کسر کہاں رہ گئی: یوگیش کمار گویل

0

یوگیش کمار گویل

اٹھارہویں لوک سبھا کے لیے ہوئے انتخابات کے جو نتائج سامنے آئے ہیں، وہ بے حد حیران کن ہیں۔ نہ تو بی جے پی خود کے 370اور نہ ہی این ڈی اے کے 400پار کے مشن کو پورا کرنے میں کامیاب ہوپائی۔ حالاں کہ انتخابی نتائج کے اعلان کے دو دن قبل ہی جاری ہوئے تمام ایگزٹ پولس نے این ڈی اے کے 400پار ہونے کے امکانات کا اظہار کیا تھا لیکن ہوا اس کے برعکس یعنی این ڈی اے 300کے اعداد و شمار بھی نہیں چھوپایا جبکہ اپوزیشن اتحاد انڈیاغیرمتوقع طور پر 230سے بھی زیادہ سیٹیں حاصل کرتے ہوئے مضبوط اپوزیشن بننے میں کامیاب ہوا ہے۔
بی جے پی جہاں 240سیٹوں پر اور این ڈی اے 291سیٹوں پر سمٹ گیا، وہیں یہ بھی مکمل طور پر واضح ہوگیا ہے کہ اس بار وزیراعظم نریندر مودی کا جادو 2014 اور 2019کے طرح نہیں چل سکا۔ حالاں کہ بی جے پی ایک بار پھر ملک کی سب سے بڑی پارٹی بنی ہے لیکن اپنے بل بوتے اکثریت کے جادوئی اعدادوشمار کو چھونے سے کافی پیچھے رہ گئی۔ اس کے لیے تشویش کی بات یہ ہے کہ 7ریاستوں تمل ناڈو، پنجاب، سکم، منی پور، میگھالیہ، میزورم و ناگالینڈ اور 4مرکز کے زیرانتظام ریاستوںپڈوچیری، چنڈی گڑھ، لداخ اور لکشدیپ میں کھاتہ کھولنے میں بھی ناکام رہی۔ مودی کی قیادت میں مرکز میں ان کی مسلسل تیسری مدت کار میں یہ پہلی بار ہے، جب انہیں مستقل حکومت چلانے کے لیے حلیف پارٹیوں پر انحصار کرنا پڑے گا یعنی 10برسوں بعد پھر سے اتحاد کی اہمیت کا دور لوٹ آیا ہے۔ جے ڈی(یو) اور ٹی ڈی پی اس بار کنگ میکر کے کردار میں اُبھرے ہیں۔

حالاں کہ ہماچل، دہلی، اتراکھنڈ اور مدھیہ پردیش میں بی جے پی نے کلین سوئپ کیا ہے اور گجرات میں بھی ایک سیٹ چھوڑ کر باقی سبھی نشستیں اس کی جھولی میں گئی ہیں، لیکن اترپردیش اور مغربی بنگال میں پارٹی کو جتنا بڑا جھٹکا لگا ہے، اس کا اندازہ ممکنہ طور پر پارٹی کی اعلیٰ قیادت کو بھی نہیں تھا۔ ہریانہ، راجستھان، پنجاب اور مہاراشٹر میں بھی بی جے پی کو نقصان ہوا ہے۔ حالاں کہ کرناٹک میں این ڈی اے کی کارکردگی شاندار رہی اور ٹی ڈی پی کے ساتھ مل کر آندھراپردیش میں بھی اس نے جیت کا پرچم لہرایا، کیرالہ کی بھی ایک سیٹ جیتنے میں بی جے پی کامیاب رہی لیکن مغربی ہندوستان میں بی جے پی کا ویسا جادو نہیں چلا، جیسی پارٹی کو توقع تھی۔

