کیا متبادل کی تلاش کا عمل شروع ہوچکا ہے؟: صبیح احمد

0

صبیح احمد

لوک سبھا انتخابات کے درمیان مختلف پارٹیاں اپنی جیت کا دعویٰ کر رہی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی یہ پارٹیاں یہ اعداد و شمار بھی بتا رہی ہیں کہ کس پارٹی کو کتنی سیٹ ملنے جا رہی ہے۔ پارٹیوں کے دعوؤں اور جوابی دعوؤں کے درمیان انتخابی حکمت عملی ساز پرشانت کشور اور سابق سیفولوجسٹ یوگیندر یادو نے بھی اپنے اپنے اعداد و شمار بتائے ہیں اور یہ بھی واضح کیا ہے کہ ان دعوؤں کی بنیاد کیا ہے۔ دونوں ہی انتخابی ماہرین کے اعداد و شمار اس وقت بحث کا موضوع بنے ہوئے ہیں۔
بہرحال یوگیندر یادو اور پرشانت کشور کے دعوے اہم ہیں۔ یوگیندر یادو کی شناخت حکومت مخالف کے طور پر رہی ہے۔ پرشانت کشور بی جے پی، ممتا بنرجی، جگن موہن ریڈی سمیت کئی پارٹیوں کے لیے حکمت عملی ساز کے طور پر کام کر چکے ہیں۔ یوگیندر یادو ہر مرحلہ کے بعد سیٹوں کا جائزہ لے رہے ہیں۔ ان کے جائزہ کے مطابق 5 مرحلوں کے بعد بی جے پی کو 250 کے قریب سیٹیں مل سکتی ہیں۔ دوسری طرف پرشانت کشور کہہ رہے ہیں کہ بی جے پی کو تقریباً 300 سیٹیں مل سکتی ہیں۔ دعوے تو دعوے ہوتے ہیں، ان میں کتنا دم ہوتا ہے، یہ سبھی جانتے ہیں۔ جن سیاسی تجزیہ کاروں کی بات کی جا رہی ہے، وہ مکمل طور پر غیر جانبدار ہیں، یہ بھی نہیں کہا جاسکتا۔ پرشانت کشور یا یوگیندر یادو کے بارے میں اکثر یہ مانا جاتا ہے کہ وہ غیر جانبدار ہوں گے، لیکن ایسا نہیں ہوتا ہے۔ جس کا جونظریہ ہوتا ہے، اسے دنیا اسی طرح نظر آتی ہے۔ ایسے میں ان کے اعداد و شمار پر بھی پوری طرح یقین کرنا مشکل ہے۔ شروعات میں جس طرح اپوزیشن کو مسترد کیا جا رہا تھا، اب وہ صورتحال نظر نہیں آتی۔ کئی ریاستوں میں اپوزیشن میں سیٹوں کی تقسیم کو لے کر اپوزیشن میں کھینچاتانی ضرور نظر آئی، لیکن اس کے باوجود اپوزیشن نے بی جے پی کی مضبوط پوزیشن کو ہلانے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ 6 مرحلوں کی پولنگ کے بعد اپوزیشن نے جس خوداعتمادی کا مظاہرہ کیا ہے، اس سے لگتا ہے کہ معاملہ یکطرفہ ہرگز نہیں ہے۔ جہاں تک 400 پار کے نعرہ کا تعلق ہے، ایسی تعداد تنظیم کی حوصلہ افزائی کے لیے دی جاتی ہے۔ اس کا بھانڈہ اب وزیراعظم مودی خود پھوڑنے لگے ہیں۔

