چین کی راہ اختیار کرتا پڑوسی ملک نیپال: ایم اے کنول جعفری

0

ایم اے کنول جعفری

دنیا کے کسی بھی ملک کی حکومت اگرنیا نوٹ جاری کرے تو اِس میں دوسرے ممالک کو اعتراض کرنے کا حق نہیں ہے۔ اعتراض کی صورت حال اس وقت پیدا ہوتی ہے، جب ایک ملک دوسرے ملک میں اپنی ناک داخل کرنے کی کوشش کرے۔ نیپال ایسا ہی کچھ کر رہا ہے،جس پر اعتراض ہونالازمی ہے۔نیپال کے وزیراعظم پُشپ کمل دہل پرچنڈ نے2 مئی کو کابینہ کی خصوصی میٹنگ کی قیادت کرتے ہوئے 100 روپے کے نئے نوٹ کو دوبارہ ڈیزائن کرنے اوراس پر ملک کا نیا نقشہ چھاپنے کے فیصلے پرحتمی مہر ثبت کردی۔ نقشے میں لیپو لیکھ،لمپیادھورا اور کالا پانی کو شامل کیا گیا ہے۔ یہ تینوں علاقے ہندوستان کی ملکیت ہیں۔ حکومت کی ترجمان ریکھا شرما نے کابینہ کی میٹنگ کے بعد بتایا کہ25اپریل اور2مئی کی کابینہ کی میٹنگ میں 100روپے کے نوٹ کو دوبارہ ڈیزائن کرنے کے فیصلے پر اتفاق کیا گیاتھا۔معلوم ہو کہ وزیراعظم پرچنڈ نے مارچ میں ہی نیپالی کانگریس پارٹی سے اتحاد توڑکر سی پی این-یو ایم ایل پارٹی کے ساتھ مل کر حکومت تشکیل دی۔ پارٹی کے رہنما کے پی شرما اولی کو چین کا حامی تصور کیا جاتا ہے۔نئے نوٹ پر نیا نقشہ چھاپنے جیسے ا قدامات سے دونوں ممالک کے درمیان صدیوں پرانے رشتوں میں کھٹاس آنے کے علاوہ مستقبل میں تنازعات اور ٹکراؤ کی صورت حال پیدا ہوسکتی ہے۔

دراصل،2دسمبر1815کو ایسٹ انڈیا کمپنی اور نیپال کے گورکھا را جہ کے درمیان ایک معاہدے پر دستخط کیے گئے تھے،جسے سوگولی معاہدہ کہا جاتا ہے۔ 4مارچ1816کو اس معاہدے کی توثیق کی گئی۔ سوگولی معاہدے کے تحت ہمالیائی سلطنت اور نوآبادیاتی ہندوستان کے درمیان سرحدی لائن قائم کی گئی تھی۔اس میں کالی ندی کو دونوں ممالک کے درمیان سرحد کے طور پر تسلیم کیا گیا تھا۔اس کے تحت ندی کے مغرب میں پڑنے والا علاقہ ہندوستان کا علاقہ مانا گیا،جب کہ ندی کے مشرق میں پڑنے والے علاقے کو نیپال کا علاقہ تسلیم کیا گیا۔اس کے باوجود دونوں ممالک کے درمیان کالی ندی کے ماخذ کو لے کر تنازع چلا آرہا ہے۔ہندوستان مشرقی دھارا کو کالی ندی کا ماخذ تسلیم کرتا ہے،جب کہ نیپال مغربی دھارے کوکالی ندی کا ماخذ مانتا ہے۔اسی بنا پر دونوں ممالک کالا پانی کے علاقے پر اپنا اپنا دعویٰ کر تے آرہے ہیں۔ نیپال کے ذریعہ لیپولیکھ، لمپیادھورا اور کالا پانی پر اپنی ملکیت ہونے کا دعویٰ جاری رکھتے ہوئے تب سے اب تک ملک کے نقشے میں کئی مرتبہ تبدیلی کی گئی۔ان وجوہات کی بنا پر دونوں ممالک کے درمیان سرحد کا مسئلہ آسان ہونے کے بجائے مزید پیچیدہ ہوتا گیا۔ حالاں کہ دونوں ممالک کی حکومتوں کی جانب سے سرحدی کمیشنوں کی تشکیل کی گئی،لیکن ان سے بھی مطلوبہ اور خاطرخواہ نتائج حاصل نہیںہوسکے۔ نیپال نے18جون 2020 کو ملک کا جو نیا سیاسی نقشہ جاری کیا،اُس میں کالاپانی، لمپیادھورا اورلیپو لیکھ کو نیپال کا حصہ دکھایا گیاتھا۔ اس طرح کا فیصلہ لینے کے لیے ملک کے آئین میں کئی تبدیلیاں کی گئیں۔ آئین میں ترامیم کے بعد سے یہ نقشہ سرکاری مہروں اور دستاویزات میں بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔ہندوستان کی حکومت نے نیپال کے اس قدم کو یکطرفہ قرار دیتے ہوئے اس کی مخالفت اور اپنی ناراضگی کا اظہار کیا۔ہندوستان ابھی بھی ان علاقوں کو اپنا علاقہ کہتا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان تقریباً 1850 کلومیٹر لمبی سرحد قائم ہے۔ نیپال کی یہ سرحد ہندوستان کی 5 ریاستوں سکم، مغربی بنگال، بہار، اترپردیش اور اتراکھنڈ سے ہوکر گزرتی ہے۔ہندوستان،نیپال اورچین کی سرحد سے ملے ہوئے علاقے میں ہمالیہ کے دریاؤں سے مل کر بنی ایک وادی ہے، جو نیپال اور بھارت میں بہنے والی کالی ندی کا منبع ہے۔اس وادی کو کالا پانی بھی کہا جاتا ہے۔ لیپو لیکھ درہ بھی یہیں ہے۔ یہاں سے شمال مشرق کی جانب کچھ فاصلے پر ایک اور درہ ہے،جسے لمپیادھورا کہا جاتا ہے۔ نیپالی حکومت کے ذریعہ 100روپے کے نوٹ پر نیا نقشہ پیش کرنے کی بابت ہندوستان کے وزیر خارجہ ایس جے شنکر کا کہنا ہے کہ نئے نوٹوں میں دونوں ممالک کے درمیان متنازعہ علاقے کے نقشے کو شامل کرنے کے نیپال کے یکطرفہ فیصلے سے دونوں ممالک کے درمیان کی صورت حال پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ نیپال کے اس اقدام کے باوجوداُس جگہ کی حقیقت کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ اپنی حدود کے بارے میں بھارت کا موقف بہت واضح ہے۔ نیپال کے فیصلے سے جہاں ہندوستانی حکومت کافی ناراض ہے، وہیں نیپال کی سفارت کاری اور معیشت کے ماہرین نے بھی اسے پرچنڈ حکومت کا نادانی بھرا فیصلہ قرار دیا ہے۔ چوںکہ چار برس قبل نیپال کے ذریعہ جاری کیے گئے نقشے کو عالمی سطح پر کسی طرح کی پذیرائی حاصل نہیں ہوئی تھی،اس لیے حکومت کا یہ فیصلہ صرف مقبولیت حاصل کرنے کے لیے اُٹھائے گئے قدم سے زیادہ کچھ نہیںہے۔

ستم طریفی یہ ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی نے 2022 میں لمبنی کے دورے پر وہاں کے بودھ، بھکشوؤں اور معزز لوگوں کو خطاب کرتے ہوئے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو پہاڑوں کی اُونچائی سے تشبیہ دی تھی۔ساتھ ہی ٹیکنالوجی،سائنس اور بنیادی ڈھانچے کی ترقی میں وسعت دینے کی ترجیحات کا اظہار کیا تھا۔اس دورے کے علاوہ بھی وزیراعظم نے کئی مرتبہ نیپال کا دورہ کیا اور باہمی تعلقات کو مضبوط بنانے کی حتی الامکان کوشش کی،لیکن ایسا محسوس ہوتاہے کہ نیپال کی موجودہ حکومت دونوں ممالک کے درمیان دیرینہ رشتوں کوقائم رکھنے میں سنجیدہ نہیں ہے۔ ادھر ہندوستان میں عام انتخابات چل رہے ہیں۔ 4جون 2024کو جاری ہونے والے نتائج کے بعدبرسراقتدار آنے والی نئی حکومت کے سامنے چین نواز نیپال کی سرکار سے نمٹنے کے لیے نئی حکمت عملی تیار کرنا لازمی ہوجائے گا۔ ممکن ہے کہ ہندوستان اپنے پڑوسی ملک نیپال کے ساتھ تعلقات برقرار رکھنے کے معاملے میں نرم رُخ اختیار کرنے کا فیصلہ کرے۔ سیاسی ماہرین کا خیال ہے کہ چین ہندوستان کے خلاف نیپال کو اکسانے کا کام کررہا ہے،جس سے باہمی تعلقات خراب اور آپسی رشتوں کو شدید نقصان پہنچ سکتاہے۔اگر ایسا کچھ ہوتا ہے تو نیپال چین کے ہاتھوں کی کٹھ پتلی بن کر رہ جائے گا۔نیپال میں چین کا رعب اور دبدبہ قائم ہونا ہندوستان کے لیے سودمند نہیں کہا جا سکتا۔ نیپال کی کرنسی پر نیا نقشہ چھاپنے کی کارروائی کے پیچھے سابق وزیراعظم کے پی شرما اولی کا ہاتھ ہونے سے اس لیے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ وہ پہلے بھی اسی قسم کی حرکت کر چکے ہیں۔ تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ نیپال کی حکومت کا ریموٹ کنٹرول اس وقت اولی کے ہی ہاتھ میں ہے۔اولی پوری طرح سے سرکار پر حاوی ہیں۔اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اولی کے پاس77پارلیمانی اراکین ہیں،جب کہ تعداد کے اعتبار سے پرچنڈ کے پاس صرف32اراکین موجود ہیں۔ ہندوستان کی ناگواری کے باوجود نیپال کی حکومت نے اس فیصلے کو معمول کی کارروائی بتاتے ہوئے پردہ ڈالنے کی ناکام کوشش کی ہے۔کابینہ کی وزیر اطلاعات و مواصلات ریکھا شرما کا یہ بھی کہنا ہے کہ نیپال کے راشٹریہ بینک میں پرانے نقشے والے نوٹ ختم ہوگئے ہیں،اس لیے اسے نئے نوٹ چھاپنے کی اجازت دی گئی ہے۔ ناقابل فراموش سچائی یہ بھی ہے کہ نیپال میں ہندوستان کے 500 روپے سے کم مالیت کے نوٹ تسلیم کیے جاتے ہیں،لیکن بھارت میں نیپالی نوٹوںسے کاروباری لین دین نہیںہوتا۔دوسری جانب نیپال راشٹریہ بینک کے سابق گورنر اور صدر کے مشیر چرنجیوی نیپال نے تسلیم کیا کہ حکومت کے اس فیصلے سے ان کے ملک کو بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے اور ہندوستان سرحدکے علاقوں میں 100روپے کے نوٹ کے علاوہ دیگر مالیت کے نیپالی نوٹوں پر بھی پابندی لگا سکتا ہے۔
(مضمون نگار سینئر صحافی اور اَدیب ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS