علی خان محمودآباد
بی جے پی کے بڑے بڑے گُروگھنٹال اور رہنما متعصب، متشدد اور اشتعال انگیز تقریروں کے ذریعے یہ پیغام دینا چاہ رہے ہیں کہ ہندوستان کی غیر مسلم آبادی خطرے میں ہے۔کہیں مسلمان کو گھس پیٹھیا(درانداز) کہا جارہا ہے تو کہیں یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ مسلمانوں کی آبادی اتنی تیزی سے بڑھ رہی ہے کہ غیر مسلم اقلیت بن کر رہ جائیں گے۔ اگر چہ نادانی اور حماقت کی وجہ سے ایک نکڑ سبھا میں کوئی ووٹوں کے جہاد کی بات کر رہا ہے تو اس ہی اصطلاح کو استعمال کر کے بی جے پی کے نیتا چیخ چیخ کر عوام کو ڈرا رہے ہیں کہ مسلمان حزب مخالف کے ذریعے غیرمسلموں کی جائیداد، مال حتیٰ کہ زیورات پر قابض ہوجائیں گے۔ کہیں شریعت کے نفاذ کا ڈر پیدا کیا جارہا ہے تو کہیں مسلمانوں کو خونخوار لٹیروں اور قاتلوں کی اولاد کہا جا رہا ہے۔ اگر مٹن کھانے والوں کو مغلئی ذہنیت رکھنے والے لوگ کہا جا رہا ہے تو کہیں یہ کہا جا رہا ہے کہ غیر مسلمانوں سے جزیہ وصولا جائے گا۔ ان تمام باتوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے راجستھان میں بی جے پی کے اقلیتی رکن عثمان غنی پارٹی سے استعفیٰ دینے پر مجبور ہو گئے۔ مذکورہ تمام باتوں کا لوگوں نے مختلف طرح سے تجزیہ کیا ہے۔کوئی کہتا ہے کہ بی جے پی ڈر گئی ہے تو کوئی کہتا ہے کہ یہ سب اس لیے کہا جا رہا ہے کیونکہ اب بی جے پی کے پاس کوئی مثبت مدعا نہیں رہ گیا ہے۔ شاید ان باتوں میں کچھ سچائی ہو لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ ایسی باتیں ان دس برسوں میں اب پہلی بار نہیں ہو رہی ہیں۔ ہاں گزشتہ انتخابات میں اتنا کھل کے نہیں کہا گیا تھا لیکن تب بھی شمشان اور قبرستان کی بات کی گئی تھی۔ انتخابات کے علاوہ بھی سادے دنوں میں کیا کیا نہیں کہا گیا، ہری دوار سے مسلمانوں کے قتل عام کی آواز اٹھی، کسی نے غداروں کو گولی مارنے کو کہا، کسی نے اپنے پارلیمانی ساتھی کو دہشت گرد کہا، کسی نے کپڑوں کے ذریعے پہچاننے کی بات کی، کہیں غریب پسماندہ مسلمان کو گھیرا گیا اور بھیڑ نے اس کو قتل کر دیا، کہیں قانونی کارروائی سے قبل بلڈوزر چلا کر عمارتیں گِرا دی گئیں، کہیں حجاب پر پابندی لگی، اگر یکساں سول کوڈ کے نفاذ کی بات کی گئی تو یہ بھی کہا گیا کہ اوقاف ختم کر دینا چاہیے۔
اس مدت میں کچھ خودغرض مسلمانوں نے ان تمام باتوں کو مصلحتاً نظرانداز کر کے لوگوں سے کہا کہ بی جے پی بدل گئی ہے اور کچھ افراد نے حقیقت پسندی کا پردہ کرکے کہا کہ اب بی جے پی ہی مسلمان کی فلاح و بہبود کے کام کرسکتی ہے۔ البتہ داد تو ہم مسلمانوں کو دیتے ہیں کہ باوجود اِن تمام اشتعال انگیز باتوں کے، اُنہوں نے نفرت کا مقابلہ خاموشی اور حکمت سے کیا۔ شاید اس ہی لیے روز بروز بی جے پی کے جملے مزید متعصبانہ ہوتے جارہے ہیں تاکہ کسی بھی طرح ایکشن کا ری ایکشن ہوجائے اور بر سر اقتدار حضرات کو مزید ظلم و سختی کرنے کا بہانہ مل جائے۔
