پروفیسر اسلم جمشید پوری
ابھی تو بہت سے پیپر لیک کا معاملہ سرد بھی نہیں ہوا،نیٹ امتحان کا رزلٹ سر درد بن گیا ہے۔ایک طرف این ڈی اے سر کار بننے میں لطف و انبساط رفو چکر ہوگیا ہے۔بی جے پی کی حالت اس عاشق کی سی ہو گئی ہے،جو کسی اور سے پیار کرتا ہے اور اس کے والدین نے کہیں اور اس کی شادی طے کر دی ہو۔وہ مجبوری میں شادی کے ہر کام تو کر رہا ہے مگر اس کے اندر دلی خوشی نہیں،وہ جذبہ نہیں۔یہی حالت بی جے پی کی ہے کہ وہ سرکار تو بنارہی ہے۔ایک طرف اپنی حلیف جماعتوں کے نخرے اور ڈیمانڈز ہیں، ان کی پسندیدہ وزارتوں کی مانگ ہے اور بہت سے پرانے فیصلوں پر اعتراضات ہیں۔ دوسری طرف حریف جماعتوں کے ممبران کی تعداد،جو ہر فیصلے میں رخنہ اندوز ہوگی۔ایسے میں ان کی راہ بہت مشکل ہو گی اورحکومت چلا نا آسان نہیں ہوگا۔ایسے میں نیٹ(Neet) کے ایسے رزلٹ نے حلیف اور حریف جماعتوں کو احتجاج کا زبر دست موقع دے دیا ہے۔
نیٹ کے رزلٹ میں کو ئی بڑا کھیل ہوا ہے۔اس حکومت میں اعلیٰ تعلیم کی حالت خراب ہے۔کوئی بھی بڑا امتحان اور اس کا رزلٹ شک و شبہات کے گھیرے میں ہوتا ہے۔ لاکھوں کروڑوں طلبا و طالبات اس سے مایوسی کا شکار ہوجاتے ہیں۔غربت میں ان پر بھاری فیس کی دوہری مار پڑتی ہے۔غریب طالب علم بے چارے جیسے تیسے فارم بھرتے ہیں اور امتحان کے پرچے لیک ہو جاتے ہیں۔ رزلٹ سوچنے پر مجبور کرتے ہیں۔میڈیکل جیسے امتحان میں صد فی صد نمبر کیسے آسکتے ہیں ؟ ٹاپر ایک ہوگا یا کئی صد بچے ٹاپر ہوں گے؟ ملک میں موجود بہت سے کوچنگ اسکول کے کئی بچے ٹاپر کی لسٹ میں موجود ہیں۔سوچئے ملک کے طول و عرض میں میڈیکل کی تیاری کرانے والے کتنے کو چنگ اسکول ہیں۔ سب کے تو نہیں کچھ ٹاپ کے کوچنگ اسکولز کے رزلٹ پر ایک نظر ڈالیں۔
سب سے پہلے ایلن (Allen) کا رزلٹ دیکھیں۔ ایلن پورے ہندوستان میں صف اول کی میڈیکل کوچنگ میں آتا ہے۔اس کے تعلق سے مشہور ہے کہ ہر سال اس کا رزلٹ سب سے اچھا ہو تا ہے۔اس کے آن لائن اور آف لائن کوچنگ اسکولز ہیں۔اس سال اس کے رزلٹ کو دیکھیں۔ ایلن کے26 بچے 720 میں سے 720نمبر لاکر ٹاپر ہو ئے ہیں۔ٹاپ100میں سے 40 ایلن کے بچے ہیں۔ 738 بچوں نے 700 سے اوپر نمبر حاصل کیے ہیں۔ اس کوچنگ اسکول کے مختلف سینٹرز کے تقریباً ایک لاکھ38 ہزار416 بچے نیٹ میں کامیاب ہو ئے ہیں۔ایلن ایک بڑا نام ہے،جس کی دھوم پورے ملک میں ہے۔
