اب جبکہ لوک سبھاانتخابات آخری مراحل میں ہیں ۔دوتہائی سے زیادہ سیٹوں پر ووٹنگ ہوچکی ہے ،آج پانچویں مرحلے کے انتخابات کے بعد صرف 115سیٹیں بچیں گی ، جہاں اگلے 2 مرحلوں میں ووٹنگ ہوگی۔ اس دوران سیاسی پارٹیاں حکومت سازی کیلئے اپنے موقف کا اظہار بھی کرنے لگی ہیں، اندرون خانہ اس کی کوششیں بھی شروع ہوگئی ہیں۔ ہر کوئی محسوس کرسکتاہے کہ حکمراں این ڈی اے اوراپوزیشن اتحاد ’انڈیا‘ کاجوش ابھی بھی کم نہیں ہوا ہے ۔ وہی اسپرٹ ، وہی انتخابی مہم ، مخالف پارٹیوںاورلیڈروں پر تیزوتند حملے اورروڈ شوجاری ہیں ۔ امیدکا دامن کوئی بھی چھوڑنے کو تیار نہیں ہے ۔ سبھی کی کوشش ہے کہ انتخابی مہم کے دوران تمام رائے دہندگان تک پہنچنے اوران کو رجھانے میں کوئی کسر نہ رہ جائے ، جس کا خمیازہ انہیں نتائج کی صورت میں بھگتنا پڑے ۔کتنی عجیب بات ہے کہ حکمراں اتحاد اور اپوزیشن اتحاد دونوں کو جیت کا یقین ہے ۔بی جے پی نے تو شروع میں ہی 400پارکا نعرہ دے دیا تھااوروہ اسی ہدف کے ساتھ انتخابی میدان میں اتری تھی ۔اپوزیشن نے ایسا کوئی ہدف تو نہیں رکھا تھا ، ان کا ایک ہی ایجنڈاتھا کہ مودی سرکار کی حکومت کو ختم کرنا ہے۔ بی جے پی کابھی ایک ہی ایجنڈا ہے کہ اگلی سرکار بھی مودی سرکار ہو، لیکن جیسے جیسے ووٹنگ کے مراحل آگے بڑھے ہیں اورووٹنگ کے رجحان آئے ہیں ۔اپوزیشن خصوصا راہل گاندھی کی طرف سے این ڈی اے اوراپنی سیٹوں کے بارے میں الگ الگ تعداد ظاہر کرنے لگے ہیں ۔ یقین کے ساتھ وہ بھی کوئی خاص ہدف یا تعداد نہیں بتارہے ہیں۔ سیاسی پارٹیاں اورلیڈران کچھ بھی بولیں یا دعوی کریں ، رائے دہندگان پوری طرح خاموش ہیں ۔خاموشی سے ووٹنگ ہورہی ہے اورلوگ اپنا فیصلہ ای وی ایم کے حوالے کررہے ہیں ،جس کا پتہ 4جون کو ووٹوں کی گنتی کے بعد چلے گا۔رائے دہندگان کی خاموشی اورکم ووٹنگ سبھی پارٹیوںکیلئے پریشانی کا باعث بن رہی ہیں۔سیاسی مبصرین کیلئے بھی عوام کے فیصلے کا تجزیہ کرنا یا اندازہ لگانا مشکل ہورہاہے ۔اس طرح دیکھاجائے تو انتخابی مہم کے دوران جتنا شور سنائی دیتاہے ، اتنی ہی خاموشی رائے دہندگان اورسیاسی مبصرین میں نظرآرہی ہے۔
بھروسہ کی کمی نہ تو بی جے پی اوراین ڈی اے میں ہے اورنہ اپوزیشن میں مایوسی نظر آرہی ہے ۔ووٹروں کو پارٹی سے قریب کرنے کیلئے اس امیدمیں مثبت ومنفی ہر طرح کے حربے استعمال کئے جارہے ہیں،کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی تیرضرور نشانہ پر لگ جائے گااوروہ سیٹوں میں تبدیل ہوجائے گا، لیکن مسئلہ تو یہ ہے کہ لوگ اپنی خاموشی توڑنے کو تیارنہیں ہیں ۔کہیں امید سے کم ووٹنگ ہورہی ہے تو کہیں زیادہ ۔کم یازیادہ ووٹنگ کس کیلئے فائدہ مند اورکس کیلئے نقصان دہ ثابت ہوگی ، یہ پتہ لگانا مشکل ہے ۔لوک سبھاانتخابات کے نتائج کیا ہوں گے ، یہ تو ووٹوں کی گنتی کے بعد ہی پتہ چلے گا، لیکن سیاسی پارٹیوں نے اپنی پوزیشن کو واضح کرناشروع کردیا ۔ اس معاملہ میں سب سے پہلے ترنمول کانگریس نے اعلان کیا،جو اپوزیشن اتحاد کی تشکیل کے وقت ’انڈیا‘ میں تھی ، لیکن جب الیکشن لڑنے کی بات آئی ،تو وہ اتحاد سے الگ ہوگئی اورمغربی بنگال میں این ڈی اے اور’انڈیا‘ کے خلاف تنہا الیکشن میں اتری۔ 5مرحلوں کی ووٹنگ کے بعد پارٹی کی سربراہ اورمغربی بنگال کی وزیراعلی ممتابنرجی نے اچانک ڈرامائی انداز میںپہلے یہ اعلان کیاکہ اگر مرکز میں اپوزیشن اتحاد کی حکومت بنی، تو ان کی پارٹی اسے باہر سے حمایت کرے گی ، اوردوسرے دن یہ اعلان کیاکہ پارٹی باہر سے حمایت نہیں کرے گی ، بلکہ حکومت میں شامل ہوگی ۔اس پر کانگریس لیڈر ادھیر رنجن چودھری نے یہ کہہ دیا کہ انہیں ممتا بنرجی پر بھروسہ نہیں ہے۔ وہ بی جے پی کے ساتھ بھی جا سکتی ہیں۔اس بابت جب کانگریس کے صدر ملکارجن کھرگے سے سوال کیا گیا تو موقع کی نزاکت کودیکھتے ہوئے انہوں نے اپنی پارٹی کے سینئرلیڈرچودھری کے بارے میں کہہ دیا کہ وہ اس بابت فیصلہ کرنے والے نہیں ہیں ، فیصلہ ہم ، پارٹی اورہائی کمان کرے گی ، لیکن ممتاکو کچھ نہیں کہا ۔یہ شاید آگے کی حکمت عملی ہے ۔
اس طرح کے حالات این ڈی اے کے ساتھ بھی پیش آسکتے ہیں اوروہ پارٹیوں کیلئے اپنے موقف میں لچک پیداکرسکتی ہے ۔اس وقت الیکشن کافی دلچسپ مرحلے میں ہے ۔دیکھتے ہی دیکھتے وہ اختتام کو پہنچنے والا ہے ، پھر بھی ہرکوئی یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ آخر اتنی ہنگامہ خیز انتخابی مہم کے باوجود رائے دہندگان خاموش کیوں ہیں ؟پولنگ کا رجحان کیوں نہیں بڑھ رہاہے ۔کچھ ریاستوں کی ووٹنگ کا تناسب کافی خراب ہے ۔جس پر سنجیدگی سے غورکرنے کی ضرورت ہے۔
[email protected]