پروفیسر عتیق احمدفاروقی
عام انتخابات کے نتائج غیرمتوقع نہیں تھے ، ہاں ایگزٹ پول کے نتائج بالکل غلط ثابت ہوئے ۔جس کے بارے میں غیرجانبدار تجزیہ کار پہلے ہی بتاچکے تھے۔ دس سال بعد ملک میں پھر اتحادی حکومت بن گئی ہے مگر آگے کی را ہ آسان نہیں ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ بھلے ہی بی جے پی سب سے بڑی پارٹی کے طور پر ابھر کر سامنے آئی ہے اور این ڈی اے کو اکثریت کیلئے مطلوبہ حمایت بھی مل گئی ہے، لیکن بی جے پی اپنے بل پر اکثریت کی جادوئی عدد اس بار نہیں حاصل کرسکی۔ اس عوامی فیصلے میں سبھی کیلئے کچھ نہ کچھ پیغام ہے۔ اول پیغام ، جو بی جے پی کو ملاہے ، وہ یہ ہے کہ کوئی بھی اکثریت مستقل نہیں ہوتی۔
جمہوریت میں لگاتار اتار چڑھاؤ چلتارہتاہے۔ جس پارٹی کو آگے بڑھنے کا موقع ملتاہے اسے نقصان بھی اٹھانا پڑتاہے۔ یہ صحیح ہے کہ بی جے پی کو کچھ علاقوں میں بڑی کامیابی ملی ہے ، مثلاً اوڈیشہ میں یاجنوبی ہندوستان کی ریاستوں میں اور اس نے گجرات ،مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ جیسے وسط ہندوستان کے شعبوں میں بھی اپنا دبدبہ برقرار رکھاہے مگر جس اترپردیش کو اس کا مضبوط قلعہ کہاجاتاہے ، وہ اس بار کمزور ہو گیاہے ۔ اسی طرح ہریانہ اورراجستھان میں بھی اسے بڑے جھٹکے لگے ہیں۔
فی الحال کہنامشکل ہے کہ کن اسباب سے پارٹی کو شکست کا سامنا کرناپڑا،لیکن جیسا کہ کچھ دنوں سے لگاتار کہاجارہاتھا کہ ملک کے ایک بڑے طبقہ میں بھی اپنے اقتصادی حالات کو لے کر تشویش بنی ہوئی ہے۔ بی جے پی ممکنہ طور پر اس ناراضگی کو پوری طرح سمجھ نہیں پائی۔
بی جے پی کیلئے ایک دیگر سبق یہ ہے کہ صرف نریندرمودی کے چہرے یا غریبوں کیلئے اناج اسکیم کے نام پر وہ لگاتار ووٹ نہیں جٹاسکتی۔ پھر چارسو پار کا نعرہ بھی ضرورت سے زیادہ پراعتمادی کا اشارہ سمجھاگیا۔ حزب مخالف نے اس نعرے کا استعمال پسماندہ ذاتوں ،خصوصاً دلتوں کو یہ سمجھانے میں کرلیا کہ آئین کو تبدیل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اوران کا ریزرویشن ختم ہوسکتاہے ۔ بی جے پی اس بیانیہ کی بھی کاٹ نہیں تلاش کرپائی ۔ دوسرا پیغام کانگریس اورخصوصاً ’انڈیااتحاد‘کیلئے ہے۔
بلا شبہ مخالف جماعتوں کے اس اتحاد نے توقع سے بہتر مظاہرہ کیاہے۔ حالانکہ اترپردیش اورمہاراشٹرا میں وہ این ڈی اے پر بھی بھاری ثابت ہواپردہلی جیسے صوبہ میں وہ کچھ خاص نہیں کرپایاہے۔ کانگریس کیرل اورپنجاب کا اپناگڑھ بچانے میں کامیاب رہی اورہریانہ، تلنگانہ اور راجستھان میں بھی اس کی کارکردگی اچھی ہے، لیکن گجرات ،مدھیہ پردیش اورچھتیس گڑھ جیسی ریاستوں میں جہاں اس کا سیدھا مقابلہ بی جے پی سے تھاوہاں اُسے کچھ خاص کامیابی نہیں مل سکی ہے۔ کرناٹک میں بھی اس کی کارکردگی توقع کے مطابق نہیں رہی ہے۔ اس بار کانگریس کی نشستیںاور اُس کے ووٹ فیصد میں قابل ذکر اضافہ ہواہے۔
لگتاہے کہ اس کا اقتصادی انصاف کا منصوبہ اور ذات پر مبنی سروے جیسے مدعے کچھ رائے دہندگان کو متاثر کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ اس میں راہل گاندھی کا کردار کافی اہم مانا جائے گا۔اُن کی ’دوبھارت جوڑو یاترا‘کا خاصہ اثر رہاہے ۔ اس اتحاد کیلئے سب سے بڑا پیغام یہی ہے کہ بیشک انہیں اپنی سیاسی زمین جمانے کیلئے ایک سہارا مل گیاہے لیکن اس کے آگے کی راہ کافی طویل اورپیچیدہ ہے۔ اس اتحاد کی اہم خاصیت جیسے اُدھو ٹھاکرے کی شیوسینا یا شرد پوار گروپ کی این سی پی کو ہمدردی کا فائدہ حاصل ہواہے اوردیکھناہوگاکہ ریاستی اسمبلی انتخابات تک یہی حالات بنے رہتے ہیں یا نہیں ؟ ۔
