عبدالعزیز
’’ اور ہم اسے ( ابراہیم ؑ) اور لوط کو بچا کراس سر زمین کی طرف نکال لے گئے، جس میں ہم نے دنیا والوں کے لئے برکتیں رکھی ہیں اور ہم نے اسے اسحاق عطا کیا اور یعقوب اس پرمزید اور ہر ایک کو صالح بنایا اور ہم نے ان کو امام بنادیا جو ہمارے حکم سے رہنمائی کرتے تھے اور ہم نے انہیں وحی کے ذریعہ نیک کاموں کی اورنماز قائم کرنے اور زکوٰۃ دینے کی ہدایت کی اور وہ ہمارے عبادت گزار تھے۔‘‘ (سورہ الانبیا-71-73)
حضرت ابراہیم علیہ السلام کیلئے عراق کی زمین تنگ ہوگئی ۔ رہنا دشوار ہوتا گیا تو اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت لوط علیہ السلام کے بارے میں فرما رہا ہے کہ ’’ہم نے اس کو اور لوط کو ان کی قوم کے شر سے نجات دی اور زرخیز و شاداب علاقہ (کنعان) میں جگہ دی ۔ حضرت لوط اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بھتیجے تھے ۔ اس ہجرت میں لوط علیہ السلام ساتھ تھے۔ ہجرت سے پہلے دونوں نے اپنی قوم ہی کو دعوت دی لیکن ہجرت کے بعد مختلف علاقوں کو اپنا مرکز بنایا۔تورات اور تلمود میں اس ہجرت کی تفصیل مسخ شدہ حالت میں بیان کی گئی ہے ۔ یہودیوں نے اپنے مقصد اور مشن کے لئے ایک افسانہ گڑھا ہے تاکہ وہ اپنی کئی غلط باتو ں کو ثابت کرسکیں۔مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے تفہیم القرآن کے حاشیہ 66 ( صفحہ 170تا172، جلد 3) تلمود کے افسانہ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ان لوگوں کی غلطی پوری طرح کھل جاتی ہے جو قرآن کو بائبل اور یہودی لٹریچر کا خوشہ چین قرار دیتے ہیں۔مولانا محترم نے تبصرہ میں تلمود کی من گھڑت کہانی کا خلاصہ پیش کرتے ہوئے آخر میں لکھا ہے کہ ’’ کیا اس داستان کو دیکھ کر کوئی معقول آدمی یہ تصور کرسکتا ہے یہ قرآن کا ماخذ ہوسکتی ہے؟‘‘تلمود اور تورات میں اس کہانی کو اس لئے بھی گڑھا گیا کہ اس سے ثابت ہو کہ بی بی ہاجرہ شاہ مصر کی لونڈی تھیں اور اس طرح بنی اسماعیل کی تذلیل ہو کہ وہ ایک لونڈی کی اولاد ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ بی بی ہاجرہ نہ لونڈی تھیں اور نہ شاہ مصر کی بیٹی بلکہ وہ ایک عربی سردار ابو ملک کی بیٹی تھیں ۔ حضرت ابراہیم نے ان سے اس وقت شادی کی جب وہ بیر سبع میں مقیم تھے اور ابھی تک سارہ سے کوئی اولاد نہیں ہوئی تھی۔
جیدعالم دین اور محقق مولانا فراہیؒ لکھتے ہیں کہ ’’وہ اولاً مغرب کی سمت روانہ ہوئے اور کنعان (پست زمین) پہنچے۔ چند سال یہاں قیام کیا۔ خدا نے برکت دی اور بھیڑ بکریاں اورنوکر چاکر کی افزائش ہوئی اور ایک دولت مند رئیس بن گئے ۔ یہیں ایک میدان میں اس نواح کے ایک عرب سردار نے جس کانام ابو ملک تھا آپ کو اپنا خلیفہ بنایا اور حضرت ہاجرہ کو آپ کی خدمت میں پیش کیا۔ آپ نے اس مقام پر سات کنویں کھدوائے اور چند درخت نصب کئے اس لیے وہ مقام بیر سبع کے نام سے مشہور ہوا۔‘‘
بہرحال حضرت ابراہیم بیر سبع سے چل کر مصر کے شمالی مغربی حصے سے گزرتے ہوئے جنوب کی سمت میں روانہ ہوئے اور بالآخر اس مقام تک پہنچ گئے جو ان کے سفر کی آخری منزل تھی یعنی بطحاء مکہ۔
مولانا فراہی لکھتے ہیں:’’حضرت ابراہیمؑ نے متعلقین کو بیر سبع میں چھوڑا اور خود جنوب کی طرف روانہ ہوئے۔ توفیق الٰہی نے رہبری کی۔ بطحا مکہ میں پہنچے، دیکھا کہ چاروں طرف پہاڑیاں ہیں مگر ہر طرف سے راہیں کھلی ہوئی ہیں۔ زمین پست اور خشک اور غیر آباد ہے۔ بیچ میں ایک چشمہ ہے ( جس کانام زمزم پڑا) اس کے پاس ذرا دم لیا (اور وہی جگہ ہمیشہ کیلئے مقام ابراہیم کہلائی) تمام وادیِ بطحا میں سکون و خاموشی اور یکسوئی کی تصویر نظر آتی ہے۔ سمت غیب سے نسیمِ امید چلی اور شگفتہ ہوگیا۔ خواب میں دیکھا کہ اسماعیل علیہ السلام کو بکمالِ شوق اپنے یگانہ معبود کیلئے قربان کررہے ہیں۔ اپنی نذر کو یاد کرکے سمجھا کہ یہی تعبیر ہے اور یہیں خدائے یگانہ کا بیتِ عتیق یعنی قدیم پرستش گاہ ہے‘‘۔
[email protected]