صبیح احمد
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی(یو این جی اے) نے حال ہی میں فلسطین کو عالمی ادارہ میں شمولیت کا اہل تسلیم کرتے ہوئے مکمل رکن بننے کی اس کی کوششوں کی حمایت میں بھاری اکثریت سے ووٹ دیا ہے اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو ’اس معاملے پر مثبت طور پر پھر سے غور کرنے‘ کی سفارش کی ہے، کیونکہ رکنیت کا فیصلہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل ہی کر سکتی ہے جس میں ’ویٹو پاور‘ یافتہ 5 مستقل ارکان کا فیصلہ ہی حتمی ہوتا ہے۔ گزشتہ ماہ امریکہ نے فلسطین کی مکمل رکنیت کے لیے کی جانے والی کوششوں کو ویٹو کر دیا تھا۔ حالانکہ موجودہ قرارداد فلسطینیوں کو مکمل رکنیت نہیں دیتی، لیکن ان کو عالمی ادارہ میں شمولیت کے لیے اہل تسلیم کرتی ہے اوریہ کہ فلسطین کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں مزید شراکت اور کچھ حقوق دیتی ہے۔ فلسطین کو 2012 میں ہی اقوام متحدہ کی غیر رکن مبصر ریاست کا درجہ مل گیا تھا۔
بہرحال اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے فلسطین کو نئے ’حقوق اور مراعات‘ دینے کے لیے بڑے مارجن سے ووٹ دیا اور سلامتی کونسل سے مطالبہ کیا کہ وہ اقوام متحدہ کا 194 واں رکن بننے کے لیے فلسطین کی درخواست پر نظر ثانی کرے۔ عالمی ادارہ نے عرب اور فلسطین کی حمایت میں پیش کی گئی قرارداد کو 9 کے مقابلے 143 ووٹوں سے منظور کیا،25 ارکان غیر حاضر رہے۔ امریکہ اور اسرائیل سمیت 9 ملکوں نے قرارداد کے خلاف ووٹ دیا۔ یہ ووٹنگ اقوام متحدہ میں فلسطین کی مکمل رکنیت کے لیے وسیع عالمی حمایت کی عکاسی کرتی ہے۔ اس موقع پر بہت سے ممالک نے غزہ میں ہلاکتوں کی بڑھتی ہوئی تعداد پر غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے جنوبی شہر رفح میں ایک بڑے اسرائیلی حملے کے خدشہ کا بھی اظہار کیا جہاں تقریباً 1.3 ملین فلسطینی پناہ کی تلاش میں ہیں۔ جنرل اسمبلی کے اس فیصلے نے فلسطینیوں کے لیے بڑھتی ہوئی حمایت کا بھی مظاہرہ کیا ہے۔ اس سے قبل 27 اکتوبر کو جنرل اسمبلی کی ایک قرارداد 14 کے مقابلے 120 ووٹوں سے منظور کی گئی تھی، جس میں غزہ میں انسانی بنیادوں پر جنگ بندی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ اس دوران 45 ارکان غیر حاضررہے تھے۔ یہ قرارداد جنوبی اسرائیل میں حماس کے 7 اکتوبر کے حملے، جس میں 1200 افراد ہلاک ہوئے تھے، کے جواب میں اسرائیل کے ذریعہ اپنی فوجی کارروائی شروع کیے جانے کے صرف چند ہفتہ بعد منظور کی گئی تھی۔
حالیہ قرارداد جہاں فلسطین کو کچھ نئے حقوق اور مراعات دیتی ہے، وہیں یہ اس بات کی بھی تصدیق کرتی ہے کہ وہ اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت اور جنرل اسمبلی یا اس کی کسی بھی کانفرنس میں ووٹ دینے کے حق کے بغیر ایک غیر رکن مبصر ریاست بنی ہوئی ہے۔ لیکن اس پورے معاملے میں امریکہ کا کردار بدستور ایک معمہ بنا ہوا ہے۔ اس نے اس دوران یہ واضح کر دیا کہ وہ اقوام متحدہ میں فلسطین کی رکنیت اور مکمل ریاست کے درجہ کو اس وقت تک روکے گا جب تک کہ سیکورٹی، سرحدوں اور یروشلم کے مستقبل سمیت اہم مسائل اسرائیل کے ساتھ براہ راست مذاکرات کے ذریعہ حل نہیں ہو جاتے اور 2 ریاستی حل کی جانب پیش رفت نہیں ہو جاتی۔ امریکہ نے 18 اپریل کو وسیع پیمانے پر حمایت یافتہ کونسل کی اس قرارداد کو بھی ویٹو کر دیا تھا جس سے فلسطین کے لیے اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت کی راہ ہموار ہو جاتی۔ دراصل اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت عالمی ادارہ کے ممکنہ اراکین کو ’امن پسند‘ ہونا چاہیے اور حتمی منظوری کے لیے جنرل اسمبلی میں ان کے داخلے کی سیکورٹی کونسل کی جانب سے سفارش لازم ہے۔
فلسطینی ریاست کے مسئلہ نے کئی دہائیوں سے بین الاقوامی برادری کو پریشان کر رکھا ہے۔ 1988 میں فلسطینیوں کی مرکزی نمائندہ تنظیم فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (پی ایل او) نے سب سے پہلے فلسطینی ریاست کے قیام کا اعلان کیا تھا۔ فلسطینی ریاست کو اقوام متحدہ کے 193 رکن ممالک میں سے 139 نے تسلیم کیا ہے۔ اسرائیل فلسطینی ریاست کو تسلیم نہیں کرتا اور موجودہ اسرائیلی حکومت مغربی کنارہ اور غزہ میں فلسطینی ریاست کے قیام کی مخالفت کرتی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ایسی ریاست اسرائیل کے وجود کے لیے خطرہ ہوگی۔ امریکہ اسرائیل کے ساتھ مل کر ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی حمایت کرتا ہے جو اسرائیل-فلسطین تنازع کا نام نہاد 2 ریاستی حل ہے لیکن اس کا کہنا ہے کہ ایسی ریاست صرف فریقین کے درمیان براہ راست مذاکرات کے ذریعہ ہی ہونی چاہیے۔ گزشتہ ماہ امریکہ نے سلامتی کونسل کے 5 مستقل ارکان میں سے ایک کی حیثیت سے ویٹو کا استعمال کرتے ہوئے الجزائر کی اس قرارداد کو روک دیا تھا جس میں فلسطین کو ایک ریاست کے طور پر تسلیم کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ سلامتی کونسل کی قراردادیں قانونی طور پر پابند ہیں جبکہ جنرل اسمبلی کی قراردادوں کے معاملے میں ایسا نہیں ہے۔
ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام میں تاخیر کے علاوہ اسرائیل کی جانب سے غرب اردن میں یہودی بستیوں کی تعمیر اور ان کے گرد سیکورٹی رکاوٹوں کی تعمیر نے امن کے حصول کو مزید مشکل بنا دیا ہے۔ان کے علاوہ بھی کئی اختلافات موجود ہیں۔ اسرائیل یروشلم پر مکمل دعویٰ کرتا ہے اور اس کا دعویٰ ہے کہ یہ اس کا دارالحکومت ہے لیکن اس دعویٰ کو بین الاقوامی حمایت حاصل نہیں ہے۔ فلسطینی مشرقی یروشلم کو اپنا دارالحکومت بنانا چاہتے ہیں۔ فلسطینیوں کا مطالبہ ہے کہ ان کی مستقبل کی ریاست کی سرحدیں 1967 کی جنگ سے قبل کی حالت پر طے ہونی چاہیے لیکن اسرائیل اس مطالبہ کو تسلیم نہیں کرتا۔ اسرائیل نے 1967 کی جنگ کے بعد جن علاقوں پر قبضہ کیا، وہاں غیر قانونی بستیاں تعمیر کی گئی ہیں اور اب غرب اردن اور مشرقی یروشلم میں 5 لاکھ کے قریب یہودی بستے ہیں۔ ایک اور معاملہ فلسطینی تارکین وطن کا بھی ہے۔ پی ایل او کا دعویٰ ہے کہ اس وقت دنیا بھر میں ایک کروڑ سے زیادہ فلسطینی موجود ہیں جن میں سے نصف اقوام متحدہ کے ساتھ رجسٹرڈ ہیں۔ فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ ان افراد کو اسرائیل واپس آنے کا حق حاصل ہے جبکہ اسرائیل کا ماننا ہے کہ ایسا کرنے سے اس کی یہودی شناخت خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ ایسے میں امن کیسے قائم ہوگا؟ اس کے لیے دونوں جانب سے چند اقدامات ضروری ہوں گے۔ اسرائیل کو فلسطینیوں کی آزاد ریاست کا حق تسلیم کرنا ہو گا، غزہ پٹی کا محاصرہ ختم کرنا ہو گا اور مشرقی یروشلم اور غرب اردن میں رکاوٹیں ختم کرنی ہوں گی۔فلسطینی گروہوں کو بھی تشدد ترک کرنا ہوگا۔ اس کے علاوہ سرحدوں، یہودی بستیوں اور تارکین وطن کی واپسی کے معاملے پر بھی سمجھوتہ ضروری ہے۔
اقوام متحدہ میں فلسطینیوں کی مکمل رکنیت کے لیے نئے سرے سے دباؤ ایسے وقت میں آیا ہے جب غزہ کی جنگ نے 75 سال سے زیادہ پرانے اسرائیل-فلسطینی تنازع کو اہم مرحلے میں پہنچا دیا ہے۔ غزہ میں فلسطینیوں کو درپیش انسانی بحران اور غزہ کے محکمہ صحت کے حکام کے مطابق خطہ میں 34,000 سے زائد افراد کی ہلاکت پر سیکورٹی کونسل اور جنرل اسمبلی کے متعدد اجلاس میں کئی ممالک نے اپنے شدید غم و غصے کا اظہار کیا ہے۔ ووٹنگ سے قبل اقوام متحدہ میں فلسطینی سفیر ریاض منصور نے ایک جذباتی تقریر میں جنرل اسمبلی سے کہا کہ ’فلسطینیوں، ان کے خاندانوں، کمیونٹیوں اور مجموعی طور پر ہماری پوری قوم کو جس طرح کے نقصانات اور صدمے کا سامنا ہے، انہیں لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔‘ غزہ میں فلسطینیوں کو ’پٹی کے بالکل کنارے، زندگی کے بالکل دہانے پر دھکیل دیا گیا ہے۔‘
[email protected]