عبدالسلام عاصم
کچھ عرصہ قبل ہندوستان کے دونوں نمایاں فرقوں کے مختلف شعبہ ہائے زندگی کے غیر اشتہاری و غیر کاروباری نمائندوں کی ایک مجلس کا حصہ بننے کا موقع ملا۔ تمام شرکائے بزم علمی، ادبی، صحافتی اور سماجی سروکار رکھنے والے لوگ تھے اور ملک میں بین فرقہ تعلقات کو زندگی کی بقا کے حق میں سازگار دیکھنا چاہتے تھے۔
زائد از دو گھنٹے کی اس میٹنگ میں سب نے اپنی اپنی فکر، تجزیے اور عملی تجاویز پیش کیں۔ ہر چند کہ سب کی سوچ ایک دوسرے سے کم و بیش مختلف تھی۔ لیکن کسی کا خیال کسی کی فکر سے ایسا متصادم نہیں تھا کہ بات ہی نہ ہو پائے۔ البتہ گفتگو میں شامل تقریباً سبھی لوگ بین فرقہ تعلقات کی بہتری کے رخ پر اپنے ایک دوسرے کے خیالات کے تانے بانے کو مضبوط کرنے میں باہمی اشتراک کرتے نظر آئے۔
سبھی اس بات سے متفق تھے کہ کوئی بھی بات نہ تو محض ایک طرف سے بگڑتی ہے اور نہ ہی کسی یکطرفہ کوشش سے بگڑی بات بنائی جاسکتی ہے۔ بہ الفاظ دیگر جو کام راست اور بالواسطہ اشتراک سے بگڑا ہے، اُسے انہی دونوں صورتوں/وسائل سے بنانے کی پرخلوص کوشش کی جانی چاہیے۔
مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ کسی کا شکایتی لہجہ جارحانہ نہیں تھا اور کسی نے علاج کی ایسی کوئی تجویز پیش نہیں کی جو دوسرے کو ایک ایسا نسخہ نظر آئے جسے مریض کی نفسیات کو سمجھے بغیر مرتب کیا گیا ہو۔
صحافت کی دنیا میں میری دہائیوں کی سرگرم زندگی میں شاید یہ پہلا موقع تھا جب میں نے کسی مجلس میں مختلف شعبہ ہائے زندگی کے علمی نمائندوں کو ایک دوسرے کی بات کاٹنے میں وقت ضائع کرتے نہیں دیکھا۔ سبھی ایک دوسرے کے موقف اور خیال کو غیرجانبدارانہ طور پر سنتے ہوئے اپنی تائید یا ترمیم و اضافے کے ساتھ ایک دوسرے سے اشتراک کرتے اور وقت کے بگاڑے ہوئے ٹیڑھے میڑھے راستے سے گزر کر آگے بڑھتے نظر آئے۔
اِس اشتراک کو دونوں فرقوں کے نمائندوں کے درمیان اِس اتفاق رائے سے اور زیادہ تقویت ملی کہ وطن عزیز میں خاص طور پر ہندی/اردو بیلٹ میں بظاہر بر سرپیکار متعلقہ فرقے مشترکہ نقصان سے مشترکہ فائدے کی طرف بڑھ کر ہی اُس تہذیب کو مٹنے سے بچا سکتے ہیں جو ہمارا ساجھا ورثہ ہے۔ یہ تہذیب ایک ایسا سمندر ہے جس میں شامل ہونے والا کوئی بھی دریا اپنی انفرادی شناخت سے محروم نہیں ہوتا بلکہ کثرت میں وحدت کی اجتماعی شناخت کو تقویت بخشتا ہے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو یونان و مصر و روما کی طرح ہماری تہذیب بھی اب تک مٹ چکی ہوتی۔
اِس بزم کی خوش قسمتی سے ایک اور خصوصیت یہ تھی کہ ایک فریق کی طرف سے اُس کی ملت کے تمام واقعاتی خساروں، اندیشوں اور وسوسوں کو سننے کے بعد دوسرے فریق نے کہیں کم، کہیں زیادہ تو کہیں پورا اتفاق کرتے ہوئے جب اپنے فرقے کی طرف سے خساروں، اندیشوں اور وسوسوں کی ترجمانی کی تو پہلے فریق نے بھی کہیں کم، کہیں زیادہ تو کہیں پورا اتفاق کیا۔