آکاش میڈیکل فاؤنڈیشن ملک میں دوسرے نمبر پر ہے۔ آپ کو یقین نہیں آئے گا کہ آکاش کوچنگ کے صرف اتر پر دیش میں34 مراکز ہیں۔میڈیکل کی تیاری کے لیے آکاش ایک نام اور برانڈ ہے۔پورے ملک میں اس کا سکّہ چلتا ہے۔ہر سال اس کے لاکھوں بچے میڈیکل میں کامیاب ہوتے ہیں۔اس سال کا رزلٹ دیکھیں۔اس سال 21 بچوں نے 720 میں 720 نمبر لاکر ٹاپ کیا ہے۔ 100 میں سے 96 بچے اس کے کامیاب ہوئے ہیں۔اس سال اس کے ایک لاکھ 15 ہزار272 بچوں نے نیٹ میںکامیابی حاصل کی ہے۔اس کے آن لائن اور آف لائن کوچنگ اسکولز ہیں۔
نارائنا ایجوکیشنل انسٹی ٹیوشن بھی ایک بڑا میڈیکل کوچنگ سینٹر ہے۔اس کی ملک بھر میں شاخیں ہیں۔ اترپردیش میں 15،پنجاب میں 7،دہلی میں 17 کے علاوہ جمشید پور،دھنباد،رانچی،دہرہ دون میں بھی اس کے مراکز ہیں۔ہر سال بہتر رزلٹ آتا ہے۔اس سال اس کوچنگ کے 9 بچے 720 میں سے صد فیصد نمبر لاکر ٹاپر کی فہرست میں آئے ہیں۔37بچوں کے710 اور اس سے زیادہ نمبر آئے ہیں۔
گرو کرپاکریئر انسٹی ٹیوٹ بھی ہندوستان کی سطح پر ایک میڈیکل کوچنگ ہے۔جسے اس شعبہ میں کام کرتے ہوئے 18 سال ہو گئے ہیں۔اس کا رزلٹ بھی ہر سال اچھا رہتا ہے۔اس سال کے اس کے ریزلٹ کو دیکھتے ہیں۔اس کے 3 بچوں نے 720 میں سے 720 نمبر لاکر ٹاپ کیا ہے۔ 116سے زائد بچے 700 سے زیادہ نمبر لائے ہیں۔اس کوچنگ کے 2100طلبا نے نیٹ کے امتحان میں کامیابی حاصل کی ہے۔اس کا دعویٰ ہے کہ یہ صرف کلاس روم کے رزلٹ ہی سامنے لاتا ہے۔
یہ تو ملک کے کچھ کوچنگ اسکول کے رزلٹ ہیں،جو آپ کو حیرت میں ڈالنے کے لیے کا فی ہیں۔یہاں تک سننے میں آیا ہے کہ نیٹ کے اس رزلٹ میں ایک طالب علم کے721نمبر آئے ہیں۔اب آپ سوچیں کل نمبر تو 720 ہیں،721 کیسے آسکتے ہیں؟یہ سب کیا ہے؟کہیں نہ کہیں دال میں کالا ہے ؟ایک بہت بڑا گیم ہوا ہے جس میں سرکار کے اعلیٰ افسران اور وزراء تک شامل ہیں۔ابھی تک تو امتحانات کے پیپر ہی لیک ہوتے تھے،اب ایک نیا کھیل شروع ہو گیا ہے۔اب رزلٹ میں بھی گھپلہ ہو نے لگا ہے، جو بچے کامیاب ہوئے ہیں اور جنہوں نے ٹاپ کیا ہے،ان کا قصور کیا ہے؟اب اگر اس کی جانچ ہوتی ہے اور قصور وار پکڑے جاتے ہیں،دوبارہ ریزلٹ تیار ہوتا ہے یا امتحان دوبارہ ہوتا ہے تو پھر کیا ہو گا؟کیا غریب بچے اس کے متحمل ہو سکتے ہیں؟
حزب ِمخالف کے کئی رہنماؤں نے اس بار کے نیٹ امتحان کے رزلٹ کی جانچ کرنے کا پرزور مطالبہ کیا ہے۔ کانگریس کے قومی صدر ملکارجن کھرگے نے سپریم کورٹ سے اپنی نگرانی میںجانچ کرانے کا مطالبہ کیا ہے۔انہوں نے وزیراعظم کو اس کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے مزید کہا کہ بچوں کے انٹرنس میں حصہ لینے،بہت سی غیر قانونی باتوں میں الجھنے اورپیپر لیک معاملات سے جوجھنے سے نوجوانوں کے مستقبل پر منفی اثر پڑ رہا ہے۔کانگریس کی جنرل سکر یٹری پرینکا گاندھی نے اس معاملے پر کہا کہ پہلے تو پیپر لیک ہوتا تھا،اب رزلٹ میں بھی گڑبڑی ہو رہی ہے۔انہوں نے ایک کوچنگ کے 6 بچوں میں سے سب کے 720 نمبر آنے پر بھی سوال اٹھا یا ہے۔راجستھان کے سابق وزیراعلیٰ گہلوت نے اس پورے معاملے میں زیادہ نمبرآنے پر زور دیتے ہو ئے کہا ہے کہ اس کی جانچ ہو نی چاہیے۔نوجوانوں کے مستقبل سے کھلواڑ نہیں ہو نا چاہیے۔
نیٹ یوجی کا امتحان دینے والے طالب علم شیوانگی مشرا نے سپریم کورٹ میں درخواست دی ہے۔ درخواست میں اس نے الزام لگایا ہے کہ نیٹ یو جی امتحان کا پیپر لیک ہوا،بہت سی بے ضابطگی ہوئی،جس کا واضح اثر رزلٹ میں دیکھنے میں آیا۔ایک ہی کوچنگ کے 8کے 8بچے ٹاپ کرگئے۔اس کی جانچ ہو نی چاہیے اور امتحان دوبارہ منعقد ہو۔جانچ کے بعدامتحان دوبارہ منعقد ہو یا رزلٹ دوبارہ آئے، اس سے بہت سارے بچوں کو انصاف ملے گا۔اس امتحان میں اس بار پورے ہندوستان سے 24لاکھ بچوں نے شرکت کی ہے۔آپ کو تو علم ہوگا کہ میڈیکل کی تیاری میں مصروف بچے جب کئی سال تک کامیاب نہیں ہوتے ہیں تو وہ خود کشی کر لیتے ہیں۔خود کشی کرنے والے بچوں کی تعداد میں ہر سال اضافہ ہو رہا ہے اور سر کار سو رہی ہے۔
سرکار نے اعلیٰ تعلیم کے ساتھ مذاق رواں رکھا ہے۔ نجانے کتنے اہم امتحانات کے پیپرز لیک ہوچکے ہیں۔ان میں کئی امتحانات کی ابھی تک دوبارہ انعقاد کی تاریخ تک نہیں آئی ہے۔یہ نوجوانوں کے مستقبل کے ساتھ خطر نا ک کھلواڑ ہے۔ہونا تو یہ چاہیے کہ دوبارہ امتحان کی فیس سرکار ادا کرے اور دور دراز کے طلبا کو مفت سفر کی سہو لت مہیا کرائی جائے۔یہ بھی یقین دلایا جائے کہ اب دوبارہ ایسا نہیں ہوگا۔اس گھنائونے کام میں ملوث افراد کو سخت سے سخت سزا دی جائے خواہ وہ کوئی بھی ہو ؟ کوئی وزیر ہو یا کسی اعلیٰ افسر کا رشتہ دار یا کسی کی بڑی سفارش ہو،سب مجرم اور صرف مجرم ہوں گے۔تعلیمی نظام کے ساتھ جرم کرنے والوں کے لیے اگر کوئی نیا قانون بنانا پڑے تو بنایا جائے۔
نقل مافیا،پیپر لیک میں شامل افراد، خود کشی کے ذمہ داران اور رزلٹ کو مذاق بنانے والے لوگوں کے گھروں پر عدالت کے حکم کے بعد بلڈوزر چلنا چاہیے۔ ان سے تمام بنیادی سہولیات جیسے بینک کے کھاتے،راشن کارڈ،آدھار کارڈ،ووٹ دینے کا حق وغیرہ۔چوراہوں پر ان کی بڑی بڑی تصویریں آویزاں ہونی چاہئیں۔غرض ان لو گوں کا سماجی بائیکاٹ ہو نا چاہیے تاکہ کوئی بھی کبھی ایسے گھنائونے کام کی جر أت نہ کرے۔
[email protected]