انتخابی ہنگامہ آرائیوں کے درمیان جلسے جلوس تو بہت ہو رہے ہیں۔ سیاسی جماعتیں اور ان کے قائدین ایک دوسرے پر کیچڑ اچھال رہے ہیں۔اپنے دامن کے داغ پر نظر رکھنے کے بجائے دوسروں کے گریبان چاک کیے جارہے ہیں، سینوں کے بند کھولے جارہے ہیں۔ ایک طرفہ تماشا ہے جو جاری ہے اور مزید دو ہفتوں تک جاری رہے گا۔ اس درمیان ملک کی معیشت سے متعلق کئی ایسی خبریں سامنے آئی ہیںجنہیں ’ہولناک‘کہا جاسکتا ہے۔ آج ہی آنے والی ایک خبر میں بتایا گیا ہے کہ تھوک(ہول سیل) شرح مہنگائی اپریل ماہ میں سالانہ بنیاد پر 13 ماہ کی اعلیٰ سطح 1.26 فیصد پر پہنچ گئی ہے۔ مارچ میں یہ 0.53 فیصد تھی۔ اس سے ایک روز قبل بے روزگاری سے متعلق آنے والی خبر متوحش کرچکی تھی کہ اپریل 2024 میں ملک میں 15 سال یا اس سے زیادہ عمر کے افراد میں بے روزگاری کی شرح بڑھ کر 8.1 فیصد ہوگئی ہے۔ مارچ میں یہ 7.4 فیصد تھی۔چند یوم قبل یہ خبر بھی آئی تھی کہ ہندوستان کے گھرانوں کی خالص مالی بچت میں زبردست کمی دیکھی جارہی ہے اور ان پر قرضوں میں اضافہ ہورہاہے۔مگر ان خبروں کو جان بوجھ کر عوام کی نظروں سے اوجھل رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ نہ تو نام نہاد قومی میڈیا میں ان خبروں کا ذکر ہے اور نہ سیاسی جماعتیں ہی روداد چمن سنا رہی ہیں۔ حکمراں جماعت کی خاموشی تو سمجھ میں آنے والی بات ہے لیکن آشیانوں پر بجلی گرنے کی خبر سنانے سے حزب اختلاف کے قائدین بھی گریز کررہے ہیں۔ اب وہی جانیں ان کی مصلحت کیا ہے۔
لیکن انتخابی مہم کے دوران ملکی معیشت سے متعلق تواتر کے ساتھ سامنے آنے والی خبروں کا تجزیہ بتاتا ہے کہ ہندوستان کی معیشت کو حکمرانوںنے لفظوں اور اعدادوشمار کے گورکھ دھندوں اورعوام کو دھوکہ کے جال میں پھنسا رکھا ہے۔ملک کی معیشت کا حجم ممکن ہے بڑھ رہا ہو لیکن آبادی کے تناسب سے لوگوں کی آمدنی نہیں بڑھ رہی ہے، اخراجات بڑھ رہے ہیں، قرض بڑھتے جارہے ہیں اور بچت مسلسل کم ہوتی جارہی ہے۔ دنیا کی تیسری سب سے بڑی معیشت کی دعویدار حکومت میں روزگار کا رونا بھی مسلسل رویا جارہاہے لیکن انتخابی ایام میں حکمراں یہ آہ و فغاں ان سنی کررہے ہیں۔ سی ایم آئی ای کے کنزیومر پیرامڈ ہاؤس ہولڈ سروے کے مطابق ہندوستان میں بے روزگاری کی شرح مارچ 2024 میں 7.4 فیصد سے بڑھ کر اپریل 2024 میں 8.7 فیصد ہوگئی ہے۔ افسوسناک بات تو یہ ہے کہ شہری ہندوستان کے ساتھ ساتھ بے روزگاری کی شرح میں اضافہ دیہی علاقوں کے آشیاں پر بار گراں بن کر انہیں منہدم کررہی ہے۔ دیہی ہندوستان میں بے روزگاری کی شرح مارچ میں 7.1 فیصد سے بڑھ کر اپریل میں 7.8 فیصد ہوگئی۔ اعداد و شمار کے مطابق اپریل کے مہینے میں لاکھوں افراد اپنی نوکریوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ اس میں گاؤں کے لوگ سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ادھر مرکزی وزارت تجارت نے آج جو اعدادوشمار جاری کیے ہیں، ان کے مطابق تھوک (ہول سیل) شرح مہنگائی اپریل ماہ میں سالانہ بنیاد پر 13 ماہ کی اعلیٰ سطح 1.26 فیصد پر پہنچ گئی ہے۔ مارچ میں یہ 0.53 فیصد تھی۔ اس کا نتیجہ خردہ سامانوں کی قیمت میں ہوش ربا اضافہ کی شکل میں نکلا ہے۔
ملک کی معیشت پر نگاہ رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ حکمرانوں کی ناقص پالیسی کی وجہ سے آمدنی اور روزگار کو منظم کرنے والے عوامل دھیرے دھیرے ختم ہوتے جارہے ہیں اوراسی کا نتیجہ ہے کہ قومی گھریلو بچت کی شرح میں بھی مسلسل کمی آرہی ہے۔کورونا وبا کے بعد سے ملک میں گھروں اور گاڑیوں کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ اس سے عام لوگوں کی بچت متاثر ہوئی ہے۔مالی سال 2023-24 میں گھریلو بچتوں میں مسلسل تیسرے سال کمی آئی ہے۔ اعداد و شمار اور پروگرام کے نفاذ کی وزارت نے گزشتہ دنوںقومی کھاتوں کے اعدادوشمار- 2024 جاری کیے تھے جس میں کہاگیا ہے کہ خالص گھریلو بچت میں گزشتہ تین برسوںمیں 9 لاکھ کروڑ روپے کی کمی آئی ہے۔گھریلو بچت میں کمی کی بنیادی وجہ قرض کی ادائیگی بتائی گئی ہے۔
کسی ملک کی معاشی صحت کا اندازہ اس بات سے لگایاجاتا ہے کہ اس کی قومی گھریلو بچت میں شرح اضافہ کیا ہے۔ ہندوستان کی معیشت اس پہلے ہی معیار پر کھرا اترنے میں ناکام ہوچکی ہے ،غیر منظم شعبے کی حالت، بے روزگاری کی شرح میں اضافہ،صارفین کے اخراجات کی نمومیں کمی،طلب و رسد میں توازن کا فقدان کوئی ایسا بیانیہ نہیں ہے جو ملک کے معاشی استحکام کی نوید سنا رہا ہو۔ ان حالات میں دنیا کی پانچویں یا اس سے بھی آگے بڑھ کر تیسری ، دوسری اور پہلی معیشت کاتمغہ بھی اگرسجالیا جائے تو اس سے نہ تو ترقی کی راہیں کشادہ ہیں اور نہ مہنگائی اور بے روزگاری میں کمی آنے والی ہے۔مگر افسوس تو اس بات کا ہے کہ انتخابی ہنگامہ آرائیوں کے درمیان شہریوں کے یہ انتہائی بنیادی مسائل اوجھل ہوچکے ہیں۔
[email protected]