تیسراپیغام ان مخالف پارٹیوں کیلئے ہے جو نہ تو این ڈی اے میں تھیںاورنا’انڈیا‘میں۔ انتخابات کے نتائج اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ بنا خیمے والی اِن پارٹیوں کو گہری مایوسی ہاتھ لگی ہے۔
بی ایس پی جہاں اپنا کھاتہ کھولنے میں بھی ناکام رہی ، وہیں بیجو جنتادل کو لوک سبھا اورصوبائی اسمبلی انتخابات دونوں میں کراری شکست کا سامنا کرنا پڑاہے ۔ دہلی میں اتحاد بناکر لڑنے والی ’ عام آدمی پارٹی ‘کو بھی نقصان اٹھانا پڑاہے ۔ ہاں ،مغربی بنگال میں تنہا چناؤ لڑنے والی ترنمول کانگریس نے اپنااثر بچائے رکھا لیکن دیگر تمام پارٹیوں کو بڑا جھٹکا لگاہے۔ اس سے یہی معلوم ہوتاہے کہ ہندوستانی سیاست اب دوقطبوں میں تقسیم ہوگئی ہے اوراگر کوئی پارٹی ان اتحادوں کا حصہ نہیں ہے، تواسے انتخابی جنگ میں خاصی مشکلوں کاسامنا کرناپڑسکتاہے۔ چوتھا پیغام انتخابی تجزیہ نگاروں کیلئے ہے ۔ نتائج بتاتے ہیں کہ ایگزٹ پول کئی بار غلط بھی ثابت ہوسکتے ہیں۔ اترپردیش ،مغربی بنگال اورکچھ حدتک مہاراشٹرا میں تو چناوی نتیجہ ایگزٹ پول کے بالکل برعکس رہا۔ کچھ تجزیہ نگار ضرور بی جے پی کے نقصان کی بات کررہے تھے لیکن ان کا اندازہ اتنا نہیں تھا جس طرح کے نتائج آئے ہیں۔ رائے دہندگان نے ان چناوی پنڈتوں کو اشارہ کیاہے کہ ایک ہی چشمے سے پورے ملک کو دیکھنا غلط ہے۔ الگ الگ خطوں کے الگ الک مسائل ہیں اورپارٹیوں کی طاقت بھی الگ الگ ہوتی ہیں۔ جن جن علاقوں میں انتخابی تجزیہ نگار ان حساب کو سمجھنے میں کامیاب رہے ، ان کا نتیجہ عوامی فیصلے کے مطابق رہالیکن جہاں وہ چوک گئے وہاں ان کو شکست ہوئی ۔
پانچواں پیغام ہندوستانی جمہوریت کے ان تمام اداروں کیلئے ہے جن پر جمہوریت کو مضبوط رکھنے کی اہم ذمہ داری ہے ۔ پھر چاہے وہ روایتی وسوشل میڈیاہو یا الیکشن کمیشن جیسے ادارے ۔ عوام نے واضح کردیاہے کہ جمہوریت عوام کی ،عوام کے ذریعے اورعوام کیلئے ہی ہے۔ اس کی مضبوطی کیلئے جمہوریت کے تمام اداروں کوآگے آنا ہوگا۔ یہ نتیجے ان اداروں کیلئے سبق ہیں کہ وہ اپنا کام غیرجانبدار ہوکر کریں، تبھی عوام کے مفاد کو فروغ ملے گا۔ ویسے ووٹروں نے سیاسی جماعتوں کو بھی پیغام پہنچایاہے کہ عاجزی کے ساتھ سیاست کیجئے کیونکہ جمہوریت میں تکبر کی کوئی جگہ نہیں ہوتی۔ موجودہ سیاسی صورت حال بہت غیریقینی ہے۔ نریندرمودی کو صدرجمہوریہ نے وزیراعظم کا حلف تو دلادیاہے لیکن آگے تمام مسائل ان کا انتظارکررہے ہیں۔ ملی جلی حکومت میں وزارت سازی سب سے مشکل مرحلہ ہوتاہے۔حالانکہ این ڈی اے کی حکومت بن تو گئی ہے لیکن یہ بیساکھی پر چلنے والی حکومت کتنے دنوں تک چلے گی ، یقین کے ساتھ نہیں کہاجاسکتا،خصوصاً اِن حالات میں جب وزیراعظم عادتاً ایک تاناشاہ ہو۔
واضح ہے کہ یہ عوامی فیصلہ سبھی کو کچھ نہ کچھ پیغام دے رہاہے ، ضرورت ہے کہ صرف اسے پڑھنے اورسمجھنے کی۔ اگران اسباق کو مد نظر رکھنے کی کوشش کی گئی توبلاشبہ ہندوستان کی جمہوریت مزید خوشحال اورپختہ بن کر ابھرے گی۔
[email protected]