دوسری جانب کانگریس نے جس طرح کا زبردست مظاہرہ کرتے ہوئے 99سیٹیں جیتیں، اس سے کانگریس کو یقینی طور پر سنجیونی ملی ہے۔ کانگریس 2014میں صرف 44 اور 2019 میں 52سیٹیں ہی جیت سکی تھی۔ اس کم ہوتے گراف کا ٹھیکرا راہل گاندھی پر پھوڑنے کی کوششیں ہوئی تھیں لیکن2024کے الیکشن میں 99سیٹیں جیتنے کے بعد اتحاد میں راہل کی مقبولیت میں اضافہ کے ساتھ ہی یقینی طور پر کانگریس کارکنان کے حوصلہ کو بھی تقویت حاصل ہوگی۔ 1984میں کانگریس کو تقریباً 12.01کروڑ ووٹ حاصل ہوئے تھے، اس کے بعد اس بار اسے اب تک کے سب سے زیادہ 13.6کروڑ سے بھی زائد ووٹ حاصل ہوئے ہیں اور کانگریس میدان میں مضبوطی سے کھڑی ہونے میں کامیاب ہوپائی ہے۔ حالاں کہ یہ بات علیحد ہے کہ الیکشن کمیشن کے اعدادو شمار کے مطابق بی جے پی کو 23.45کروڑ سے بھی زیادہ ووٹ ملے ہیں اور کانگریس ابھی بھی اس کے مقابلہ کہیں نہیں کھڑی ہے۔ کانگریس کے ساتھ اتحاد کرکے اترپردیش میں اکھلیش یادو کی قیادت میں سماجوادی پارٹی نے کرشمائی جیت درج کی ہے۔
دراصل 2019کے الیکشن میں سماجوادی پارٹی نے بہوجن سماج پارٹی کے ساتھ اتحاد کیا تھا اور بہوجن سماج پارٹی کو 10لیکن سماجوادی پارٹی کو 5سیٹیں ہی مل سکی تھیں۔ لوک سبھا الیکشن میں ووٹ شیئر کے لحاظ سے ایس پی کی بہترین کارکردگی 1998میں تھی، جب اسے تقریباً29فیصد ووٹ ملے تھے جب کہ سیٹوں کے مدنظر سے اس کا بہترین مظاہرہ 2004میں تھا، جب اسے 35سیٹوں پر جیت حاصل ہوئی تھی لیکن 2024کے الیکشن میں ایس پی 37سیٹیں جیتنے میں کامیاب رہی۔ جہاں تک مکمل اعتماد کے ساتھ 400پار کا نعرہ دینے والے این ڈی اے کی ہار کی اہم وجوہات کی بات ہے تو سب سے حیران کن بات تو یہی ہے کہ رام مندر جیسا عقیدت اور سناتن سے منسلک بڑا ایشو بھی بی جے پی کے زیادہ کام نہیں آیا۔ ماہ جنوری میں ہی ایودھیا میں وزیراعظم مودی نے رام مندر میں پران پرتشٹھا کی تھی اور الیکشن میں اس ایشو کو کیش کرانے کے لیے بی جے پی نے ہرممکن کوششیں بھی کی تھیں لیکن اپوزیشن کے بے روزگاری، مہنگائی اور فوج میں بھرتی کی اگنی پتھ اسکیم جیسے ایشوز اس پر کہیں زیادہ حاوی رہے۔ مہنگائی کا ایشو بھی الیکشن کے ساتوں مراحل کے دوران چھایا رہا۔ حالاں کہ سرکاری اعدادو شمار کے مطابق 2014سے 2024تک کے این ڈی اے حکومت کی ایک دہائی مدت کار میں مہنگائی بڑھنے کے بجائے کم ہوئی ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق 2013میں مہنگائی کی شرح 10.02فیصد تھی، جو 2023میں کم ہوکر صرف 5.69فیصد رہ گئی تھی لیکن یہ بات تھی صرف سرکاری اعداد و شمار کی جبکہ عام آدمی کی روزمرہ زندگی سے وابستہ ضرورتوں کے سامان کی قیمتیں گزشتہ پانچ برسوں میں 30فیصد سے بھی زیادہ بڑھیں، جس سے کھانے کی تھالی مہنگی ہوتی جارہی ہے اور مہنگائی کا راست اثر لوگوں کی زندگی گزارنے پر پڑرہا ہے۔ اس وجہ سے بھی متوسط طبقہ حکومت سے ناراض تھا۔

کسانوں کو ہندی پٹّی کا کور ووٹر مانا جاتا ہے اور پنجاب، ہریانہ، اترپردیش جیسی زرعی ریاستوں میں کسانوں کی مسلسل ناراضگی بھی بی جے پی پر بھاری پڑی۔ اس کا اثر راجستھان، مہاراشٹر اور بہار تک میں بھی پڑا۔ بی جے پی نے 2014سے ابھی تک تینوں لوک سبھا انتخابات نریندر مودی کے چہرے پر ہی لڑے ہیں۔ پہلی بار 2014کے الیکشن میں پارٹی اپنے بل بوتے 282سیٹیں جیت کر اپنی مکمل اکثریت کی حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی تھی۔ 2019میں بھی مودی کے ہی چہرے پر پارٹی نے ریکارڈ 303سیٹیوں پر جیت درج کی تھی لیکن اس بار کے الیکشن میں وہ 240سیٹوں پر سمٹ گئی یعنی 2014کے مقابلہ 42سیٹیں اور 2019کے مقابلہ 63سیٹیں کم۔ 2014کے لوک سبھا الیکشن میں نریندر مودی نے 371784ووٹوں کے بڑے فرق سے ’آپ‘ کے اروندکجریوال کو شکست دی تھی، وہیں 2019کے الیکشن میں انہوں نے 479505ووٹوں کے زبردست فرق سے ایس پی کی شالنی یادو کو ہرایا تھا۔ حالاں کہ اس بار بھی وارانسی سے انہوں نے کانگریس کے اجے رائے کو شکست دی ہے لیکن ان کی جیت کا فرق کم ہوکر 152513ہی رہ گیا ہے۔

ایسے میں حیران کن اس رائے عامہ نے واضح پیغام دیا ہے کہ اب بی جے پی کا کام مودی کے چہرے کے بھروسے رہنے سے نہیں چلنے والا، بلکہ پارٹی اور اتحاد کے منتخب ممبران پارلیمنٹ کو مستقبل میں ریکارڈ جیت کے لیے اپنے اپنے علاقوں میں کام بھی بہتر کرنا ہوگا۔
rvr

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS