقریباً وہ تمام انسانی حقوق موجود ہیں جو دور جدید کی انسانی حقوق سے متعلق تمام اہم دستاویزات میں موجود ہیں۔ اس میں حق مساوات، عدل و انصاف، امن و آشتی اور بقائے باہمی کا حق، عزت نفس، انسانی جان کے تحفظ کا حق، عورتوں کے حقوق وغیرہ سے متعلق توضیعات شامل ہیں۔ اس خطبہ کی توضیعات اور اس سے حاصل ہونے والے انسانی حقوق کی روشنی میں اسے حجۃ الاسلام، حجۃ التمام، حجۃ الکمال اور حجۃ البلاغ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ اس کااخوت و یگانگت سے متعلق حصہ اس طرح ہے۔
’’اللہ کے بندو! میں تم کو آگاہ کرتا ہوں کہ مسلمان کو ن ہے؟ مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے لوگ محفوظ رہیں۔ لوگو! رب ایک ہے سب کے سب آدمؑ کی اولاد ہیں۔ اے لوگو! اللہ تعالیٰ نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے یعنی آدمؑ و حواؑ سے پیدا کیا ہے اور تمہیں مختلف قوموں اور قبیلوں میں تقسیم کردیا۔۔اپنے غلاموں سے اچھا سلوک کرو، ان کو وہی کھلائو جو تم کھاتے ہو اور وہی پہنائو جو تم پہنتے ہو۔۔۔ خواتین کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔ تمہاری بیویوں کا تمہارے ذمہ حق ہے اور تمہارا ان پر۔۔۔سنو! اگربیٹا جر م کر تا ہے تو باپ مستوجب سز انہیں اسی طرح اگر باپ جرم کرتا ہے تو بیٹا اس کا ذمہ دار نہیں۔۔۔‘‘
رحمۃ للعالمین کی ذاتِ اقدس نے مساوات کے اس تصور کو عملًا بام عروج تک پہنچایا اور انسانی عظمت اور بنی آدم کے شرف کو بام ثریا تک پہنچا دیا۔ آج تک بھی مشرقی ومغربی غیر مسلم مفکرین آپؐ کی اس مساویانہ پہل کی تعریف کر تے ہیں۔ آپؐ کے اخوت و یگانگت کے بارے میں خیالات آج بھی اس پرآشوب دور میں سب کو دعوت فکر دے رہے ہیں۔ ہماری بدنصیبی ہے کہ آج صرف چند لوگوں کی غلطیوں اورکچھ لوگوں کی غلط سوچ نے ہمارے پرامن مذہب اسلام کو اس طرح بدنام کردیا ہے کہ جیسے ہمارا مذہب دہشت گرد وں اور ظالموں کا مذہب ہو۔ حالانکہ ہمارا مذہب تو امن وسکون اور صلح وآشتی کا پیغام دیتا ہے۔ یہ تو وہ مذہب ہے جو ایک انسان کے قاتل کو پوری انسانیت کا قاتل قرار دیتا ہے اور ساتھ یہ بھی کہتا ہے کہ جس نے ایک انسان کو ناحق قتل کیا اس نے تمام انسانوں کو قتل کیا اور جس نے ایک انسان کی جان بچائی اس نے تمام انسانوں کی جان بچائی۔
(مضمون نگارماہر قانون، آزاد صحافی،مصنف،سابق بیورکریٹ و بین الاقوامی ادارہ برائے انسانی حقوق سوسائٹی کے تا حیات رکن ہیں)
[email protected]