الٹی ہو گئیں سب تدبیریں: ڈاکٹر سید احمد قادری

0

ڈاکٹر سید احمد قادری

ملک میں چل رہے لوک سبھا کا یہ انتخاب اس بار معمولی نہیں بلکہ غیر معمولی ہے اور اس انتخاب پر پوری دنیا کی نگاہ ٹکی ہوئی ہے کہ دنیا کی سب سے بڑے جمہوری ملک میں یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ کس طرح ملک کی جمہوریت کو پامال کرکے برسر اقتدار حکومت اپنی واپسی کرتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ بیرون ممالک سے بڑی تعداد میں کئی اداروں اور میڈیا کے مشاہدین انڈیا پہنچے ہوئے ہیں ۔ دراصل ملک میں برسراقتدار حکومت نے گزشتہ دو انتخابات میں اتنے زیادہ جھوٹے وعدے، دعوی کئے اور فرقہ پرستی کو بڑھایا کہ ملک کی سا لمیت ، جمہوریت ،یک جہتی ، ہم آہنگی، آئین اور انسانی اقدار پر ہی خطرے منڈرانے لگے۔ ساتھ ہی ساتھ ملک کے بنیادی مسائل مثلاََ غربت، افلاس، بھوک ،بے روزگاری،مہنگائی،صحت، تعلیم، تحفظ، رواداری، بدعنوانی، ذخیرہ اندوزی، صنعتی و تجارتی انجماد، اقتصادی مساوات، سماجی انصاف، جمہوری قدروں کی حرمت اور آئین و دستور کی اہمیت کو، اس حکومت نے سمجھنے اور ان مسائل کے سدّباب اور تدارک کی کبھی کوئی سنجیدہ کوششیں نہیں کی۔ ہمیشہ ہندو مسلم کے درمیان خلیج پیدا کرملک میں منافرت اور دہشت پھیلا کر ملک کی برسہا برس کی گنگا جمنی تہذیب کو عملی طور پر ختم کرنے کی کوششیں کیں ۔ عوام کے بنیادی مسئلے حاشیہ پر ڈال دئے گئے کہ انھیں منافرت اور فرقہ واریت پر زیادہ یقین تھا۔ مسئلہ رہا تو بس یہ کہ کیسے ظلم وستم ، بربریت ، تشدد، خوف و سراسیمگی پھیلا کر کس طرح برسراقتدار رہا جائے۔ غریبوں ، مفلسوں ، کسانوں، دلتوں اور اقلیتوں کے مسائل پر کبھی کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ اس ضمن میں کانگریس رہنما پرینکا گاندھی کا یہ کہنا درست ہے کہ بی جے پی کو ہندو مسلم کرنے کی بجائے انتخابات میں حقیقی اور بنیادی مسائل پر بات کرنی چاہئے ۔حزب اختلاف کی جانب سے بھی مسلسل حکومت سے مطالبے کئے گئے گزشتہ دس برسوں میں عوام کے لئے کئے گئے اپنی حصولیابی کا حساب دیں ۔ لیکن حساب دیں تو کیا دیں ۔عوام کے بنیادی مسائل پر بی جے پی کی حکومت نے کبھی بھی سنجیدگی سے سوچنے سمجھنے اور ان کے تدارک کے لئے کوئی لائحہ عمل تیار کیا ہی نہیں یا یوں کہیں کہ ان مسائل کو کبھی اہمیت ہی نہیں دی ۔ ایسے حالات میں اس وقت جب اپوزیشن پارٹی ملک کے بنیادی مسائل پر سوال کر رہی ہے عوامی طور پر بھی ان مسئلوں کو اٹھایا جا رہا ہے تو گزشتہ دس برسوں سے حکمرانی کرنے والی حکومت بغلیں جھانک رہی ہے ۔

