تلنگانہ ٹیلی فون ٹیپنگ

0

ناقدین اور مخالفین کی مشکیں کسنا حکمرانوں کا محبوب مشغلہ رہاہے ۔ مطلق العنان حکمران اس کے ذریعہ اپنی حکمرانی اور اقتدار کی عمر میں اضافہ کرتے ہیں ۔آمرانہ نظام حکومت میںیہ عمل معیوب نہیں سمجھا جاتا ہے لیکن جمہوریت میں اگر کوئی حکمراں جواب دہی کے تصور سے بالاتر ہوکر اپنے مخالفین کو ٹھکانے لگانے اور انہیں منظر سے غائب کرنے کے حربے استعمال کرنے لگے تو پھر یہ عمل نہ صرف قابل گرفت ہوجاتا ہے بلکہ جرم ثابت ہونے کے بعد سزابھی مقدر ہونی چاہیے ۔ کیوں کہ جمہوری نظام حکومت میںآئین نے حکمرانوں کو اختیار دینے کے ساتھ ساتھ شہریوں کے حقوق بھی مقرر کیے ہیں جن میں آزادیٔ اظہار رائے اور رازداری کو بنیادی حق کا درجہ حاصل ہے۔ اگر کوئی حکمراں اپنے سیاسی مقصد کے تحت شہریوں کی اظہار رائے کی آزادی کو کچلتا ہے،ا ن کی رازداری کو پامال کرتا ہے تو وہ آئین شکنی کے ساتھ ساتھ اپنے حلف سے بھی غداری کا مرتکب ہوتا ہے۔ مہذب اقوام اور ملکوں میں اس آئین شکنی کا کوئی تصور نہیں ہے لیکن ہندوستان میں شہریوں کے حقوق چھیننے کی روایت میں اضافہ دیکھاجارہاہے ۔ حکمراں اپنے وقتی سیاسی مفاد کیلئے شہریوں کی رازدار ی پر ڈاکہ ڈال کر ان کے ٹیلی فون ٹیپ کرتے ہیں اور حاصل ہونے والے موا د کو بلیک میلنگ کیلئے استعمال کرتے ہیں ۔اس کام کیلئے وہ ریاستی انتظامیہ کو اپنا آلہ کار بناتے ہیں،کہیں پولیس کو لوگوں کی جاسوسی اور ان کے ٹیلی فون ٹیپ کرنے کے کام پر لگایا جاتا ہے تو کہیںیہ کام سی آئی ڈی اور دوسری صوبائی ایجنسیوں سے لیا جاتا ہے ۔مرکز کی سطح پر اس کار بد کیلئے باقاعدہ اسرائیل سے جاسوسی آلہ پیگاسس کی خرید اورا ستعمال کا معاملہ سامنے آیا تھا ۔
تازہ انکشاف ہوا ہے کہ تلنگانہ کی سابقہ بی آر ایس حکومت نے اس کام کیلئے کسی نجی ادارہ کو مامور کرنے کے بجائے ریاستی پولیس اور سی آئی ڈی کو آلہ کار کے طور پر استعمال کیا تھا ۔اس وقت کے وزیراعلیٰ چندر شیکھر راؤ کے مخالفین اور ناقدین کی بھاری انٹلیجنس نگرانی کرائی جاتی تھی ۔مخالفین کے ٹیلی فون کال ٹیپ کرکے انہیں بلیک میل بھی کیاجاتا تھا ۔اس وقت میں نگرانی کے کام پر مامور ایک سابق پولیس افسر نے اس طرح کے حقائق کا انکشاف کیا ہے جسے اخلاقی اعتبار سے بھی انتہائی مذموم کہا جاسکتا ہے ۔

یادرہے کہ گزشتہ سال بی جے پی کی جانب سے کے سی آر کے خلاف نگرانی کے الزامات عائد کیے جانے کے بعد موجودہ کانگریس حکومت اس کی جامع تحقیقات کرارہی ہے ۔تحقیقات کے دوران تفتیش کاروں کے سامنے سابق پولیس افسر سابقہ حکومت کے دوران اپنی ڈیوٹی کے دوران اس طرح کی جاسوسی اور نگرانی کے کئی ابواب سامنے لائے ہیں۔

سابق ڈپٹی کمشنر آف پولیس پی رادھا کشن راؤ کے اعترافی بیان کے مطابق اس وقت تلنگانہ کے وزیراعلیٰ کے سی آر اور ان کے وزیر کے ٹی راما راؤ نے اپنی طاقت کے زور پر سیاست دانوں، افسروں کے ساتھ ساتھ صنعت کاروں اور فلمی ستاروں کے فون ٹیپ کیے تھے اور مختلف طریقوں سے ان کی نگرانی کرائی تھی۔ اس نگرانی اور جاسوسی کا ریاست کی داخلی سلامتی سے کوئی تعلق نہیں تھا محض سیاسی بالادستی قائم کرنے اور لوگوں کے کاروباری راز جان کر ان سے پیسے بٹورنے کیلئے ایسا کیا گیا تھا۔ یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ چند فلمی ستاروں کی ذاتی زندگی کے راز اس وقت کے ایک وزیر کے ہاتھ آگئے تھے اور اس نے اس راز کو اس طرح استعمال کیا کہ ایک فلمی جوڑے کی زندگی طلاق کی نذر ہوگئی۔اس کے علاوہ سابق پولیس افسر نے یہ بھی اعتراف کیا ہے کہ کے سی آر بی آر ایس ایم ایل اے کے ہارس ٹریڈنگ کیس کو اپنی بیٹی اورقانون ساز کونسل کی رکن کے کویتا کے خلاف ای ڈی معاملہ ختم کرنے کیلئے بی جے پی کو سمجھوتہ کرنے پر مجبور کرنا چاہتے تھے۔
ان حقائق کے سامنے آنے کے بعد تلنگانہ کی سیاست میں ابال آگیا ہے اور بی جے پی کے ساتھ ساتھ کانگریس کے لیڈران بھی اپنی حکومت سے مطالبہ کرنے لگے ہیں کہ ٹیلی فون ٹیپ کے اس معاملہ میں کے سی آر اور ان کے بیٹے کو گرفتارکرنے کے ساتھ ساتھ ان کی اسمبلی رکنیت بھی منسوخ کی جائے۔ امید تو نہیں ہے کہ یہ مطالبہ فوراً تسلیم کرلیا جائے گا کیوں کہ اس حمام میں کم زیادہ سبھی ننگے ہیں۔قومی سلامتی کے نام پر فون ٹیپ کرنے کیلئے دیے گئے محدود اختیارات کامرکزی اور ریاستی حکومتیں اپنے مخالفین پر شکنجہ کسنے اور بلیک میلنگ کیلئے استعمال کررہی ہیں۔
آئین کے مطابق ذاتی رازداری کاحق حاصل ہونے کے ساتھ ساتھ ایک شہری کو اپنے خاندان، تعلیم، شادی، زچگی اور بچوں وغیرہ کے سلسلے میں بھی رازداری کا حق حاصل ہے اور اس سے بہرحال انکار نہیں کیاجاسکتا ہے کہ اس وقت کی کے سی آر حکومت نے ریاست کی طاقت کاغیر قانونی استعمال کرتے ہوئے شہریوں کے ان کے رازداری کے بنیادی حق سے محروم کرنے کی مذموم حرکت کی ہے،جس کی غیر جانبدارانہ جانچ کے بعد اس کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی بھی کی جانی چاہیے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS