ڈاکٹر محمد اقتدار حسین فاروقی
عالمی سطح کے درجہ حرارت میں حالیہ (مئی۔ جون ( 2024 کاغیر معمولی اضافہ، 1991-2020 کے اوسط سے( 60.0 )ڈگری زیادہ گرم اور 1850-1900 سے پہلے کی صنعتی دور کے مقابلے میں(1.48) ڈگری زیادہ گرمہوا ہے، قدرت کی جانب سے ایک وارننگ ہے کہ: ’’درخت کاٹنا بند کرو اور پودے لگانا شروع کرو۔‘‘
ایک اہم پیغمبرانا قول سے ’’ درخت لگانا انسان کے لئے صدقہ ہے‘‘ بنی نوع انسان کو درخت (جنگل) کی قدر کو سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے۔جنگلات انسانی صحت اور معاش کے لیے ناگزیر ہیں۔ وہ ہمارے ارد گرد کی ہوا کو صاف کرتے ہیں اور موسمیاتی تبدیلی کے مضر اثرات کو کم کرنے میں مدد کرتے ہیں۔ کاربن ڈائی آکسائیڈ دیگر گرین ہائوس گیسوں کے ساتھ زمین کا احاطہ کرتے ہیں جو گلوبل وارمنگ اور موسمیاتی تبدیلیوں کا باعث بنتی ہے۔ دنیا اب تیزی سے گرم ہو رہی ہے۔
Greenhouse Gas کے بڑھتے ہوئے خطرہ کا مقابلہ ، زیادہ سے زیادہ جنگلات لگا کر ہی کیا جاسکتا ہے ۔اس وقت عالمی جنگلات کا احاطہ دنیا کی زمین کا تقریباً 31 فیصد ہے، یعنی صرف 4 بلین ہیکٹرہے جو صنعتی دور سے پہلے 5.9 بلین ہیکٹرہوا کر تا تھا۔،یہ نقصان (جنگلات کی کٹائی) 1.9بلین ہیکٹرہے یہ اس کرہ عرض کا بہت بڑا نقصان ہے۔
کوئلہ اور تیل جیسے Fossilایندھن کو جلانے سے ہماری فضا میں زیادہ کاربن ڈائی آکسائیڈ داخل ہوتی ہے۔NASAنے ہماری فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ اور کچھ دیگر گرین ہائوس گیسوں کی مقدار میں اضافہ دیکھا ہے۔ زیادہ گرین ہائوس گیسیں زمین کے گرم ماحول کو بڑھانے کا سبب بن سکتی ہیں۔ اس کی وجہ سے زمین گرم ہو تی جا رہی ہے۔
دنیا کے% 50سے زیادہ جنگلات دنیا کے صرف پانچ ممالک میں پائے جاتے ہیں، یعنی روس (20.1%)، برازیل (12.2%)، کناڈا (8.6%)، امریکہ (7.6%) اور چین (7%.6)۔ جنگلات،انسانی زندگی میںکتنے اہم ہیںاس کااندازہ اس بات سے لگایاجاسکتاہے کہ پچھلی ایک صدی کے دوران جن علاقوں میں نباتات کی طرف سے بے تعلقی برتی گئی اور جنگلات کا صفایا کردیا گیا وہاں کاماحول (Eco – System) کچھ ایسا بدلا کہ سیلاب، آندھی وطوفان، خشک سالی وقحط جیسی آفتوں کا سامنا عوام کو کرنا پڑا۔ معصوم اورنیک انسانوں نے ان حادثات کوناگہانی وآسمانی آفات سے تعبیر کر کے قہر خداوندی سمجھا ،لیکن سچائی تو صرف اتنی ہے کہ یہ سارے حادثات ارضی انسان کی اپنی ہی کوتاہیوں کانتیجہ ہیں اور اس کی خود کی پیدا کردہ ہیں۔ کیا یہ بات قابل غور وفکر نہیں ہے کہ اگر ہمارے گردو پیش سے ہریالی ختم ہوجاتی ہے اور جنگلات باقی نہیں رہتے تو ہم خود کیوں کر کیسے زندہ رہ سکتے ہیں۔
قدرت نے انسان کوزمین پر لانے سے قبل ضروری سمجھا کہ اس کے لئے پھل اورپودوں کی جنت پہلے سے بنا دی جائے اوروہ اپنی ساری ضرورتیں اسی ماحول سے پوری کرسکے اور ہوا بھی کچھ ایسا ہی۔ حضرت انسان نے ان پودوں کے جنگلات سے اپنی زندگی کو سنوارا، بنایا اور ترقی کی بڑی منزلیں طے کیں۔ ان نباتات میں اسے سب کچھ میسر ہوا۔ غذا، لباس، مسکن، دوا، غرضیکہ حسب ضرورت ہر شئے۔ لیکن آہستہ آہستہ انسان پودوںکے احسانات کو بھولتا گیا اوران شاخوں کو کاٹنے لگا جن پر اس کے آشیانے تھے۔ صنعتی ترقی کے نشہ میں وہ بھول گیا کہ جن جنگلات کو وہ اپنی بے جا ضرورتوں اور ہوس کے لئے اندھا دھند ختم کئے جا رہا ہے وہ نہ صرف اس کی تباہی وبربادی کا ہی باعث بنیں گے بلکہ انسانی وجود ہی خطرہ میں پڑ جائے گا۔
اس سے پہلے کہ اس سرزمین پر جنگلات بتدریج ختم ہونے کی کہانی دہرائی جائے بہتر ہوگا کہ جنگلات کی اہمیت کے سائنسی پہلوئوں پر ایک نظر ڈالی جائے۔ آج کی متمدن دنیا کا باشعور شہری بخوبی واقف ہے کہ جنگلات کی افادیت کے پہلو ایک سے زیادہ ہیں۔ جنگلات علاقہ کی Ecology یعنی قدرتی ماحول کو برقرار رکھنے میں اہم کردار اداکرتے ہیں۔ ایک جانب زمین کا پانی پودوں کی جڑوں کے ذریعہ تنوں اور پتیوںسے ہوتا ہوا فضا میں پھیل کر بادل بنانے میں مدد دیتا ہے اور دوسری طرف انہی پودوں کے جنگلات کے بادلوں کو گرجنے اوربرسنے کی دعوت دیتے ہیں گویا کہ پانی کا زمین وآسمان کے درمیان ایک Cycle کا بن جانا جنگلات کی مدد سے ہوتا ہے اورجب یہ چکر برقرار رہتا ہے تونہ ہی خشک سالی کی آفت آتی ہے اور نہ ہی سیلاب اپنا غضب ڈھانے میں کامیاب ہوتا ہے۔ اور زمینSoil Erosionسے بھی محفوظ رہتی ہے۔
فضا میں خواہ گرد وغبار ہو یا نقصان دہ جراثیم ہوں۔ یامضرت رساں گیس اورکیمیاوی اجزاء۔ یا تیز وتند ہوائیں ہوں یا پھر کان پھاڑنے والی آوازیں ان سب کو جذب کرکے ان کے اثرات کوختم کرنے کاکام بہت کچھ جنگلات ہی کرتے ہیں۔ گویا کہ فضا کی مختلف اقسام کی آلودگی کے لئے جنگلات ایک بہت بڑے Sink کا کام کرتے ہیں۔کہا جاتاہے کہ ایک ہکٹیر جنگلا ت تین میٹرک ٹن آلودہ (Polluted) ہوا اپنے میں جذب کرتے ہیںاور اس کے بدلے 2ٹن آکسیجن پیدا کرتے ہیں۔ اس طرح سائنس دانوں کا خیال ہے کہ ایک پیپل کادرخت اپنے وجودکے دوران 2252کلو گرام آلودہ ہوا صاف کرتا اور تقریباً 1713کلو گرام آکسیجن پیدا کرتا ہے جو ساٹھ ہزار انسانوں کے لئے کافی ہے۔
یہ تو رہے جنگلات کے فوائد جنہیں گویا ہم اپنی نظروں سے دیکھ نہیں پاتے ہیں بلکہ صرف عقل وفہم سے اورتحقیق کرکے سمجھ لیتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ تو سبھی جانتے ہیں کہ جنگلات جانوروں اور پرندوں کی رہائش گاہیں ہیںجو ہماری Ecologyکا اہم حصہ ہیں۔ ایندھن اور عمارتی لکڑی تو جنگلات سے حاصل ہی ہوتی ہیں اس کے علاوہ گوند، ریزن، جڑی بوٹیاں Fibre اور Tannin کے بھی جنگلات ہی اہم ذریعہ ہیں۔