آپ کو بتایں دیں کہ گزشتہ دو انتخابات میں کامیابی حاصل کرکے دس برسوں کے اقتدار میں حکومت کچھ زیادہ ہی خوش فہمی میں مبتلا ہو گئی اور اس کی نگاہ میں یہ بات گھر کر گئی کہ اگر کسی طرح سے رام مندر کا مسئلہ کو سپریم کورٹ سے رام مندر کے حق میں حاصل کرکے عالیشان مندر کی تعمیر کر ا دی جاتی ہے تو پھر2024 ء کا انتخاب بھی بڑی آسانی سے کامیاب ہو جائیں گے ۔ یہی وجہ رہی کہ حکومت عوام کو ان کے بنیادی مسائل پر توجہ دینے سے زیادہ رام مندر کے سلسلے میں من مانا فیصلہ (انصاف نہیں ) چیف جسٹس رنجن گوگوئی ( جنھیں انعام کے طور پر ان کی سبکدوشی کے بعد راجیہ سبھا کا ممبر بنایا گیا )سے حاصل کیا گیا اور انتخاب کے اعلان سے قبل ہی ا س کی ( آدھی ادھوری ) اور ایودھیا کی درجنوں مندروں کو منہدم کرکے تعمیر میں پوری شدت دکھائی گئی اور رام جی کی مورتی میں پران پرتیسٹھا (روح پھونکی گئی )کی گئی اور اس تقریب کو جس طرح پورے ملک میں مذہبی اور سیاسی رنگ دیا گیا ۔ اسے دنیا نے دیکھا اور سمجھا ۔ لیکن جب برا وقت آتا ہے تو ساری کوششیں ناکام ثابت ہو تی ہیں اور سایہ بھی ساتھ چھوڑ جاتا ہے۔ ایسا ہی کچھ بی جے پی کے ساتھ دیکھنے کو مل رہا ہے انتخاب کے اعلان ہوتے ہی مودی حکومت کو اندازہ ہو گیا کہ پانی کی طرح پیسے بہانے کے باوجود رام مندر کے تعلق سے ملک کی اکثریت کے درمیان مذہبی جنون پیدا کرنے میں وہ بری طرح ناکام ہے اور حکومت کی ساری کوششیں رائیگاں گئیں ۔ کاشی اور متھرا کے تنازعہ کو بھی اسی سیاسی مقصد کے تحت پوری شدت سے اٹھایا گیا ۔لیکن یہاں بھی کامیابی ملتی نظر نہ آنے کے بعد کل ہی بی جے پی کے قومی صدر جے پی نڈّا نے یہ بیان دیا ہے کہ کاشی متھرا میں مندروں کی تعمیر کا ہمار کوئی ارادہ نہیں ہے ۔ انھوں نے تو یوگی آدتیہ ناتھ اور ہیمنت بسوا شرما کے ذریعہ دونوں مقامات پر مندروں کی تعمیر کے وعدے کو جوش میں دیا گیا بیان قرار دیا ۔ جے پی نڈّا نے ’انڈین ایکسپریس ‘ کو دئے گئے ایک انٹرویو میں ایک اور انکشاف کر کے دھماکہ ہی کردیا ہے کہ بی جے پی کو اب آرایس ایس ضرورت نہیں ہے۔ یوں بھی حقیقت یہی ہے کہ بی جے پی پوری طرح مودی کی شخصیت میں ضم ہو چکی ہے ۔

مودی اور آر ایس ایس سے بڑھتی دوری کی خبریں مل رہی تھیں ۔ اب نڈّا نے اس بات پر باضابطہ مہر لگا دی ہے ۔ بی جے پی کی حکومت پر انتخاب کا اعلان ہوتے ہی مصیبت کا پہاڑ اس طرح بھی ٹوٹا کہ سپریم کورٹ نے حکومت کے ذریعہ الیکٹورل بونڈ کے نام پر ملک کے صنعت کاروں سے بڑے پیمانے پر چندہ لئے جانے کا بھانڈہ پھوڑ کر دیا ، جب کہ ابھی پی ایم کئیر فنڈ کے گھوٹا لہ کا اجاگر ہونا باقی ہے ۔ الیکٹورل بونڈ جیسے عالمی پیمانہ کے گھوٹالہ کے بعد مودی کی بد نصیبی دیکھئے کہ جس کورونا وبا کے درمیان کووی شیلڈ ویکسین ہر حال میں لوگوں کو لئے جانے پر زور تھا اور ویکسین لینے والوں کو جاری کئے جانے والے سرٹیفکیٹس پر بڑے فخر سے اپنی تصویرآویزاں کئے ہوئے تھے اس ویکسین کے سلسلے میں برٹش اخبار ’ڈیلی میل‘ کی رپورٹ کے مطابق برطانوی دوا ساز کمپنی ایسٹر زینیکا نے ایک بڑے مقدمہ کے بعد اپنے عدالتی دستاویز میں یہ قبول کیا ہے کہ اس ویکسین کو لینے والوں میں ہارٹ اٹیک ، شریانوں میں خون جمنے ، پلیٹ لیٹس کم ہونے وغیرہ جیسی بیماریوں کا خطرہ بڑھ گیاہے ۔ کووی شیلڈ سے نقصانات کی باتیں لوگوں کے درمیان چرچہ میں پہلے ہی سے تھیں اور لوگ تشویش کا اظہار کر رہے تھے ، لیکن اب جب کہ عالمی سطح پر یہ بات سامنے آ گئی ہے تو لوگوں کا مودی حکومت پر غصہ فطری اور واجب ہے ۔ اسی عوامی غصہ کا یہ نتیجہ ہے کہ ویکسین لینے والوں کے سرٹیفیکیٹس سے مودی کی تصویر ہٹا دی گئی ہے ۔ لیکن لوگوں کا غصہ بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ مودی کی ناعاقبت اندیشی اور ضرورت سے زیادہ مقبولیت کی خوش فہمی کی وجہ سے ملک کے کروڑوں لوگ طرح طرح کی بیماریوں میںمبتلا ہو چکے اور مسلسل ہو رہے ہیں ۔ کئی جگہوں سے اموات کی بھی خبریں بھی موصول ہو ئی ہیں ۔ افسوسناک بات تو یہ ہے کہ کووی شیلڈ بنانے والی کمپنی سے بھی مودی حکومت انتخابی بونڈ کے نام پر کئی کروڑ روپئے کا چندہ بھی لے چکی ہے ،ساتھ ہی ساتھ دیگر کئی دواساز کمپنیوں سے بھی بڑے پیمانے پر چندہ وصولا گیا ہے ، جس کے بعد ہی دواؤں کی قیمت آسمان چھو رہی ہے ۔ ایسے نہ جانے کتنے سچ کا سامنے آنا ابھی باقی ہے ۔ کسانوں کی ناراضگی ، بے روزگار نوجوانوں کی خفگی ، سابق وزیر اعظم کے پوتے پرجول یوننا کے ذریعہ ہزاروں خواتین کے ساتھ درندگی ،سابق ممبر پارلیمنٹ برج بھوشن کے ذریعہ خواتین پہلوانوں کے جنسی استحصال کی خبروں کا سچ اجاگر ہونے کے باوجود اس کی گرفتاری نہ ہونے سے خواتین کے درمیان زبردست غم و غصہ خوف و ہراس نے بی جے پی کو بری طرح سے بیک فٹ پر لا کھڑ اکیا ہے ۔ ان سب حالات کے سامنے آنے کے بعد بی جے پی کی حکومت کو بہت تیزی سے اپنی شکست کا اندازہ ہو گیا ہے ۔ اب این ڈی اے میں شامل پارٹیوں کے رخ میںبھی تیزی سے بدلائو دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ مہاراشٹر کے وزیر اعلی ایکناتھ شنڈے ( شیو سینا) نے یو این آئی کودئیے ایک خصوصی انٹرویو میں کہا ہے کہ ان کی شیو سینا مسلم مخالف نہیں ہے ۔ سامنے کھڑی شکست کا خوف اب انھیں شیوا جی مہاراج کے یہ احکامات یاد آ رہے ہیں کہ’ کسی بھی صورت میں مسلم خواتین اور بچوں کے ساتھ ظلم وستم اور بدتمیزی نہ کی جائے ۔‘بی جے پی اور اس کی حلیف پارٹیاں اسوقت سخت تذبذب کی شکار ہیں ، کریں تو کیا کریں کہیں تو کیا کہیں ۔ مسلم مخالفت کی انتہا کر کے دیکھ لیا ، ہر طرح کے نازیبا اور ہتک آمیز بیان مسلمانوں کے خلاف دے چکے، لیکن کوئی کارگر ثابت نہیں ہو رہا ہے بلکہ پانسہ الٹاپڑ رہا ہے اور اکثریت مسلم دشمن ہونے کی بجائے ان پر ہونے والے ظلم و زیادتی پر حکومت سے اپنی خفگی کا ا ظہار کر رہے ہیں ۔ اسی تذبذب میں ایک طرف وزیر داخلہ امت شاہ کہہ رہے ہیں کہ یہ الیکشن مذہب کے تحفظ کا ہے تو دوسری جانب وزیراعظم نریندر مودی ہر دن جہاں اپنے انتخابی جلسوں میں ٹکڑے ٹکڑے گینگ ، کپڑوں سے پہچاننے والے ، گھس پیٹھیا، زیادہ بچے پیدا کرنے والوں کے ساتھ ساتھ انڈیا اتحاد جو کہ حکمت عملی کے تحت ہی مسلمانوں سے دوری بنا کر چل رہی ہے تاکہ این ڈی اے انڈیا اتحاد کو مسلمانوںکی ہمنوا کا نام نہ دے دے۔ اس کے باوجود وزیراعظم مودی نے انڈیا اتحاد کو مسلمانوں کی مُنھ بھرائی کرنے والا اتحاد ، منگل سوتر تک چھین کر مسلموں کے درمیان تقسیم کئے جانے ، کانگریس کے منشور کو مسلم لیگی منشور بتانے ، مسلمانوں کو مذہب کی بنیاد پر ریزرویشن دئے جانے ، مسلمانوں کے لئے ٹھیکے کا ٹینڈر کا کو ٹہ مقرر کئے جانے ، ہندوؤں کے پاس دو بھینس میں سے ایک بھینس چھین کر مسلمانوں کے دئے جانے ، ہندوؤں کی جائیداد میں سے مسلمانوں کو تقسیم کئے جانے جیسے نہایت سطحی قسم کے بیانات دے رہے ہیں ،جن پر ہر چہار جانب سے تنقید ہوئی کہ ایک وزیر اعظم کو ایسی نازیبا اور ناشائستہ زبان استعمال نہیں کرنی چاہئے ۔

انھوں نے ایک چینل کے انٹرویو میں یہاں تک کہہ دیا کہ’’ اگر میں ہندو مسلم کروں گا تو عوامی زندگی میں رہنے کے لائق نہیں رہ سکوں گا ۔‘‘ ہائے ا س زود پشیماں کا پشیماں ہونا۔۔۔۔۔لیکن شکست کا خوف ایسا سمایا ہے کہ ان لوگوں کو سمجھ میں نہیں آ رہا کہ اب مسلمانوں سے دوستی کا دم بھرا جائے یا ان سے نفرت ہی کیا جائے ۔ یہی وجہ رہی کہ مسلم دوستی کا دم بھرنے کے 24 گھنٹے بھی نہیں ہوئے تھے کہ مہاراشٹر کی ایک انتخابی ریلی میں بلّی تھیلے سے باہر آ گئی اور وہ گویا ہوئے کہ کانگریس ملک کے بجٹ کا پندرہ فیصد مسلمانوں پر خرچ کرنا چاہتی ہے اور یہ کہ کانگریس کے لئے بس ایک اقلیت ہے اور ان کا پسندیدہ ووٹ بینک ہے۔ ادھر ایک طرف بڑھتی عوامی مخالفت اور دوسری طرف اپوزیشن اتحاد کی کامیابیوں کی موصول ہوتی خبریں ہیں جو حکومت کی نیند اڑا چکی ہے ۔ پے در پے مختلف علاقوں سے ملنے والی خبریں ، چار مرحلوں کے انتخابات میں ووٹ فیصد کا کم ہونا ، انتخابی حلقوں سے ملنے والے منفی رجحان ، بہت تیزی سے گرتا شیئر بازار یہ سب پوری طرح سے این ڈی اے کی شکست کو یقینی بنا رہا ہے ۔ پچاس سال حکومت کرنے کا خواب چکنا چور ہوتا نظر آ رہا ہے ۔ ایک آخری امید گود لئے گئے الیکشن کمیشن کی ہے جس نے 11 دنوں بعد ووٹ فیصد کے اعداد و شمار دئے جس میں تقریباََ 6 فیصد کا اضافہ دکھا کر نہ صرف ’انڈیا‘ اتحاد کو بلکہ سپریم کورٹ کو بھی چونکنے پر مجبور کر دیا ہے۔ اس ضمن میں اے ڈی آر کی د رخواست پر سپریم کورٹ نے اپنی ناراضگی دکھاتے ہوئے الیکشن کمیشن کو صرف 48 گھنٹے کے اندر ووٹ فیصد بتانے کا حکم جاری کیا ہے ۔اس حکم نامے نے بھی بی جے پی کی پریشانی بڑھا دی ہے اور اب انھیں اپنی شکست کا یقین ہو چلا ہے۔
( کالم نگار سینئر صحافی اور معروف ادیب ہیں)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS