خواجہ عبدالمنتقم
دولت کی تقسیم کا مسئلہ انسانی تمدن کے ابتدائی دور سے آج تک انسانی معاشرے کے دانشوروں کی توجہ کا مرکز رہا ہے۔ آج بھی دنیا امیر اورغریب دو درجات میں بٹی ہوئی ہے مگر موجودہ دور میں ان دونوں درجات کے مابین فاصلہ بے انتہا بڑھ چکا ہے اور ایک خلیج سی پیدا ہوگئی ہے جس کے نتیجے میں ایک گروپ احساس برتری کا شکار ہے تو دوسرا گروپ احساس کمتری میں مبتلا ہے۔ ایک طرف سرمایہ دارانہ نظام ہے جس میں چند افراد پوری دولت اور اسباب معیشت پر قبضہ کیے ہوئے ہیں اور بالواسطہ یا بلاواسطہ ملک وقوم کی اقتصادی زندگی ان کے بے لگام ذہن وقلب کی تسکین کا ذریعہ بن کر رہ گئی ہے۔ ایک طرف امیر امیر تر ہوتاجارہا ہے تو دوسری جانب غریب غریب تر۔عالیشان اور فلک بوس عمارتوں کے ساتھ جھونپڑیوں،جھگیوں اور سلم علاقوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔ مہنگائی ہے کہ بڑھتی ہی جارہی ہے اور غربا کی محتاجی میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔
ہمارے آئین کے مطابق کسی بھی شعبۂ حیات میں مذہب کی بنیاد پر کسی کوبھی ریزرویشن نہیں دیا جا سکتا چونکہ ہمارا ملک ایک غیر مذہبی عوامی جمہوریہ ہے مگر کبھی کبھی ایسی باتیں اور واقعات ہمارے سامنے آتے ہیں جن سے زمینی حقیقت کچھ اور ہی اشارہ کرتی ہے۔آئیے اب اس بات پر غور کریں کہ آخر جب مسلمانوں کو ریزرویشن دینے کی بات کی جاتی ہے تو اسے مذہبی ایشو کیوں بنایا جاتا ہے۔ اگرچہ ہمارے آئین کی روسے کسی بھی زمرے کے لوگوں کو ریزرویشن دینے کے لیے مذہب کو بنیاد نہیں بنایا جاسکتا لیکن درج فہرست ذاتوں کو رعایت، تحفظ اور دیگرمراعات دینا خود اس بات کا ثبوت ہے کہ کسی نہ کسی گوشے میں مستفیدین کے مذاہب کو بھی ملحوظ خاطر رکھا گیا تھا۔ اگر ایسا نہ ہوا ہوتا تودرج فہرست ذاتوں میں مسلمانوں کو بھی شامل کیا گیا ہوتا۔ حیرت کی بات ہے کہ ہندوستان کے بہت سے شہروں میں صفائی کرمچاری کے روپ میں کام کرنے والے مسلمانوں اور مسلمان موچیوں کو درج فہرست ذاتوں میں شامل نہیں کیا گیا ہے جبکہ اُن ہندو صاحبان کو جو بالکل ویسا ہی کام کر تے ہیں تمام مراعات حاصل ہیں۔
ہمارے ملک میں تمام شہریوں کو بغیر کسی امتیاز وتفریق کے سماجی، معاشی اور سیاسی انصاف کا بنیادی حق حاصل ہے۔ جس وقت آئین ساز اسمبلی بھارت کا آئین وضع کر رہی تھی تو اُس وقت یہ بات زیر غور آئی تھی کہ کیا مسلمانوں کو ملازمت میں ریزرویشن دیا جانا چاہیے۔اس تجویز کی اسمبلی کے کچھ اراکین نے اس بنیاد پر مخالفت کی تھی کہ چونکہ دو قومی نظریے کی بنیاد پر ہندوستان کا بٹوارا ہوچکا تھا،اس لیے مذہب کی بنیاد پر ریزرویشن دینا اُس وقت کے حالات میں نہ تو مناسب تھا اور نہ ہی قرین مصلحت۔اُس وقت تمام روشن خیال قائدین و دانشوروںاور عام لوگوں کو اس بات کا یقین تھا کہ ہندوستان میں رہنے والے سبھی لوگ، خواہ اُن کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو اور وہ کوئی بھی زبان بولتے ہوں اور ملک کے کسی بھی حصہ میں بود وباش رکھتے ہوں، ملک کی ترقی اور خوشحالی میں بتدریج برابر کے شریک ہو جائیں گے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اس کی سب سے بڑی مثال ہندوستانی مسلمان ہیں جو آزادی حاصل ہونے کے بعد 7دہائیوں سے زیادہ عرصہ گزر جانے کے باوجود معاشی، تعلیمی اور سماجی اعتبار سے تاہنوز پسماندہ ہیں۔ ان کی پسماندگی کا پتہ لگانے کے لیے ولیم ہنٹر سے لے کر راجندر سچر کمیٹی تک نہ معلوم کتنے سروے ہوچکے ہیں، کتنے کمیشن بن چکے ہیں، کتنی کمیٹیاں قائم ہوچکی ہیں ، کتنی مردم شماریاں ہوچکی ہیں، مگر ان تمام رپورٹوں اور سرویز کا لب لباب یہی تھا کہ مسلمان ہر اعتبار سے پسماندہ ہیں۔ گوپال سنگھ پینل (1980)، وردھا راجن کمیٹی (پلاننگ کمیشن کے تحت ایک ذیلی گروپ)، (1996)،سچر کمیٹی (2005)اور قومی اقلیتی کمیشن ودیگر کمیشن بشمول قومی مذہبی و لسانی اقلیتی کمیشن جسے عرف عام میں جسٹس رنگناتھ مشرا کمیشن کہا جاتا ہے، کی رپورٹیں بھی اس کا دستاویزی ثبوت ہیں۔
اندر ا سا ہنی بنام یونین آف انڈیا والے معاملے (اے آئی آر1993ایس سی477)میں خود سپریم کورٹ نے اس رائے کا اظہار کیا تھا کہ کسی بھی مہذب معاشرے میں یہ ضروری ہے کہ سب کو آگے بڑھنے اور ملک کے انتظام و انصرام میں مساوی مواقع حاصل ہوں۔ریاستی اسمبلیوں اور پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں بھی مسلم ارکان کی تعداد مستقل گھٹتی جا رہی ہے۔ آئین کی دفعہ331 میں یہ التزام ہے کہ اگر اینگلو انڈین فرقہ کی لوک سبھا میں معقول نمائندگی نہ ہو تو اس کمی کو پورا کرنے کے لیے اس فرقہ کے ار کان کو لوک سبھا کے لیے نامزد کیا جا سکتا ہے۔ کیا مسلمانان ہند کے لیے کوئی ایسا التزام نہیں کیا جا سکتا؟
چونکہ ہندوستان نے دو قومی نظریہ کو نکار دیا تھا، اس لیے مذہب کی بنیاد پر نشستوں کا ریزرویشن مانگنا بظاہر اچھا نہیں معلوم ہوتا لیکن اگر تعداد اسی طرح گھٹتی رہی تو مسلمانوں کو اس قسم کے اِداروں میں اُن کی آبادی کے تناسب کے مطابق مناسب سطح پر لانے کے لیے ریزرویشن دینا اُتنا ہی ضروری ہوجائے گا جتنا آئین کی دفعہ330 وضع کرتے وقت درج فہرست ذاتوں اور قبیلوںکے لیے ضروری سمجھا گیا تھا۔کچھ انتخابی حلقوں کی ا س طرح حد بندی کردی گئی ہے یا کی جا رہی ہے کہ اُس کے نتیجہ میں مسلم نمائندوںکی تعداد مستقل گھٹتی جارہی ہے۔ مختلف فورسز کا پولرائزیشن ہونے کی وجہ سے بھی اس میں کمی آئی ہے۔ ایسی صورتِ حال سے نپٹنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ اسمبلی اور پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں مسلمانوں کو ریزرویشن دیا جائے۔ایسا دفعہ330میں ترمیم کرکے یا نئی دفعہ330 الف شامل کرکے کیا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ تمام مرکزی اور ریاستی ملازمتوں ا ور عدلیہ میں بھی ان کی نمائندگی بہت کم ہے۔
مختصر یہ کہ مسلمانانِ ہند اقتصادی، سماجی وتعلیمی تینوں اعتبار سے پسماندہ ہیں اور یقینی طور پر ہر شعبے میں ریزرویشن کے مستحق ہیں۔ وہ یہ ریزرویشن مسلمان ہونے کے ناطے نہیں مانگ رہے ہیں بلکہ شہریوں کے ایک سماجی اور تعلیمی اعتبار سے پسماندہ شہریوں کے ایک طبقے کی شکل میں مانگ رہے ہیں۔ ماہرین اقتصادیات وبشریات کی نظر میں ریزرویشن ایک Affirmative Action (ماضی میںکسی بھی طرح کے امتیاز و تفریق کا مداوا، تلافی کے لیے مثبت و ایجابی کارروائی) ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر حکومت نیک نیتی کے ساتھ کسی بھی کمیونٹی کی فلاح کی خواہاں ہو تو ہ عاملانہ احکام کے ذریعہ بھی سب کو ہر شعبۂ حیات میں مساوی مواقع فراہم کر سکتی ہے۔ اس قیاس کو کہ کسی ایک کمیونٹی کو ریزرویشن دینے سے دوسری کمیونٹی کی دولت چھین لی جائے گی فہم عامہ کی رو سے صحیح قیاس نہیں کہا جا سکتا۔ کیا درج فہرست ذاتوں و قبائل اور دیگر پسماندہ طبقات کو جو ریزرویشن دیا گیا ہے، انہوں نے کسی کی دولت چھین لی؟ یہ مانا کہ ا بھی پسماندہ مسلمانوں کو ریزرویشن کا کچھ نہ کچھ فائدہ ضرور مل رہا ہے لیکن وہ اونٹ کے منھ میں زیرے کی برابر ہے۔ کچھ لوگ مسلمانوں کو ریزرویش کی ایک جانب اس بنیاد پر مخالفت کرتے ہیں کہ اسلام میں ذات پات کا تصور ہی نہیں ہے اور انہیں اپنے مذہب پر چلنے کی دعوت دیتے ہیں تو دوسری جانب یہی لوگ مسلم عائلی قوانین کو ختم کرنے کی بات کرتے ہیں!
(مضمون نگارماہر قانون، آزاد صحافی،مصنف،سابق بیورکریٹ و بین الاقوامی ادارہ برائے انسانی حقوق سوسائٹی کے تا حیات رکن ہیں)
[email protected]