انسان نے پچھلی ایک صدی میں جنگلات کی اہمیت کو بھلا کر اس کوبرباد کرنا چاہا ہے جس کے نقصانات اب ظاہر ہونے لگے ہیں اورشدت سے محسوس کیا جارہا ہے کہ اگر جنگلات کی مزید بربادی کو نہ روکا گیا تو ساری انسانیت خطرہ کے دائرے میں آجائے گی۔ ضروری ہے کہ عوام کو جنگلات کی اہمیت کااندازہ ہو۔ لوگ بغیر شدید ضرورت پودوں کوکاٹنے سے پرہیز کریں۔ عمارتوں اورایندھن میںکم سے کم لکڑی استعمال کی جائے۔جنگلات کی کٹائی آب و ہوا کی تبدیلی ، گلوبل وارمنگ اور گرین ہائوس گیسوں کے اخراج کو منفی طور پر متاثر کرتی ہے۔ ایک ہی وقت میں ، سیلاب جنگلی حیات کی تباہی ، انسانی معیار زندگی کو کم کرنے ، سمندروں کی تیزابیت اور حیاتیاتی تنوع کے بتدریج نقصان کا باعث ہے۔
جنگلات کی کمی اوران سے پیدا ہونے والے مسائل کا سامنا حکومت اسی وقت کر سکتی ہے جب عوام بھرپور تعاون دیں۔ یہ بات قابلِ ستائش ہے کہ ہندوستان کی مختلف ریاستوں میںحالیہ Social Forestry پروگرام کے تحت بڑے پیمانے پر درخت لگائے جارہے ہیں جن میں عوام بھی تعاون دے رہے ہیں۔حکومت ہند کی جنگلاتی پالیسی کے اعلان 1952 کے مطابق، ہندوستان میں جنگلات کے احاطہ کے لیے 33 فیصد کا ہدف مقرر کیا گیا تھا۔ اس وقت ہندوستان کے جنگلات کا احاطہ مشکل سے 18 سے 20 فیصد تھا۔ انڈین اسٹیٹ آف فاریسٹ رپورٹ، 2021 کے مطابق، ہندوستان کا موجودہ جنگلات کا رقبہ ملک کے کل رقبہ کا (24.6)فیصد ہے جو کہ دنیا کے دس سب سے زیادہ بڑے جنگلات میں سے ایک ہے اور ہمارا ملک 9 ویں نمبر پر ہے۔ یہ ایک بڑی کامیابی ہے۔ امید ہے کہ عوام کے اشتراک سے 33 فیصدہدف جلد ہی حاصل کر لیا جا ئے گا ۔ واضح رہے کہ فی زمانہ مدھیہ پردیش ملک میں سب سے زیادہ جنگلات کا احاطہ کرتا ہے اس کے بعد اروناچل پردیش، چھتیس گڑھ، اڈیشہ اور مہاراشٹر کا نمبر آتا ہے۔
آج ہمیں جن تین چیزوں کی اشد ضرورت ہے اوروہ ہے صاف پانی۔ صاف ہوا اور زرخیز زمین۔ یہ تینوں چیزیں ہمیں اسی وقت میسر ہوسکتی ہیں جب جنگلات کے کاٹنے کا کام تقریباً بند ہی کیاجائے اور نئے جنگلات لگائے جائیں جس میں ہر قسم کے درخت ہوں خاص طور سے وہ درخت جو فضائی آلودگی کوبہتر طریقے سے ختم کرتے ہیں جیسے پیپل، نیم، املی، ببول، مہوہ، پلاس، جھائو، برگد، اشوک اور آملا وغیرہ وغیرہ۔
انسانیت کے لئے یوں تو نیو کلیائی خطرہ اس کی مکمل بربادی لا سکتا ہے لیکن جنگلات کا خاتمہ بھی اس کے لئے کچھ کم خطرناک نہیں ہے۔
گویا کہ جنگلات کی بحالی اور فروغ
حیات انسانی کے لئے نہایت ضروری ہے
تسلی بخش جنگلات کے سلسلہ میں ایشیائی ممالک کا حال درج ذیل ہے: ماخذ: FAOبرونائی: جنگلات کل اراضی کے% 81پر محیط ہیں؛بھوٹان: ;71.1% جاپان:66.2%؛جنوبی کوریا 64.%؛ نیپال:نیپال نے کمیونٹی فاریسٹ پروگرام کی بدولت اپنے جنگلات کو 26 فیصد سے 45 فیصد تک دوبارہ بنانے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ملائیشیا: 56.4%۔ انڈونیشیا: 52.1% ؛ (جنگلات کےareaکے اعتبار سے آٹھویں نمبر پر ہے)میانمار: FRA -2020 کے مطابق دنیا کا ساتواں سب سے زیادہ جنگلات کی کٹائی والا ملک بنا اور یہاں جنگلات کا رقبہ 1990 میں ملک کے57.3%فیصد تھا جواب سے کم ہو کر 2020 میں42.9%فیصد رہ گیا ہے