یہ کیا ہوا ؟: زین شمسی

0

زین شمسی

میں تو حیران ہوں کہ مودی جی کی زبان پر اڈانی اور امبانی کا نام اس طرح کیوں آیا کہ ملک کا سب سے بڑا صنعت کار بھی چونک پڑا۔ مودی جی نے امبانی اور اڈانی کی حمایت میں بولا یا پھر کانگریس کی مخالفت میں، یہ کہنا ذرا جلدبازی ہوگی۔ انہوں نے ایک انتخابی ریلی میں اپنی پیاری جنتا کو یہ پیغام دیا کہ اڈانی اور امبانی بوری بھر بھر کر کانگریس کو پیسہ دے رہے ہیں۔ خوب کالادھن کانگریس کے پاس جارہا ہے۔ اپنی بات کو مضبوطی سے رکھنے کے لیے انہوں نے جو دلیل دی، وہ بھی بہت دلچسپ ہے کہ آخر ایسی کون سی ڈیل ہوئی ہے کہ کانگریس اب اڈانی اور امبانی کو گالی نہیں دے رہی۔

غور کریں تو یہ بات بھی بالکل صحیح ہے کہ پوری انتخابی سرگرمیوں میں راہل گاندھی کی زبان پر بھی اڈانی اور امبانی کا نام نہیں آیا۔ شاید اس وجہ سے مودی جی کو یہ شک پیدا ہوا ہو کہ ہوسکتا ہے کہ ٹاپ صنعت کاروں کا ہاتھ کانگریس کے ہاتھ سے جاملا ہو۔ مودی جی چوں کہ بی جے پی کے سب سے بڑے مہم باز ہیں، چھوٹے چھوٹے پنچایتی چناؤ میں بھی وہ اپنا ہیلی کاپٹر اتارنا نہیں بھولتے ہیں، خوب جانتے ہیں کہ الیکشن پیسوں کا کھیل ہے، اشتہارات کا نام ہے۔ اور اب تو گھر گھر موبائل کے ذریعہ اشتہارات آسانی سے پہچائے جاتے ہیں اور اس میں کئی ایجنسیاں شامل ہیں اور یہ بغیر پیسوں کے ناممکن ہے۔ یوں بھی بھارت کی تقدیر بڑے بڑے صنعت کار ہی لکھتے ہیں۔ پہلے ٹاٹا، برلا اور گوئنکا کا نام اچھلتا تھا اور اب اڈانی اور امبانی کا۔ مودی جی کو شاید اس بات کا احساس ہورہا ہو کہ بڑے بڑے صنعت کار گھرانے اپنا قبلہ بدلنے والے ہیں اور یہ احساس انہیں کانٹوں کی طرح چبھ رہا ہو اور اس لیے انہوں نے اس کا تذکرہ کسی پبلک ریلی میں کردیا۔

مودی حکومت کو تاجروں کی حکومت کہا جاتا ہے۔ الیکٹورل بانڈ کے بعد تو یہ واضح ہوگیا کہ ملک کی ترقی کا راز اس سرگرمی میں چھپا ہے صنعت کار پارٹی کو پیسہ دیں اور ملک کے کسی کونے میں بھی صنعت کاری کریں۔ بس دھیان یہ رکھنا ہے کہ پروفٹ سے پہلے اور پروفٹ کے بعد کا کمیشن سرکار کو پہنچتا رہے۔ الیکشن میں پیسے کی اہمیت کا کامیاب تجربہ مودی جی نے ’’نوٹ بندی‘‘ کی شکل میں پہلے سے ہی کرلیا ہے کہ الیکشن سے قبل اپوزیشن کے پاس الیکشن لڑنے کے پیسے بھی باقی نہ بچے تھے۔ اترپردیش میں یوگی سرکار کی تاجپوشی ’’نوٹ بندی‘‘ کا ہی کارنامہ ہے۔ اور اب شاید مودی جی کو یہ احساس ہورہا ہوگا یا پھر ان کے خفیہ سراغ رساں نے ایسی رپورٹ دی ہوگی کہ امبانی، اڈانی اب کانگریس کے طرفدار ہورہے ہیں۔ ٹی وی میڈیا کا لہجہ بھی تھوڑا نرم ہوچکا ہے، خاص کر زی ٹی وی کی کئی رپورٹس تو یہ بھی بتاتی ہیں کہ وہ حکومت ہند کے کارنامے سے خفا ہیں۔ الیکشن میں بدلتی رت اور ہندو-مسلم کا پرانا راگ پھیکا پڑتے ہی وزیراعظم ہند کو اپنا تخت پلٹتا ہوا نظر آرہا ہے، ورنہ جنہوں نے انہیں بنایا یا جنہیں انہوں نے بنایا، دونوں مودی جی کا کمل تھامنے پر ہی اکتفا نہیں کریں گے، بلکہ کانگریس کو متبادل کے طور پر استعمال کریں گے۔ مودی کی حکومت تین چیزوں پر ہی چل رہی ہے، ایک تو صنعت کاروں کی مہربانی، دوسری میڈیا کی مہمان نوازی اور تیسرے ہندو-مسلم اختلاف کی سرگرمی۔ اب شاید تینوں ایجنڈے طشت ازبام ہوچکے ہیں، اس لیے مودی جی کی زبان ان تینوں کے حشر کو دیکھ کر پھسل رہی ہے۔

لوگ کہتے ہیں کہ الیکشن پلٹ گیا ہے۔ تین مرحلوں کی ووٹنگ فیصد کا تناسب اتنا قلیل رہا ہے کہ عوام میں ایک تصور بیٹھ گیا کہ ووٹ دیں یا نہ دیں ’’آئے گا تو مودی ہی‘‘، مگر یہاں ایک بات اور ذہن نشیں ہونی چاہیے کہ ووٹ کا تناسب کم ہونے سے برسراقتدار پارٹی کا ہی نقصان ہوتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ اسی نقصان کو پرکھ کر مودی جی کی بوکھلاہٹ سامنے آئی ہو۔

پیسہ اور الیکشن کا چولی دامن کا ساتھ رہا ہے۔ پیسہ کسی بھی بازی کو پلٹنے کی طاقت رکھتا ہے۔ بڑے سے بڑے دانشوران اور چھوٹے سے چھوٹے مزدور کسان بھی پیسہ کی خوشبو سے اپنا توازن کھودیتے ہیں۔ یہاں ووٹ دیا نہیں جاتا، بیچا جاتا ہے، خواہ وہ پیسہ کے زور پر ہو یا ذہنی استحصال کے ذریعہ۔ رہا سوال ذہنی استحصال کا تو اب یہ نسخہ بھی کام نہیں آرہا ہے کیوں کہ 10سال جن لوگوں نے جھنڈا اُٹھایا، انہیں بھی اب صرف ڈنڈا ہی مل رہا ہے، نوکری نہیں مل پارہی ہے۔ مسلمانوں کا گھر دکھا دکھا کر جنہیں اپنا ووٹر بنایا گیا، ان کے اپنے گھر بھی ٹوٹ رہے ہیں اور مسلمان بھی قائم و دائم ہیں تو ان لوگوں کی اندھ بھکتی بھی آہستہ آہستہ ختم ہوتی جارہی ہے۔ لوگوں کو اپنا مستقبل تاریک دکھائی دے رہا ہے۔
(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS