پارلیمانی انتخابات ہوگئے، نتائج آگئے، بی جے پی کی سربراہی والی حکومت بن گئی۔ وزیراعظم نریندر مودی مسلسل تیسری بار وزیراعظم بن گئے۔ پنڈت جواہر لعل نہرو کے بعد وہی مسلسل تین بار وزیراعظم بنے ہیں۔ پنڈت نہرو 1952، 1957 اور 1962 میں وزیراعظم منتخب ہوئے تھے۔ آخری مدت کار وہ پوری نہیں کر پائے تھے، ان کا انتقال ہوگیا تھا۔ پنڈت نہرو کے وقت الگ قسم کے چیلنجز تھے اور اس وقت الگ قسم کے چیلنجز ہیں۔ ہندوستان تقسیم کے بعد آزاد ہوا تھا۔ سب سے بڑا چیلنج ہندوستانیوں کو متحد رکھنے کا تھا۔ پنڈت نہرو نے یہ کام بڑی اچھی طرح کیا۔ اس وقت دنیا بٹی ہوئی تھی۔ ہندوستان کے لیے چیلنج یہ تھا کہ وہ امریکہ یا سوویت یونین میں سے کسی کے گروپ میں شامل نہ ہو۔ اس چیلنج سے بھی پنڈت نہرو نے بڑی اچھی طرح نمٹا اور ناوابستہ تحریک کی تشکیل میں معاون بن کے ان ملکوں کو بھی راحت دی جو ہندوستان کی طرح ہی امریکہ یا سوویت یونین کے گروپ سے وابستہ ہونے کے بجائے الگ رہنا چاہتے تھے۔ اس وقت چین کا چیلنج تھا۔ اس نے اس کے باوجود ہندوستان پر حملہ کر دیا تھا کہ اس نے اس سے رشتہ استوار کرنے کی کوشش کی تھی۔ ہندوستان کے لوگ ’ہندی چینی بھائی بھائی‘ کے نعرے لگایا کرتے تھے۔ اس وقت چیلنج پاکستان کا بھی تھا۔ اس کے علاوہ پنڈت نہرو کو نئے سرے سے ادارے کھڑے کرنے تھے تاکہ آنے والے وقت میں ہندوستانی اپنے ملک کو ترقی یافتہ بنانے کے خوابوں کی تعبیرحاصل کر سکیں۔ پنڈت نہرو کے لیے یہ بھی ایک بڑا چیلنج تھا کہ ہندوستان کو اقتصادی اوردفاعی طور پر مستحکم کیسے بنایا جائے۔ پنڈت نہرو کے لیے خوش آئند بات یہ تھی کہ وہ تینوں ہی باربھاری اکثریت کے ساتھ وزیراعظم منتخب ہوئے تھے۔ 2014 اور 2019 میں بی جے پی نے بھی اکثریت حاصل کی تھی۔ اس بار وہ اکثریت حاصل نہیں کرسکی۔ اس کے باوجود نریندر مودی وزیراعظم بنے ہیں جبکہ پہلے وہ اکثریت والی گجرات حکومت کے ہی وزیراعلیٰ منتخب ہوتے رہے، پھراکثریت والی حکومت کے ہی وزیراعظم منتخب ہوئے۔ ان کے لیے کئی چیلنجز تو وہی ہیں جو پنڈت نہرو کے تھے جیسے چین سے نمٹنا، پاکستان کی شرارتوں کو لگام دینا، امریکہ اور روس کے گروپ سے وابستہ ہوئے بغیر ان دونوں سے رشتے رکھنا، ہندوستان کو اقتصادی اور دفاعی طور پر مستحکم بنانا اور ہندوستانیوں کو متحد رکھنا، اس کے لیے نفرت سے انہیں دور رکھنا جبکہ حالیہ پارلیمانی انتخاب کی تشہیری مہم میں دیے جانے والے بیانات کو دیکھا جائے تو یہ کام مشکل نظر آتا ہے۔ پاکستان خود اپنے حالات میں الجھا ہوا ہے، وہ ہندوستان کے لیے زیادہ بڑا چیلنج نہیں ہے، البتہ چین کی طرف اس کا ایک حد سے زیادہ جھکاؤ چین کی توسیع پسندی کی وجہ سے ضرور ایک بڑا چیلنج ہے۔ ان چیلنجز سے نمٹنے اور ترقی کی راہ کو آسان بنانے کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ہندوستان کی مستقل رکنیت ضروری ہے۔ برکس کی توسیع اور جی-20 کا کامیاب سربراہ اجلاس منعقد کرکے مودی حکومت نے اس کے لیے حالات سازگار بنا دیے ہیں۔ اسی لیے جواب طلب سوال یہ ہے کہ حالات سے وہ کتنا فائدہ اٹھا پاتی ہے۔
سیاست میں حالات سے فائدہ اٹھائے بغیر کامیابی حاصل نہیں کی جا سکتی۔ یہ بات جنتا دل (یونائٹیڈ )کے نتیش کمار اور تیلگو دیشم پارٹی کے چندرابابو نائیڈو بھی سمجھتے ہیں۔ پارلیمانی اور اسمبلی انتخابات میں کامیابی کے بعد ان کی طرف سے یہ یقین آندھرپردیش کے مسلمانوں کو دلایا گیا ہے کہ وہ ریزرویشن کے وعدے سمیت انتخابی وعدوں کو پورا کریں گے۔ جنتا دل(یونائٹیڈ ) کو جلد ہی اسمبلی انتخابات کا سامنا کرنا ہے، نتیش یہ نہیں چاہیں گے کہ مرکز کی سیاست کرنے کی فکرمیں بہار میں کمزور پڑجائیں۔ ان کی کوشش یہی ہوگی کہ مسلمانوں میں اب تک ان کی جو امیج رہی ہے،وہ برقرار رہے۔ ایسی صورت میں ایک ملک ایک الیکشن کا کیا ہوگا؟ یکساں سول کوڈ پر حکومت کس طرح پیش رفت کرپائے گی؟ یہ جواب طلب سوال ہیں، سوال یہ بھی ہے کہ کیا اب لنچنگ کو روکنے کی سنجیدہ کوشش کی جائے گی؟ اگر لنچنگ کے واقعات ہوتے رہے تو کیا جنتا دل (یونائٹیڈ ) اور تیلگو دیشم پارٹی کی طرف سے کوئی عملی ردعمل سامنے آئے گا؟ مہاراشٹر کی سیاست میں ہلچل نظر آرہی ہے۔ اس کا دائرۂ اثر کتنا وسیع ہوگا؟ اس سوال کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔ توقع یہی رکھی جانی چاہیے کہ حکومت تمام چیلنجز کا مقابلہ کرتے ہوئے وطن عزیز ہندوستان کو ترقی کی شاہراہ پرگامزن رکھے گی، مہنگائی اوربے روزگاری کے مسئلوں سے نمٹے گی تاکہ عام لوگوں کو راحت ملے۔
[email protected]