پروفیسر اسلم جمشید پوری
الیکشن کمیشن آف انڈیا کی ذمہ داری ملک میں ہر طرح کے انتخابات کرانا ہے۔ لوک سبھا، راجیہ سبھا،صدر،نائب صدر جمہوریہ اورریاستوں کے اسمبلی انتخابات کرانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے۔ہر ریاست میں اس کی شاخ ہوتی ہے جو ہر الیکشن میں اس کی مدد کرتی ہے۔جسے ریاست کے نام سے جانا جا تا ہے، مثلاًبہار الیکشن کمیشن،راجستھان الیکشن کمیشن وغیرہ۔ان ریاستی الیکشن کمیشنز کی ذمہ داری نگر نگم انتخابات اور پنچایتی انتخاب کرانا بھی ہے۔
مرکزی الیکشن کمیشن یعنی الیکشن کمیشن آف انڈیا کی اخلاقی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ صاف و شفاف،بے خوف،ایماندارانہ انتخاب کرا ئے۔ ووٹرس کو ہر طرح کا تحفظ فراہم کر نا اور انتخابات کا ہر طرح کا انتظام کر نا الیکشن کمیشن کا کام ہوتا ہے۔جب الیکشن کے پروگرام کا اعلان ہوتا ہے تو انتخابی ضابطۂ اخلاق نافذ ہو تا ہے اور جب ووٹ کی گنتی مکمل ہوجا تی ہے تو انتخابی ضابطۂ اخلاق ختم ہو جا تا ہے۔ اس دوران سرکاری بھرتیاں، سرکاری ایسے اعلانات جن کا اثر عوام پر پڑے، ایسے اشتہار جن سے عوام پر اثر ہو، سب بند ہوتے ہیں۔الیکشن کے دوران پر چہ داخل کرتے وقت اپنے اثاثوں کا حساب و کتاب امیدواروں کو دینا ہو تا ہے۔ای سی آئی کا کام انتخابات کی نگرانی کر نا ہوتا ہے۔یعنی وزیر اعظم سے لے کر ہر پارٹی کے امید وار کو اپنی انتخابی تشہیر میں ملک کے کسی شہری کی آزادی کے خلاف کوئی بات نہیں کرنی ہوتی ہے۔ دوران انتخاب کسی کو اکسانے اور بھڑکانے کی بات نہ ہو۔کسی گروپ اور مذہب کے خلاف کوئی بات نہ ہو۔مقررہ حد سے زیادہ انتخابی خرچ نہ ہو۔ان سب پر نظر رکھنا ای سی آئی کی ذمہ داری ہوتی ہے۔انتخابات کے وقت ای سی آئی ملک میں سب سے زیادہ اختیار اور طاقت کا مالک ہو تا ہے۔وہ پولیس اور پریس پر بھی ایکشن لے سکتا ہے۔
اب تک اس ملک کو 25 چیف الیکشن کمشنر مل چکے ہیں۔ اس وقت پچیسویں چیف الیکشن کمشنر راجیو کمار ہیں،جنہوں نے یکم ستمبر2020میں پچیسویں چیف الیکشن کمشنر کا عہدہ سنبھالا تھا۔جب سے اب تک وہ اس عہدے پر بنے ہوئے ہیں۔اس دوران مرکز میں این ڈی اے کی حکومت رہی ہے اور نریندر مودی وزیراعظم تھے اور اب بھی ہیں۔بہت سے چیف الیکشن کمشنر مصلحت پسند ہوتے ہیں۔وہ سرکار یا وزیراعظم ( اگر وہ انتخاب میں امیدوار بھی ہوں)سے الجھتے نہیں ہیں۔ ایسے بہت سے چیف الیکشن کمشنر ہوئے ہیں، بلکہ پہلے یہی سلسلہ تھا، وہ تو بھلا ہو ٹی این سیشن کا کہ انہوں پہلی بار سخت اور قانون نافذ کر نے والے کمشنر کا کردار ادا کیا۔ انہوں نے پہلی بار دکھایا کہ الیکشن کمیشن کے پاس الیکشن کے وقت سب سے زیادہ طاقت ہوتی ہے اور یہ بھی بتایا کہ عوام سب سے بڑھ کر ہوتے ہیں۔انہوں نے صاف شفاف انتخاب کرائے۔ انہوں نے دسویں چیف الیکشن کمشنر کے طور پر 1990 سے1996تک کام کیا۔اور ہندوستان کے لوگوں کو بتا دیا کہ الیکشن کے وقت سب سے بڑے عوام ہوتے ہیں۔ الیکشن کمیشن کچھ بھی کر سکتا ہے۔ انہیں 1999میں ملک کی خدمت کے لیے مگسیسے ایوارڈ بھی ملا۔
پہلے جب ہمارے ملک میں بیلٹ پیپر سے الیکشن ہوتا تھا تو بوتھ پر قبضہ کرنا عام سی بات تھی۔طاقتور لوگ بوتھ ہی لوٹ لیا کرتے تھے۔ ووٹ والی پرچی جس باکس میں جمع ہوتی تھی،اسی باکس کو چھین کر بدمعاش بھا گ جایا کرتے تھے۔ پھر اس نظام میں ووٹ کی گنتی میں کئی کئی دن لگ جا تے تھے۔یہ نظام ہمارے یہاں بہت برسوں تک رائج رہا۔ جیسے جیسے زمانہ بدلا۔ہم نے ہر سمت ترقی کی۔الیکشن کمیشن بھی بیلٹ پیپر سے ای وی ایم کی طرف آگیا۔یہ تبدیلی بہت زیادہ ترقی تھی۔سب کچھ تبدیل ہوگیا۔پر چیوں پر ووٹ ڈالنے والے کا فوٹو آگیا۔ ووٹر بھی اب کافی بیدار ہوگیا تھا۔ووٹوں کی گنتی اب گھنٹوں میں ہونے لگی اور سارا رزلٹ ایک ہی دن میں آنے لگا۔لیکن اس نظام میں بھی خامیاں نکالی جانے لگیں۔دراصل کمپیوٹر کے ماہرین نے ای وی ایم میںایسے ایسے پارٹ اور پرزے مشینوں میں فٹ کر دیے کہ مشینوں نے الگ ہی طرح سے کام کرنا شروع کر دیا۔ای وی ایم کے سافٹ ویئر ہی بدل دیے گئے۔ہوا یہ کہ بٹن کوئی سا بھی دبے لیکن ووٹ ایک ہی پارٹی کو جاتا تھا۔پھر یہ بھی ہوا کہ حکمراں جماعت نے ای وی ایم میں گنتی کے وقت گڑبڑی کرنی شروع کر دی۔نتیجہ یہ ہوا کہ ایک ہی پارٹی مرکز میں حکومت کرتی رہی۔اسے یقین ہو گیا کہ اب ہمیں کوئی بھی حکومت سے بے دخل نہیں کرسکتا۔ حزب مخالف جماعتوں نے بہت ہنگامہ کیا کہ ای وی ایم سے الیکشن نہ ہو،مگر الیکشن کمیشن کے کان پر جوں تک نہ رینگی،اس نے کسی کی ایک نہ سنی،حتیٰ کہ2024کا الیکشن بھی ای وی ایم کے ذریعہ ہی ہو رہا ہے۔
16مارچ کی اپنی پریس کانفرنس میں چیف الیکشن کمشنر آف انڈیا راجیو کمار نے اپنا ارادہ واضح کیا تھا کہ انتخابات صاف و شفاف ہوں گے اور کسی کو بھی قانون ہاتھ میں لینے نہیں دیا جا ئے گا۔ہر پارٹی پر پینی نظر ہوگی۔خرچوں پر بھی الیکشن کمیشن سخت ہوگا۔ کاش! ای سی آئی غیر جانب دار ہوتا۔ الیکشن 19اپریل سے یکم جون 2024تک پھیلا دیا ہے۔ اتنے طویل عرصے میں الیکشن پھیلانے کا کیا تک تھا؟ اتنی سخت گرمی اور لو کے دنوں میں الیکشن کا کیا مطلب تھا؟ صرف یہ کہ ایک خاص جماعت کو کھیلنے کے لیے وافر وقت دینا ہے۔ الیکشن کمیشن حکمراں جماعت کا ساتھ نہ دیتا تو نتیجہ کچھ اور ہی ہوتا۔حکمراں جماعت کے ساتھ ای سی آئی کا حکمراں جماعت کے ساتھ رویہ دوستانہ ہے۔ان کی غلط باتوں پر ای سی آئی خاموش ہے جبکہ دوسری جماعتوں پر اس کی سختی جاری ہے۔گزشتہ دنوں مغربی بنگال میں بی جے پی نے اپنے اشتہارات میں ٹی ایم سی پر طرح طرح کی غلط بیانی کی گئی۔ٹی ایم سی نے الیکشن کمیشن سے اس کی شکایت بھی کی،لیکن الیکشن کمیشن حکمراں جماعت کے خلاف کچھ بھی سننے کو تیار نہیں۔تھک ہار کر ٹی ایم سی نے ہائی کورٹ کا رخ کیا۔مغربی بنگال کے ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کو پھٹکار لگائی اور بی جے پی کے اشتہارات پر فوراً پابندی لگا ئی۔اس کا صاف مطلب ہے کہ الیکشن کمیشن اور بی جے پی کی کراری ہار ہوئی۔
ابھی حالیہ دنوں میں الیکشن کمیشن کا ایک نوٹس کانگریس صدر کو موصول ہو ا ہے۔جس میں ان کے اسٹار پرچارک کے ذریعہ ملک کے آئین پر بی جے پی کے حملے کا ذکر بار بار کیا جارہا ہے۔الیکشن کمیشن نے آئین اور اگنی ویر اسکیم پر جو تبصرے کیے جارہے ہیں،ان پر قد غن لگائے جانے کی بات کہی ہے۔دراصل راہل گاندھی اپنی ریلیوں اور روڈ شوز میں آئین پر بی جے پی کی بری نظر کو سخت تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ساتھ ہی اگنی ویر اسکیم کو بھی،ان کی حکومت آنے پر کوڑے دان میں ڈالنے کی بات زور وشور سے کہہ رہے ہیں۔ حزبِ اختلاف تو ہمیشہ سے حکمراں جماعت کے کاموں کا کچا چٹھا اور حساب کتاب کرتا رہاہے۔اب ایسے میں حکمراں جماعت کو تکلیف کیوں ہو رہی ہے؟کیا انہوں نے ایسا نہیں کیا ہے ؟ اور اگر کانگریس یا انڈیا گٹھ بندھن کی دوسری پارٹیاں انہیں غلط نشانہ بنا رہی ہیںتو عدالت میں مقدمہ کردیں۔بی جے پی کے سر کردہ رہنما ملک میں مذہبی نفرت پھیلانے کا کام کر رہے تھے،الیکشن کمیشن نے انہیں کیوں نہیں ٹوکا؟انہیں نوٹس کیوں نہیں دیا ؟دکھانے کے لیے الیکشن کمیشن نے ملکا رجن کھر گے کے ساتھ جے پی نڈا کو بھی ایک نوٹس دیا ہے تاکہ دوسری پارٹیاں انہیں جانبدار نہ کہیں۔
یوپی کے بہت سے بوتھوں پر گڑبڑی ہوئی، لوگوں کو ووٹ ڈ النے سے روکا گیا،بہار میں تشدد کیا گیا،ووٹنگ کا عمل سست ہوا،یہ سب کیا ہے ؟ اصل میں جہاں این ڈی اے کو لگا ووٹر اسے ووٹ نہیں دے رہے ہیں،وہاں انتخاب کے عمل میں طرح طرح کے رخنے پیدا کیے گئے۔ان سب پر الیکشن کمیشن آف انڈیا نہ صرف خاموش رہا بلکہ اپنے عمل اور ردعمل سے جانبداری کا ثبوت دیتا رہا ہے۔یہ سب جمہوری ملک میں ٹھیک نہیں۔
[email protected]