پنکج چترویدی
جب انتخابات کے چار مرحلے مکمل ہو گئے تو دہلی کے سینٹرل وسٹا کی تعمیر کا کام دیکھنے والے رتن وتل جیسے نوکرشاہوں کی جماعت- وزیراعظم کی اقتصادی مشاورتی کونسل نے اچانک ایک رپورٹ جاری کر دی اور ہنگامہ بپا ہو گیا، ہندوستان میں جلد ہی مسلمان اکثریت میں آ جائیں گے۔ آزاد ہندوستان میں یہ پہلی بار ہو رہا ہے کہ 2011 کے بعد مردم شماری ہی نہیں ہوئی جو کہ 2021 میں ہو جانی چاہیے تھی۔ ظاہر ہے کہ کسی بھی طرح کی آبادی کے اعداد و شمار کے تجزیے کے لیے فی الحال مستند بنیادی اعداد و شمار سال2011 والے ہی ہیں۔
2011 کی مردم شماری کے مطابق ملک کی آبادی میں مسلمانوں کا حصہ بڑھ گیا۔ 2001 میں مسلمان کل آبادی کا 13.4 فیصد تھے جو 2011 میں بڑھ کر 14.2 فیصد ہو گئے تھے۔ قابل ذکر ہے کہ اس مدت میں دراندازی سے متاثر آسام میں 2001 کے 31 فیصد مسلمانوں کے مقابلے میں 2011 میں یہ بڑھ کر 34 فیصد کو پار کرگئے تھے۔ ٹھیک یہی صورت حال مغربی بنگال میں تھی۔ وہاں مسلم آبادی 25.2 فیصد سے بڑھ کر 27 فیصد ہو گئی تھی۔ 1961 سے 2011 تک کی مردم شماری کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ان 50 برسوں کے دوران ہندوستان میں ہندوؤں کی آبادی کچھ کم ہوئی ہے جبکہ مسلمانوں کی آبادی میں کچھ اضافہ ہوا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ گزشتہ دس برسوں میں مسلم اور ہندو آبادی کا فیصد مستحکم رہا ہے۔ اگر آبادی میں اضافے کی یہی رفتار رہی تو مسلمانوں کی آبادی کو ہندوؤں کے برابر ہونے میں 3626 سال لگیں گے۔ ویسے بھی ماہر سماجیات بتا چکے ہیں کہ 2050 تک ہندوستان کی آبادی مستحکم ہو جائے گی اور اس میں مسلمانوں کا فیصد 13-14 سے زیادہ نہیں ہو گا۔ ان اعداد و شمار میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ جہاں ہندوؤں کی آبادی میں اضافے کی شرح میں کمی 3.16 فیصد ہے وہیں مسلمانوں میں اس شرح میں کمی 4.90 فیصد ہے۔ واضح ہے کہ مسلمانوں کی آبادی میں اضافہ ہونے سے رہا۔
اگر آبادی کی بات کریں تو مرکزی حکومت کی مرکزی وزارت صحت کی طرف سے کیے گئے نیشنل ہیلتھ سروے (این ایچ ایس آر) کی رپورٹ کے اعداد و شمار کو مستند مانا جا سکتا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق، ملک میں 2019-21 کے دوران ہندوؤں میں تولیدی شرح 1.94 اور مسلمانوں میں 2.36 تھی یعنی ہر ہندو خاتون کے اوسطاً 2 بچے اور مسلم خاتون کے 2 سے زیادہ بچے ہیں۔ 1992 میں مسلمانوں میں تولیدی شرح 4.4 اور ہندوؤں میں3.3 تھی۔ ویسے مجموعی طور پر ملک کی تولیدی شرح 2.3 ہو گئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر جوڑے کو اوسطاً 2.3 بچے ہوتے ہیں۔ یہ اعداد و شمار 1992-93 میں 4.4 تھے۔ یہ حقیقت ہے کہ دیگر طبقات کے مقابلے مسلمانوں میں شرح پیدائش زیادہ ہے لیکن یہ سال بہ سال کم بھی ہو رہی ہے۔ یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ دیگر طبقات کے مقابلے مسلمانوں میں شرح پیدائش سب سے زیادہ ہے لیکن اس کی اصل وجہ تعلیم اور معاشی حالت ہے اور جیسے جیسے مسلم خواتین کی تعلیمی حالت بہتر ہو رہی ہے، ان میں خاندانی منصوبہ بندی کے رجحان میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ ڈیٹا بھی صرف این ایچ ایس آر میں ہی درج ہے۔2019-21 میں ناخواندہ مسلم خواتین کم ہوکر 21.9 فیصد رہ گئیں جو2015-16 میں 32 فیصد تھیں۔ ناخواندہ خواتین میں اوسط تولیدی شرح 2.8 ہے اور 12 ویں یا اس سے زیادہ تعلیم حاصل کرنے والی خواتین میں 1.8 ہے۔ مانع حمل طریقوں کا استعمال کرنے والے مسلمانوں کی تعداد 2019-21 میں بڑھ کر 47.4 فیصد ہو گئی جو کہ 2015-16 میں 37.9فیصد تھی۔
ماہرین کے مطابق، ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان شرح پیدائش میں فرق تیزی سے کم ہو رہا ہے۔ زیادہ شرح پیدائش کے پیچھے غیر مذہبی عوامل زیادہ ذمہ دار ہیں جیسے تعلیم، روزگار، آمدنی کی سطح اور صحت کی خدمات تک رسائی۔ جن ریاستوں میں تعلیم، صحت اور خوشحالی کی سطح بہتر ہے، وہاں حالات اچھے ہیں۔ مثال کے طور پر کیرالہ میں مسلم خواتین کی تولیدی شرح 2.25 ہے جبکہ بہار میں یہ2.88 درج کی گئی ہے۔
2005 میں کی گئی تحقیق ایک نظیر ہے کہ (آر بی بھگت اور پروجیت پرہراج) اس تنازع میں کتنی حقیقت ہے اور یہ کتنا فسانہ ہے۔ اس وقت مسلمانوں میں تولیدی شرح (ایک عورت اپنی زندگی میں جتنے بچے پیدا کرتی ہے) 3.6 اور ہندوؤں میں 2.8 بچے فی عورت تھی یعنی اوسطاً ایک مسلم خاتون ایک ہندو عورت کے مقابلے زیادہ سے زیادہ ایک بچے کو اور جنم دیتی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ دس بچوں والا تخمینہ حقائق کے سامنے کہیں بھی ٹکتا نہیں ہے۔
حکومت ہند کی مردم شماری کے اعداد و شمار کا تجزیہ کریں تو معلوم ہوگا کہ 1971 سے 1981 کے دوران ہندوؤں کی شرح پیدائش میں اضافہ 0.45 فیصد تھا لیکن مسلمانوں کی شرح پیدائش میں 0.64 فیصد کی کمی درج ہوئی۔ گزشتہ20 برسوں کے دوران مسلمانوں میں خاندانی منصوبہ بندی کے لیے نسبندی کے رجحان میں تقریباً 11.5 فیصد اضافہ ہوا ہے جبکہ ہندوؤں میں یہ 10 فیصد کے آس پاس ہے۔ یہاں یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ آبادی میں اضافے کی شرح کو سماجی اور اقتصادی حالات براہ راست متاثر کرتے ہیں۔
ایک اور بات قابل غور ہے کہ بنگلہ دیش کی سرحد سے متصل مغربی بنگال کے 6، بہار کے 4 اور آسام کے دس اضلاع کی آبادی کے اعداد و شمار پر نظر ڈالیں تو پتہ چلے گا کہ گزشتہ30 برسوں میں یہاں مسلمانوں کی آبادی میں بہت تیزی سے اضافہ ہوا ہے، اتنی تیزی سے کہ وہاں کی اکثریت ہندو اب اقلیت بن گئی۔ آسام اور بنگال کے کچھ اضلاع میں تو مسلمانوں کی آبادی میں اضافہ 100 فیصد سے زیادہ ہے۔ دراصل یہ غیرقانونی غیر ملکی درانداز ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ آبادی ملک کی مردم شماری میں بھی شامل ہے اور یہ بات حکومت میں شامل سبھی لوگ جانتے ہیں کہ اس اضافے کی وجہ غیر قانونی طور پر ہمارے یہاں گھس آئے بنگلہ دیشی ہیں۔ صرف ووٹ کی سیاست اور سستی مزدوری کے لیے اس دراندازی پر پابندی نہیں لگ پا رہی ہے اور اس بڑھتی ہوئی آبادی کے لیے اس ملک کے مسلمانوں کو لعن طعن کی جا رہی ہے۔ اس آبادی سے بھی واضح ہے کہ ملک میں مسلمانوں کی آبادی میں اضافے کی سب سے زیادہ ذمہ دار ریاستیں بنگال اور آسام ہیں۔
اس بات کا بھی بہت شور ہوتا ہے کہ مسلمان خاندانی منصوبہ بندی کی مخالفت کرتے ہیں- ’بچے تو اللہ کی نعمت ہیں۔ انہیں پیدا ہونے سے روکنا اللہ کی حکم عدولی ہوتی ہے۔ یہ بات اسلام کہتا ہے اور تبھی مسلمان خوب خوب بچے پیدا کرتے ہیں۔‘ اس طرح کا تصور یا یقین ملک میں بہت سے لوگوں کو ہے اور وہ حقائق کے بہ نسبت جذباتی نعروں پر زیادہ یقین کرنے لگتے ہیں۔ ویسے تو مردم شماری کے اعداد و شمار کا تجزیہ اس بات کا ثبوت ہیں کہ مسلمانوں کی آبادی میں غیر متوقع اضافہ یا ان کی شرح پیدائش میں اضافے کی باتیں حقائق کے برعکس ہیں۔ اس کے علاوہ مسلمان صرف ہندوستان میں تو رہتے نہیں ہیں یا ہندوستان کے مسلمانوں کی ’شریعت‘ یا ’حدیث‘ الگ سے نہیں ہے۔ انڈونیشیا، عراق، ترکی، مشرقی یوروپ وغیرہ کے مسلمان نسبندی اور خاندانی منصوبہ بندی کے تمام طریقے اپناتے ہیں۔ اگر ہندوستان میں کچھ لوگ اس کے خلاف ہیں تو اس کی وجہ مذہبی نہیں بلکہ لاعلمی اور ناخواندگی ہے۔ گاوؤں میں ایسے ہندوؤں کی ایک بڑی تعداد ہے جو خاندانی منصوبہ بندی کے حق میں نہیں ہے۔
اگرچہ آج مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ اس حقیقت کو سمجھنے لگا ہے لیکن دنیا بھر میں ’’اسلامی دہشت گردی‘‘ کے نام پر کھڑے کیے گئے ہوّے نے اقلیتوں میں عدم تحفظ کا احساس پیدا کیا ہے اور اس کی وجہ سے وہ منظم ہونے پر مجبور ہیں۔ اس کا فائدہ شدت پسند جماعتیں اٹھا رہی ہیں اور اسلام کی غلط طریقے سے تشریح کرکے محدود خاندان کی تشریح سماجی اور مذہبی حالات کے برعکس کر رہی ہیں۔ یہ طے ہے کہ محدود خاندان، صحت مند خاندان اور تعلیم یافتہ خاندان کی پالیسی کو اپنائے بغیر ہندوستان میں مسلمانوں کی مجموعی حالت بہتر نہیں ہوسکتی لیکن یہ بھی یقینی ہے کہ نہ تو ہندوستان میں مسلمان کبھی اکثریت میں ہو پائیں گے اور نہ ہی اسلام محدود خاندان کی مخالفت کرتا ہے۔
انتخابات کے چوتھے مرحلے کے آتے ہی بغیر ایشو کی انتخابی مہم کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کے لیے وزیراعظم سے وابستہ لوگوں نے غیر متعلقہ طریقے سے اپنا سروے جاری کر کے الیکشن کو دوسری سمت دینے کی کوشش کی ہے۔
[email protected]