بات چیت کے اختتام پر جب میں نے کسی نتیجے پر پہنچنے کی بساط بھر کوشش شروع کی تو اِس نتیجے پر پہنچا کہ اب وقت آگیا ہے کہ وطن عزیز کے دونوں ہی نمایاں فرقے اطلاعات اور افواہوں کا فرق از سر نو سمجھ کر نئی نسل کو اُس سے آگاہ کریں تاکہ سنی سنائی باتوں سے مرتب ہونے والے اثرات کے تباہ کن نتائج سامنے آنے کا سلسلہ رکے۔ ان نتائج پر افسوس ظاہر کرنے والی برسراقتدار اور حزب اختلاف کی جماعتیں اقتدار رخی سیاست کے ذریعہ عوام کی نفسیاتی کمزوری کا فائدہ اٹھاتی ہیں۔ کبھی نفرت کا بازار لگا کر تو کبھی اس بازار میں محبت کی اقتدار رخی دکان کھول کر۔
انتخابات کے دن قریب آتے ہی عوام کے ان مسائل کو، جنہیں حل کرنے کی کبھی ایماندارانہ کوشش نہیں کی گئی، اس طرح سامنے لایا جاتا ہے جیسے حکومت یا اپوزیشن کو انہیں حل کرنے کے علاوہ کسی اور چیز سے کوئی دلچسپی نہیں۔ پھر ان مسائل کو انتخابی فائدے کیلئے فرقہ وارانہ رنگوں میں رنگا جاتا ہے۔ سوشل میڈیا اس رخ پر پینٹروں سے بھری ہوئی ہے۔ ایک ہی واقعہ کو ہزاروں رنگ میں پیش کیا جا سکتا ہے۔
بدقسمتی سے ہم ایک دوسرے کے بارے میں اطلاع کم رکھتے ہیں اور مبنی بر افواہ پیش بندی زیادہ کرتے ہیں۔ اس ملک میں ہم صرف بین مذاہب منقسم نہیں، رنگ، نسل اور ذات سب کو ہم نے انسانوں پر برتری دے رکھی ہے۔ یہ کام کسی نے جہالت پھیلانے کے نام پر نہیں کیا۔ یہ کام بھلائی پھیلانے کے نام پر اُن مجلس بازوں نے کیا ہے جن کی باتوں پر سر دھننے والوں کی عقل کو اندھ بھکتی اور آمنا و صدقنا کے ورد تک محدود کر دیا گیا ہے۔
تو کیا مستقبل قریب میں اس تکلیف دہ منظر نامے کو بدلا جا سکتا ہے!کیا امداد باہمی کی ایسی کوئی صورت نکل سکتی ہے جو ایک بگڑے ہوئے سلسلے کا رخ ایک ایسی تعمیر کی طرف موڑ دے جسے گرانے پر نہیں سنبھالنے پر لوگ فخر محسوس کر سکیں۔ حالات اور واقعات مظہر ہیں کہ اب تک ہم نے جو تعمیرات گرائی ہیں، اُن کی تعمیر میں از خود تخریب کی خرابی مضمر تھی۔
اس سچ کا کامل ادراک بہرحال آج بھی آسان نہیں۔ کہنے کو تو ہم چندریان کے عہد میں داخل ہوگئے ہیں لیکن ہمارے معاشرے میں آج بھی چندا ماما کی الگ الگ نوعیت کی کہانیاں سننے سے زیادہ ان پر یقین کرنے والے موجود ہیں۔ باوجودیکہ نئی نسل بیزاری سے بیداری کی طرف بڑھ رہی ہے جو ایک اچھی علامت ہے۔ اس لحاظ سے ہم رات کے پچھلے پہر سے گزر رہے ہیں۔ یہ وقفہ کتنا طویل یا مختصر ہوگا، اس کا انحصار غیر اشتہاری اور غیر کاروباری علمی، سماجی اور سیاسی رہنماؤں کی مربوط کوششوں پر ہے۔
(مضمون نگار یو این آئی اردو کے سابق ادارتی سربراہ ہیں)
[email protected]