ان تمام باتوں کا ایک اور عجیب و غریب نتیجہ یہ ہے کہ بی جے پی ہی کی وجہ سے مسلمانوں کا ووٹ یکجا ہوتا جا رہا ہے جب کہ اُن کا کہنا ہے کہ حزب مخالف ووٹ بینک کی سیاست کرتا ہے۔لیکن آپ اگر آزادی سے قبل اور آزادی کے بعد کے انتخابات کا تجزیہ کیجیے گا تو واضح یہ ہوگا کہ مسلمانوں نے کبھی ایک ہو کر ووٹ نہیں دیا۔ حد تو یہ ہے کہ 1937کے انتخابات میں مسلم لیگ کئی ایسی سیٹوں سے بھی ہار گئی جو مسلمانوں کے لیے محفوظ کی گئی تھیں۔ آزادی کے بعد کانگریس کو ووٹ اس لیے ملتا رہا کیونکہ کوئی دیگر قومی پارٹی نہیں تھی،اس کے بعد منڈل کمیشن کی وجہ سے اور کانگریس سے خفگی کی وجہ سے مسلمانوں نے علاقائی پارٹیوں کو ووٹ دیا۔ حد تو یہ ہے کہ2019میں بھی بنگال کی شمال مالدا جیسی سیٹ سے بی جے پی جیتی جبکہ وہاں45فیصد سے زیادہ مسلمانوں کی آبادی ہے۔ یہ اس لیے ہوا کیونکہ ٹی ایم سی اور کانگریس دونوں نے اپنا نمائندہ کھڑا کیا،لیکن اب بی جے پی مسلمانوں کو یکجا کر رہی ہے۔ ظاہر ہے کہ آج بھی کچھ مفاد پرست لوگ خود کو محفوظ کرنے کے لیے بی جے پی کی پیروی کر رہے ہیں لیکن اِن میں سے بھی بیشتر لوگ خاموش ہونے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ آپ انصاف سے بتائیے کہ ایسی مشتعل باتوں کا دفاع کون شخص کر سکتا ہے جس کے دل میں ذرہ برابر بھی غیرت ہو گی۔
انتخابات تو آئیں گے اور شاید اس بار اگر بی جے پی جیت گئی تو چلے ہی جائیں گے لیکن موجودہ حالات اور خاص کر معاشرہ میں دوریاں اور نفرتیں تب بھی ختم نہیں ہوں گی، اگر بی جے پی ہار بھی گئی۔ یہ آلودہ ماحول اور ایسی زہریلی سیاست اب فقط سیاسی مسئلہ نہیں ہے بلکہ ایک سماجی مشکل ہے۔ فرض کیجیے اگر کل بی جے پی ہار بھی جاتی ہے تو ہندوستان کے تمام اداروں میں ان کے منتخب شدہ نظریاتی حمایتی باقی رہیں گے، چاہے انتظامیہ ہو یا پولیس یا دیگر ادارے، لہٰذا اگر ہندوستان میں تنوع اور بھائی چارے کو برقرار رکھنا ہے تو پھر دلوں کے جوڑنے کا کام فقط معاشرہ اور سماج میں ہو سکتا ہے، سیاست میں نہیں۔اگر بیسویں صدی کی تاریخ کا تجزیہ کیا جائے تو معلوم یہ ہو گا کہ سب سے قدآور لیڈر سیاستداں نہیں بلکہ سماجی لیڈر تھے۔جہاں تک ہندوستان کا تعلق ہے سر فہرست گاندھی جی کا نام ہے جو باقاعدہ سیاست میں نہیں شریک ہوئے لیکن جو سیاسی ماحول اور سرگرمیوں پر اثر رکھتے تھے۔ آج ہم کو گاندھی، نیلسن منڈیلا اور مارٹن لوتھر کنگ کی ضرورت ہے۔مسلمانوں کو خاص کر اخلاقی لیڈروں کی ضرورت ہے جو سیاست سے باہر رہ کر سیاست پر اثر رکھ سکیں اور موجودہ ماحول میں ایک ایسی قیادت قائم کر سکیں جو کشتی کو ثابت و سالم بھی رکھ سکے، جو قوم کو محفوظ و متحد کر سکیں اور جو چند درہموں کے لیے اپنے ضمیروں کا سودا نہ کریں۔
[email protected]