عبدالماجد نظامی
2024 کے عام انتخاب کے بیشتر مراحل پایۂ تکمیل کو پہنچ چکے ہیں اور4جون تک یہ واضح بھی ہوجائے گا کہ اس کا نتیجہ کس سیاسی خیمہ کے حق میں جائے گا۔ البتہ نتیجہ خواہ کچھ بھی ہو لیکن جمہوریت کو بچائے رکھنے کے عمل میں ملک کے شہریوں نے جس طریقہ سے حصہ لیا ہے، اس سے اتنا اندازہ تو ضرور ہو جاتا ہے کہ ان میں اس نظام کے تحفظ کا جذبہ باقی ہے۔ حالانکہ اس انتخابی عمل میں حصہ لینے والوں کی شرح میں نسبتاً کمی آئی ہے لیکن اس کے کئی اسباب ہوسکتے ہیں جن کے ذکر کرنے کا یہ موقع نہیں ہے، لیکن اتنا کہنا تو حق بجانب ہوگا کہ جمہوری نظام حکومت میں عوام کی رائے کی اہمیت سب سے زیادہ ہوتی ہے کیونکہ حکومت کی تشکیل میں عوام کی شرکت کلیدی کردار نبھاتی ہے۔ عوام کی اس حق رائے دہی کا احترام کامیاب جمہوریتوں میں عموماً کیا جاتا ہے اور پالیسی سازی کے وقت عوامی نمائندگان اس بات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہیں کہ انتخاب کے لیے جو منشور شائع کیا گیا تھا، اس پر عمل در آمد کیا جائے تاکہ اگلے انتخاب میں جب وہ عوام سے دوبارہ روبرو ہوں تو ان کے سامنے رپورٹ کارڈ پیش کریں اور مزید ترقی و فلاح و بہبود کے لیے کوشاں رہنے کا یقین دلا سکیں۔ ہندوستانی جمہوریت کے سامنے مسائل گرچہ رہے ہیں لیکن اس کو کامیاب جمہوریتوں کی فہرست میں اس لیے شمار کیا جاتا رہا ہے کیونکہ عوام کی رائے کے احترام میں یہاں حکومتیں بدلتی رہی ہیں۔ جمہوری ادارے بھی نسبتاً آزادی کے ساتھ کام کرتے رہے ہیں۔ لیکن گزشتہ ایک دہائی کے اندر جو بدلاؤ ملک عزیز کی سیاست میں آیا اور تشدد پسند ہندوتو کے زیر اثر پورے ملک کے مزاج اور رویہ میں جو ناقابل یقین تبدیلیاں پیدا ہوئیں ان کے پیش نظر وثوق کے ساتھ یہ کہنا ممکن نہیں ہے کہ ہندوستان کی جمہوریت کو آج بھی عالمی سطح پر وقار کا وہی درجہ حاصل ہے جو2014سے قبل کے برسوں میں حاصل تھا۔ یہ بات کسی ذاتی عناد یا ہندوتو کے نظریہ سے عدم اتفاق کی بنیاد پر نہیں کہی جا رہی ہے بلکہ اس کی پشت پر موجود قومی اور بین الاقوامی سطح کے تھنک ٹینکوں کے تجزیوں اور اس موضوع پر گہری نظر رکھنے والے سیاسی ماہرین کی ان تحریروں سے صاف واضح ہے جو وقتاً فوقتاً ملک اور بیرون ملک کے ذرائع ابلاغ میں شائع ہوتی رہی ہیں۔ ان تمام تجزیوں اور مطالعوں میں ایک بات پر خاص طور سے روشنی ڈالی گئی ہے کہ ملک کی مسلم اقلیت کے دستوری حقوق کی حفاظت کرنے میں موجودہ سرکار نہ صرف ناکام رہی ہے بلکہ مسلم اقلیت کی مذہبی آزادی پر خاص طور سے پابندیاں عائد کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ مسلمانوں کے طرز معاش و لباس سے لے کر ان کے بود و باش اور عقیدہ و فکر کا کوئی پہلو ایسا نہیں بچا جو ہندوتو کی سیاست کے زیر اثر شدید طور پر متاثر نہ ہوا ہو۔ لیکن اس سے زیادہ سنگین پہلو یہ سامنے آیا کہ مسلمانوں کو عوامی اور سیاسی زندگی سے الگ تھلگ کر دینے کی مہم چلائی گئی اور بڑی حد تک ہندوتو کی سیاست اس میں کامیاب بھی رہی۔2014کے انتخاب کے بعد نئی وزارت عظمیٰ کے پہلے دور میں تو خود بعض مسلم مفکرین و دانشوران فرقہ پرستوں کے مسلم مخالف پروپیگنڈوں سے اس قدر متاثر ہوئے کہ انہوں نے کمیونٹی کو یہ مشورہ دینا شروع کر دیا کہ وہ اپنے حق رائے دہی تک سے دستبردار ہوجائیں تاکہ وہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے حملوں کی زد میں نہ آئیں۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک ایسا مشورہ تھا جس میں خوف کی گہری نفسیات اور مسلم عوام میں موجود طول نفسی سے عدم واقفیت کا نتیجہ تھا۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے دھمکی آمیز پروپیگنڈوں اور غیر دستوری بلکہ غیر اخلاقی مسلم مخالف بیانیہ کا اثر ملک کی اپوزیشن پارٹیوں پر نہیں پڑا۔2014کے عام انتخاب میں ناکامی کے اسباب کا پتہ لگانے کے لیے کانگریس پارٹی نے جب اے کے انٹونی کی قیادت میں ایک کمیٹی تشکیل دی تھی تو بہت واضح الفاظ میں اس کمیٹی نے پارٹی کی ناکامی کے اسباب کو مسلمانوں کے سر منڈھنے کی کوشش کی تھی اور یہ کہا تھا کہ کانگریس پارٹی کو مسلمانوں کی پارٹی باور کرانے میں بی جے پی کامیاب ہوگئی تھی اور اسی لیے پارٹی کو شکست کا منھ دیکھنا پڑا۔ حالانکہ سیاسی مبصرین اس حقیقت سے واقف ہیں کہ اس وقت کی کانگریس میں داخلی انتشار اور پالیسی پیرالیسس کو اس کی شکست میں زیادہ دخل تھا۔
کانگریس پارٹی اس معاملہ میں اکلوتی پارٹی نہیں ہے جس نے اپنی شکست کے لیے مسلمانوں کو مورد الزام ٹھہرایا ہو۔ بہوجن سماج پارٹی کی مایاوتی بھی ماضی میں اس قسم کی رائے کا اظہار کرچکی ہیں۔ اس کی مزید مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔ دراصل تشدد پسند ہندوتو اور فرقہ پرستی پر مبنی سیاست کے مقابلہ میں اپوزیشن پارٹیوں کا اس طرح کمزور پڑ جانا اور شہریوں کے اسی طبقہ کو مورد الزام ٹھہرانے کی غلطی کر بیٹھنا جو برسر اقتدار پارٹی کے نشانہ پر ہو، ایک کامیاب جمہوریت کی علامت نہیں مانا جائے گا۔ ان پارٹیوں کو چاہیے تھا کہ وہ ملک کی اقلیتوں بالخصوص مسلم اقلیت کے جائز دستوری حقوق کے تحفظ کو یقینی بناتیں اور جس محاذ پر بیجا ڈھنگ سے انہیں نشانہ بنایا جا رہا ہے، وہاں ان کا دفاع کرتیں۔ لیکن اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ اپوزیشن پارٹیوں نے بھی پوری خود اعتمادی کے ساتھ اپنا یہ کردار نہیں نبھایا۔ اس کے باوجود بھی ملک کی مسلم اقلیت نے نہایت اعلیٰ ظرفی، ہوشمندی اور سیاسی پختگی کا ثبوت دیا اور فرقہ پرست طاقتوں کے اشتعال انگیز بیانات یا ان کے ذریعہ کیے گئے حملوں سے طیش میں آکر کوئی ایسا اقدام نہیں کیا جس سے فرقہ پرستوں کے مقاصد پورے ہوتے۔ اس کے برعکس مسلمانوں نے پورے ملک میں قابل ستائش صبر و ضبط کا مظاہرہ کیا اور اپنے مسائل کے حل کے لیے دستور کی روشنی میں کوششیں شروع کردیں۔ یہ فرقہ پرستی پر مبنی سیاست کا نقطۂ ابال تک پہنچ جانے کا ہی نتیجہ تھا کہ اس کمیونٹی کی خواتین نے زبردست سیاسی بصیرت اور پرامن سیاسی احتجاج کی ایسی مثال قائم کردی کہ شاہین باغ تحریک کا نام مزاحمت کی علامت کے طور پر دنیا بھر میں جانا گیا۔ ان تلخ تجربات نے مسلم کمیونٹی میں خوف و ہراس پیدا کرنے کے بجائے اس کے اندر اپنے سیاسی، اقتصادی، سماجی، تہذیبی اور ثقافتی حقوق کے دفاع کی خاطر دستوری لڑائی لڑنے کا شعور پیدا کر دیا۔ اس کا اثر2024کے عام انتخاب میں بھی عام طور سے نظر آیا۔ مسلمانوں نے بڑی ہوشمندی سے اپنے اندرونی اختلافات کو ختم کرنے کی کوشش کی ہے اور چھوٹی بڑی تمام مسلم تنظیموں نے اپنی اپنی سطح پر کمیونٹی کی رہنمائی کا قابل عمل لائحہ تیار کیا ہے اور بہت حد تک ان کے نفاذ کی کوشش کی ہے۔ مسلم سیاسی پارٹیوں نے بھی اس بار مسلم ووٹوں کو منتشر ہونے سے بچانے کی قابل تعریف کوشش کی ہے اور گزشتہ برسوں والی سیاسی افراتفری ان کے درمیان مفقود رہی ہے۔ اس کے ساتھ ہی تمام تر الزامات کے باوجود اس ملک کے سیکولر کردار کو بحال رکھنے میں مسلمانوں نے ہمیشہ کی طرح اپنا کام بحسن و خوبی انجام دیا ہے اور کسی بھی طرح کے منفی ردعمل سے خود کو بچائے رکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فرقہ پرست سیاسی پارٹی اور اس کے اعلی لیڈران میں ایک درجہ کی جھنجھلاہٹ بلکہ بد حواسی پائی جاتی ہے اور وہ سمجھ نہیں پا رہے ہیں کہ فرقہ واریت کی بناء پر کس طرح سے ووٹوں کی تقسیم کا کھیل کھیلا جائے۔
اگرچہ18مئی کو ’’دی انڈین ایکسپریس‘‘میں شائع لال منی ورما کے تجزیاتی مضمون سے واضح ہوتا ہے کہ کس طرح سے لگاتار مسلمانوں کی سیاسی نمائندگی کو گھٹانے میں تمام سیاسی پارٹیاں یکساں طور پر شریک ہیں اور مسلمانوں کو سیاسی اچھوت بنانے کی عملی کوششیں کی جا رہی ہیں لیکن اس کے باوجود اس ملک کی مسلم اقلیت نے مایوسی کا دامن نہیں تھاما ہے اور پختہ سیاسی شعور کا ثبوت دیتے ہوئے اس بات کی پوری کوشش کی ہے کہ ان سیاسی پارٹیوں کا ہاتھ مضبوط کیا جائے جو دستور ہند اور اس کی روح کی حفاظت کا کام کرنے کا عزم رکھتی ہیں۔ یہاں پر مسلم سیاسی پارٹیوں کو یہ بات پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ وہ خود کو ایک مضبوط سیاسی قوت بنانے کی سنجیدہ کوشش ضرور کریں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ زمین پر اتر کر اپنے تنظیمی ڈھانچہ کو مضبوط بنائیں، اپنے سیاسی موقف کو واضح کریں اور مستقبل کے لائحہ عمل کو قابل نفاذ بنانے کے لیے مطلوب وسائل کو حکمت عملی کے ساتھ استعمال کرنے کا خاکہ پیش کریں تاکہ ان کو ایک سنجیدہ سیاسی قوت کے طور پر دیکھا جا سکے اور ملک کے عوام میں ان کو مقبولیت حاصل ہو۔ اس محاذ پر مسلم سیاسی پارٹیاں بہت کمزور نظر آتی ہیں اور اسی لیے ان کو سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا ہے۔ ان کا کوئی واضح منشور بھی نہیں ہوتا جس سے پتہ چلے کہ وہ کیا متبادل پیش کرنے کی پوزیشن میں ہیں۔ حالانکہ ان کے پاس مواقع موجود ہیں۔ اگر وہ سماج کے کمزور طبقوں اور مختلف اقلیتوں کے مسائل کو مسلم مسائل کے ساتھ کامیابی کے ساتھ ضم کریں اور ان کے حقوق کے تحفظ کا ایک موثر خاکہ پیش کریں اور پھر انہیں ایک نئی سیاسی قوت میں تبدیل کرلیں تو اس کا پورا امکان ہے کہ وہ ایک بہترین متبادل کے طور پر ابھرسکتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس کے لیے بہت محنت، وقت، مطالعہ اور تجزیہ کے ساتھ ساتھ انہماک سے کام کرنے والے کیڈر کی ضرورت ہوگی۔ جب تک ان مسئلوں کا حل تلاش نہیں کیا جائے گا تب تک مسلم سیاسی پارٹیاں برائے نام ہی انتخاب کے پورے عمل میں شامل رہیں گی۔ جہاں تک فرقہ پرست سیاسی پارٹیوں کا تعلق ہے تو ان کے لیے اس بار کا انتخاب اتنا آسان نہیں ہوگا اور یہی ملک کے حق میں بہتر ہوگا کیونکہ پورے ملک کو جس طرح سے گھٹن کی کیفیت میں مبتلا کر دیا گیا ہے، اس سے اس بات کا خطرہ لاحق ہوگیا ہے کہ کہیں یہاں کی جمہوریت کا دم نہ گھٹ جائے۔ ایسا ہونا دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے لیے قطعاً مفید نہیں ہوگا۔
(مضمون نگار روزنامہ راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر ہیں)
[email protected]