خاص طور پر ہندی بیلٹ یا ہندی ہارٹ لینڈ ہندوستان میں سیاسی طاقت کا ایک مرکزی فیکٹر ہے۔ ملک کا یہ خطہ دیگر چیزوں کے علاوہ سماجی و ثقافتی امور اور اس کے سیاسی رویے میں بنیادی یکسانیت کی وجہ سے کافی اہم ہے۔ تاریخی اعتبار سے ہندی بیلٹ میں ہونے والی تبدیلیاں وقتاً فوقتاً اہم سیاسی تبدیلیوں کا اشارہ دیتی رہی ہیں۔ 1967 میں پوری ہندی بیلٹ نے کانگریس سے اپنی بیزاری درج کی تھی۔ اس نے کانگریس کے پورے نظام کو ہلا کر رکھ دیا تھا، لیکن اس سے بڑھ کریہ کہ اس نے کانگریس کے اندر اور اس کے باہر ایک نئی سیاست کا آغاز کیا۔ 1977 میں ہندی بیلٹ نے اندرا گاندھی کی پارٹی کو جڑ سے ہلانے میں اہم کردار ادا کیا اور سیاسی قوتوں کی نئی صف بندی کے لیے راہ ہموار کی۔ یہ ہندی بیلٹ میں سماجی تبدیلیوں کے لیے جاری خود احتسابی کا دور تھا۔ اعلیٰ/اونچی ذاتوں کے مسلسل غلبہ کے خلاف درمیانی اور پسماندہ ذاتوں کی بے چینی کا اثر سیاسی حالات پر پڑنا لازمی تھا۔ اسی منطق کے تحت 1989 میں ایک بار پھر کانگریس کو اقتدار کے ایوانوں سے باہر کر دیا گیا۔ ان تینوں موقعوں پر ہندی بیلٹ نے کم و بیش یکساں رویے کا مظاہرہ کیا۔ چوتھا موقع 90 کی دہائی کا درمیانی دور تھا، جب یکے بعد دیگرے 3 انتخابات میں بی جے پی نے اس خطہ میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ اس کے بعد ہندی بیلٹ میں ’ہندوتو‘ کی سیاست کو خاطرخواہ جگہ مل گئی۔ یہ صرف خطہ میں کانگریس کی جگہ لینے کا بی جے پی کا معاملہ نہیں تھا، یہ پہلے سے موجود سماجی و ثقافتی حساسیت کا بھی معاملہ تھا جو خود کو مزید شدت پسندانہ بیانیہ کے ساتھ تبدیل کر رہا تھا اور ہندوتو کی سیاست رفتہ رفتہ خطہ پر قبضہ کر رہی تھی۔ 1990 کی دہائی میں بی جے پی کا عروج اور 2014 میں اس کا دوبارہ ابھرنا یہاں پارٹی کی شاندار کارکردگی کا مرہون منت ہے۔ بی جے پی نے 2019 میں ہندی بیلٹ میں 178 سیٹیں جیتی تھیں۔ لیکن یہ تب کی بات ہے جب بی جے پی کے پاس کھونے کے لیے کچھ نہیں تھا، جتنا بھی ہو، اسے پانا ہی تھا۔ لیکن اب پانی کافی بہہ چکا ہے۔ بی جے پی گزشتہ ایک دہائی سے پوری طاقت کے ساتھ ملک کے سیاہ و سفید کی مالک بنی ہوئی ہے۔ پورے 10 سال کی بلا روک ٹوک حکمرانی کے بعد اب اس پر جوابدہی کا بہت بڑا بوجھ ہے۔ بہت سارے ایسے سوالات ہیں جن کا اس سے جواب نہیں بن پا رہا ہے۔ اس بار کے الیکشن میں حکومت مخالف رجحان کا اثر واضح طورپر نظر آنے لگا ہے۔

آخر وہ کون سے ممکنہ عوامل ہیں جو اس خطہ پر بی جے پی کی انتخابی گرفت کو غیر مستحکم کر سکتے ہیں؟ 3 چیزوں کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے۔ سب سے پہلے، بہار کو چھوڑ کر جہاں بی جے پی کا ریاستی سطح کا پارٹنر تھا، ہندی بیلٹ کی باقی تمام ریاستوں میں بی جے پی کا ووٹ شیئر 2019 میں 50 سے 60 فیصد کے درمیان تھا۔ اور یہ بڑے پیمانے پر ہندو ووٹوں کا نتیجہ تھا کیونکہ اگر اعداد و شمار پر غور کیا جائے تو غالب امکان ہے کہ مسلمانوں نے بی جے پی کو خاطرخواہ تناسب میں ووٹ نہیں دیا ہوگا۔ دوسرے لفظوں میں ہندو ووٹ جو بی جے پی کا ہدف تھا، اس بیلٹ میں تقریباً پوری طرح سے پورا ہوچکا ہے اور اسے اکثر بی جے پی کی طاقت سمجھا جاتا ہے لیکن اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ پارٹی اس مقام پر پہنچ چکی ہے جہاں وہ اپنی حمایت میں مزید اضافہ نہیں کرسکتی۔ دوسری بات، پارٹی نے ان میں سے بہت سی ریاستوں میں تقریباً تمام سیٹیں جیت لی ہیں۔ یوپی میںاگرچہ اس کے پاس کم ہیں – 80 میں سے تقریباً 60 نشستیں۔ جہاں تک خطہ کی دیگر ریاستوں کا سوال ہے، یہاں تک کہ اگر بی جے پی اپنی 2019 کی کارکردگی کو دہراتی ہے، اس کے باوجود پارٹی کو اپنی طاقت میں اضافہ کرنے میں مدد نہیں ملے گی۔ اس لیے بی جے پی کے لیے اپنی 2019 کی کارکردگی کو مزید بہتر بنانے کے لیے یوپی میں زیادہ سیٹیں جیتنا انتہائی ضروری ہے۔ یہ بہار میں بہت زیادہ سیٹیں نہیں جیت سکتی کیونکہ یہاں اس کا اب بھی ریاستی سطح کی جماعتوں کے ساتھ اتحاد ہے اور اس لیے اسے ان کے ساتھ سیٹیں بانٹنے کے لیے مجبور ہونا پڑا ہے۔تیسری بات، حالانکہ مودی کی مقبولیت اور ’ہندوتو‘ کی کشش اب بھی بہت حد تک برقرار ہے، لیکن ایک دہائی پر محیط اقتدار اور مبالغہ آمیز وعدوں نے بی جے پی کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔ اس دہائی میں اور مجموعی طور پر ہندوتو نے اپنے پیروکاروں کو ایسے علامتی جوش و خروش کا جذبہ پیش کیا ہے جس کا زندگی کے حقائق سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ مثلاً تصوراتی دشمن کو منظم طور پر کنارے لگانا، رام مندر کی تعمیر اور پسماندہ ذاتوں کی محدود باز آباد کاری۔ ہندو تسلط کی بنیاد پر قومی تعمیرنو اور مادی ترقی کے وعدے تو دور کے خواب ہی رہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اب اس خطہ میں بھی ووٹروں نے مہنگائی اور بے روزگاری کا ایسے مسائل کے طور پر ذکر کرنا شروع کر دیا ہے جو ان کے ووٹ کا تعین کریں گے۔

یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا موجودہ معاشی مسائل اور ہندوتو کی بیان بازی عروج پر پہنچنے کے باوجود ہندی پٹی ’ہندوتو‘ کے سحر میں مبتلا رہے گی؟ فی الحال یہ ممکن نہیں ہے کہ ہندی پٹی اچانک ہندوتو سے منھ موڑ لے گی۔ لیکن جس سوال پر ہمیں غور کرنا چاہیے، وہ یہ ہے کہ کیا رائے دہندگان ہندوتو سے محبت کے باوجود عقل و دانش کا استعمال کریں گے، کارکردگی جیسے عوامل کا جائزہ لیں گے اور متبادل تلاش کریں گے؟ اگر یہ عمل شروع ہوتا ہے تو ہندی بیلٹ کی کسی ایک ریاست تک یہ محدود نہیں رہے گا۔ جیسا کہ اوپر اشارہ کیا گیا ہے، ریاستی انفرادیت کے باوجود خطہ بہت حد تک یکساں رجحان کو ظاہر کرتا ہے۔ اگر ایسا ہوا تو پھر یہ بی جے پی کے لیے سخت چیلنج ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS