ڈاکٹر سید احمد قادری
اقتدار کا نشہ ایسا نشہ ہے جو مشکل سے ہضم ہوپا تا ہے یا پھرکم ہی لوگ اقتدار اور حکمرانی کے دوران اعتدال کے ساتھ وقت اور حالات کے تقاضوں کو سمجھتے ہیں ۔ یہ اقتدار کا نشہ ہی ہے جو کچھ لوگوں کو ضرورت سے زیادہ خوش فہمی یا احساس برتری میںکر دیتا ہے اور وہ خود کو ناقابل تسخیر سمجھنے لگتے ہیں ۔
ہندوستان میں اس بار کوئی پہلی بار عام انتخابات نہیں ہو رہے ہیں ۔اس سے قبل 17 بار ملک کے اندر لوک سبھا کے انتخابات ہو چکے ہیں، لیکن اس بار جس طرح کا منظر نامہ سامنے ہے شاید ایسا کم ہی دیکھنے کو ملا ہے ۔ اس بار کا انتخاب کُل سات مرحلوں میں ہونا ہے ۔ جن میں دو مرحلے طے ہو چکے ہیں اور پانچ مراحل باقی ہیں ۔ انتخابات کے قبل سے ہی 370 اور 400 کے پار کا نعرہ شروع ہو گیا تھا ۔370 کے نعرہ کے پیچھے دراصل نفسیاتی اور پولرائزیشن کے لئے استعمال کیا گیا ہے کہ دیکھو کشمیر سے ہم نے ( سارے قوانین اور اصولوں کو طاق پر رکھتے ہوئے) 370 کے تحت کشمیری مسلمانوں کو ملنے والی مراعات اور سہولیات کو ختم کر کے کشمیری مسلمانوں کو بے دست و پا کر دیا ہے۔ کسی حکومت نے ایسا کرنے کی ہمت نہیں کی تھی ۔اس لئے ملک کے ووٹرس بی جے پی کو 370 سیٹوں اور بی جے پی کی حلیف پارٹیاں اس ہندسہ کو بڑھا کر 400 پار کریں ۔ یہ بھی عجیب خوف ہی ہے کہ جس 370 کی دہائی دی جا رہی ہے اس کشمیر میں الیکشن لڑنے کی حکومت ہمت نہیں کر سکی اور وہاں کی تینوں سیٹوں سے بھاگ کھڑی ہوئی۔ 370 اور 400 کا یہ نعرہ اتنی شدّت سے ہورڈنگوں ، بینروں ، ریڈیو، ٹی وی کے مختلف چینلوں ، سوشل میڈیا اور گودی میڈیاوغیرہ میں دیکھا اور سنا گیا کہ لوگوں کو ایسا لگا کہ 400 پار کا یہ ہدف مودی ہے تو ممکن ہے ۔ اس لئے کہ گزشتہ دو انتخابات میں جس طرح مودی کا کرشمہ دیکھنے کو ملا ،ایسا ہی کرشمہ اس بار بھی یعنی 2024 ء میں بھی دیکھنے کو ملے گا اور 400 کے پار نہیں تو کم از کم 400 کے آس پاس ہو سکتا ہے ۔ اس ہدف کو پانے کے لئے ملک کے کروڑوں روپئے پانی کی طرح بہا کر رام مندر کو ( آدھی اھوری)تعمیر کر کے مودی نے ووٹ حاصل کرنے کے لئے مودی کے مطابق پانچ سوسال سے جو خواب ادھورا تھا ، اسے پورا کیا اور رام کولاکر اس میں روح پھونکی ۔ ایسے میں اس حکومت کو اس کا صلہ تو ملنا ہی چاہئے تھا ۔ اس کے ساتھ ہی حزب مخالف کے سرکردہ لیڈروں یہاں تک وزیر اعلیٰ اور نائب وزیر اعلیٰ تک کو پہلے ای ڈی ، سی بی آئی اور انکم ٹیکس وغیرہ سے ڈرانے دھمکانے ،اورجو نہیں ڈرے انھیں خریدنے کی کوشش کی گئی کہ ہم سے مقابلہ کرنے کی ضد چھوڑ دو ، این ڈی اے کے مقابل کھڑاہونے والے اتحاد ’انڈیا‘ میں شامل ہو کر اسے مضبوط نہ کرو ۔لیکن اس کے باوجود حزب مخالف کے کئی لیڈران جھانسے میں نہیں آئے اور ان لوگوں نے جیل کی صعوبتوں کو ترجیح دی اور وہ اب بھی جیل کی سلاخوں کے پیچھے ملک کی سا لمیت ، آئین و جمہوریت کی حفاظت کیلئے پڑے ہوئے ہیں ۔ ’انڈیا‘ اتحاد کے سرکردہ لیڈر نتیش کمار کو اپنے پالے میں کرنے میں مودی ضرور کامیاب ہو گئے ۔اتنا ہی نہیں بلکہ کانگریس کے کئی رہنماؤں کو بھی خوف و دہشت میں مبتلا کرکے انھیں اپنی پارٹی میں شامل کیا گیا،لیکن مودی حکومت کی یہ خوش فہمی ہی رہی کہ وہ کانگریس کے نوجوان لیڈر راہل گاندھی جنہوںنے کنیا کماری سے کشمیر تک نیائے یاترا کے بعد ان کی اور کانگریس کی بڑھتی مقبولیت کو جس طرح حکومت کی اشارے پر گودی میڈیا کے ذریعہ حقیر و ہیچ بتا نے کی منظم کوششیں کی گئیں ۔ ان سب حالات کے باوجود ا س بار کے انتخابات میں سیاسی پنڈتوں کے ساتھ ساتھ عوامی طور پر بھی ایسا مانا جا رہا ہے کہ مودی کسی طرح حکومت بنائیںگے، مگراس بار جہاں بی جے پی اور مودی کمزور ہوںگے، وہیں کانگریس اور کئی ریجنل پارٹیوں کی پوزیشن مضبوط ہوگی ۔
کہا جاتا ہے کہ گناہ کا گھڑا جب بھر جاتا ہے تو چھلکنے لگتا ہے یا پھر ضرورت سے زیادہ خوش فہمی لے ڈوبتی ہے اور شاید مودی کے ساتھ یہی ہوا ۔ پے در پے حالات مودی حکومت کے خلاف سامنے آنے لگے ۔ ساتھ ہی ساتھ دیکھا جائے تو مودی اور ان کی حکومت نے برسر اقتدار آنے کے بعددس برس کا عرصہ گزر جانے کے باوجود ایسا کوئی بڑا عوامی وفلاحی کا کام انجام نہیں دیا ، جن پر وہ ناز کرتے ہوئے ملک کے عوام کے سامنے جا کر اپنی حصولیابیوں کو بتاتے۔ غربت، افلاس،بھوک ،بے روزگاری، مہنگائی، صحت، تعلیم، تحفظ، رواداری، بدعنوانی، ذخیرہ اندوزی، صنعتی و تجارتی انجماد، اقتصادی مساوات، سماجی انصاف، جمہوری قدروں کی حرمت اور آئین و دستور کی اہمیت کو اس حکومت نے سمجھنے اور ان کے تدارک کی کبھی کوئی کوششیں نہیں کی ۔ ہمیشہ ان لوگوں نے بس ملک میں منافرت پھیلا کر ہندو مسلم کے درمیان خلیج پیدا کر کے ملک کی گنگا جمنی تہذیب کو ختم کرنے کی کوششیں کی ہیں ۔ عوامی اور بنیادی مسئلے حاشیہ پر ڈال دئے گئے کیونکہ انھیں اپنی منافرت اور فرقہ واریت پر زیادہ یقین ہے۔ مسئلہ رہا تو بس یہ کہ کیسے ظلم وستم ، بربریت ، تشدد، خوف و سراسیمگی پھیلا کر ـ ’ ہندوتوا‘ کے اپنے نظریہ اور ایجنڈے کو نافذ کیا جائے ۔ غریبوں ، مفلسوں ، کسانوں، دلتوں اور اقلیتوںپر کبھی کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ انسانی ہمدردی سے بے نیازاس حکومت کا عالم یہ ہے کہ تغزیہ سے مرنے والے بچوں کی تعداد دن بہ دن بڑھتی جا رہی ہے اور ملک اربوں روپے کے قرض میں ڈوبا ہوا ہے ، غربت کا یہ عالم ہے کہ ملک کی آدھی سے زیادہ آبادی کو ہر ماہ پانچ کلو اناج دے کر ان کی بھوک مٹانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں ، ڈالر کے مقابلے مسلسل روپئے کی قیمت گرتی جا رہی ہے۔ لیکن ان مسئلوں پر حکومت کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی ہے ۔ٹھیک الیکشن سے پہلے جس طرح عدالت عظمیٰ کی کوششوں سے انتخابی بونڈزکا معاملہ اجاگر ہو اہے۔ اس نے عالمی سطح پر حکومت کے ذریعہ ہونے والے گھوٹالے کا پردہ فاش کر دیا ہے۔ اتنا بڑا گھوٹالہ حکومت کے ذریعہ کیا گیا جسے دنیا کا سب سے بڑا گھوٹالہ کہا جا رہا ہے اور جسے حکومت کے ذریعہ ہفتہ وصولی کا نام دیا جا رہا ہے ۔ واضح رہے کہ ابھی پی ایم کئیر فنڈ کے گھوٹا لے کا اجاگر ہونا باقی ہے ۔ اس بڑے عالمی پیمانہ کے گھوٹالہ کے بعد مودی کی بد نصیبی دیکھئے کہ جس کورونا وبا کے درمیان کووی شیلڈ ویکسن ہر حال میں لوگوں کو لئے جانے پر زور تھا اور ویکسن لینے والوں کو جاری سرٹیفکیٹ پر بڑے فخر سے اپنی تصویرشائع کر رہے تھے اس ویکسن کے سلسلے میںآنے والی خبر نے نہ صرف چونکا دیا ہے بلکہ لوگوں کو حیران کر دیا ہے کہ اس ویکسن کو لینے والوں میں ہارٹ اٹیک ، شریانوں میں خون جمنے ، پلیٹ لیٹ کم ہونے وغیرہ جیسی بیماریوں کا خطرہ بڑھ گیاہے ۔ کووی شیلڈ سے نقصانات کی باتیں لوگوں کے درمیان چرچہ میں پہلے ہی سے تھیں اور لوگ تشویش کا اظہار کر رہے تھے، لیکن اب جب کہ عالمی سطح پر یہ بات سامنے آ گئی ہے تو لوگوں کا مودی حکومت پر غصہ فطری اور واجب ہے ۔ اسی خوف کا یہ نتیجہ ہے کہ ویکسن لینے والوں کے سرٹیفکیٹس سے مودی نے اپنی تصویر ہٹا دی ہے ۔ لیکن لوگوں کا غصہ بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ مودی کی ناعاقبت اندیشی اور ضرورت سے زیادہ خوش فہمی کی وجہ سے ملک کے کروڑوں لوگ مختلف طرح کی بیماریوں میںمبتلا ہو چکے اور ہو رہے ہیں ۔ کئی جگہوں سے اموات کی بھی خبریں بھی موصول ہو رہی ہیں ۔ میں خود ہی کوی شیلڈ ویکسن لینے کے بعد پلیٹ لیٹس کی کمی اور دیگر کئی طرح کی طبّی پریشانیوں میں مبتلا ہوں ۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ کووی شیلڈ بنانے والی کمپنی سے بھی مودی حکومت انتخابی بونڈ کے نام پر کئی کروڑ چندہ لے چکی ہے، ساتھ ہی ساتھ دیگر کئی دوا بنانے والی کمپنیوں سے بھی بڑے پیمانے پر چندہ وصولا گیا ہے ، جس کے بعد ہی دواؤں کی قیمت آسمان چھو رہی ہے ۔
اس وقت بھارت کا سیاسی منظر نامہ بہت تیزی سے بدل رہا ہے، خاص طور پر سپریم کورٹ کے دو ایک فیصلوں نے ملک کے سیاسی منظر نامہ کو بدل دیا ہے اور مودی حکومت بری طرح بیک فٹ پرآ گئی ہے۔ اب جبکہ لوک سبھا انتخابات کے دو مرحلہ میں جس طرح کم پولنگ ہوئی ہے اور اس کے بعد102 پارلیمانی سیٹوں کے جو رجحان سامنے آرہے ہیں، ان رجحانات نے بی جے پی کی نیند اڑا دی ہے ۔ ایسے حالات میں مودی کی چھٹپٹاہٹ اور بے چینی کابڑھ جانا فطری ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ مرکزی حکومت تقریباََ ہر محاذ پر بری طرح ناکام ہے ۔اب بس نیا پار کرانے کے لئے ہندو ، مسلمان ، قبرستان ، شمشان ، مسجد ، مندر ، منگل سوتر ، گائے ، بھینس ، گھس پیٹھئے ، زیادہ بچے پیدا کرنے والے جیسے بے تکے اور جھوٹ و فریب سے بھرے جملوں کا ضروری ہوگیاہے،تبھی انہیں کامیابی مل سکتی ہے۔ لیکن افسوس کہ ان سب سے ملک کے عوام اس قدر اوب چکے ہیں اور ان کے جھوٹ ، فریب اور سبز باغ کی قلعی پوری طرح کھل گئی ہے، اس لئے اب کوئی ان کے جھانسے میں نہیں آنے والا ، جس کے باعث مودی زبردست ٹینشن میں ہیں ’ بک رہا ہوں ، جنوں میں ۔۔۔۔۔ والی کیفیت ہو گئی ہے ۔ ان حالات میں اگر سہارا ہے تو بس الیکشن کمیشن کا ، جسے انھوں نے سپریم کورٹ کے مشورہ کے باوجود گود لیا ہوا ہے ۔qtm
( کالم نگار سینئر صحافی اور معروف ادیب ہیں)
[email protected]