ڈاکٹر سیّد احمد قادری
مرکز میں حکومت سازی کے لئے ہونے والے 18 ویں لوک سبھا کا انتخاب کا پہلا مرحلہ طے ہو چکا ہے اب بقیہ 6 مراحل باقی ہیں اور جس طرح پہلے مرحلہ میں سیکولرازم پر یقین رکھنے والے اور ملک کے آئین و جمہوریت کی بقا کے لئے رائے دہندگان نے حق رائے دہی کا زبردست مظاہرہ کیا ہے، توقع ہے کہ وہ اس سے کہیں زیادہ بقیہ 6 مراحل میں ہوش اورجوش و خروش کا مظاہرہ کریں گے۔ ملک کے مسلمانوں کے لئے تو یہ انتخاب نہ صرف آئین و جمہوریت کے تحفظ بلکہ خود اپنے تحفظ اور اپنے تشخص کی بقا ٔ کا مسئلہ ہے۔اس لئے اس بار ملک کے مسلمان یقینی طور پر اپنی سیاسی شعور و فہم و فراست کا مظاہرہ کرتے ہوئے کسی کی بھی جذباتی تقاریر اور سیاسی ہتھکنڈوں کا شکار نہیں ہوںگے اور ہر اس سیکولر امیدوار کو کامیاب بنائیں گے جو بی جے پی یا اس کے حلیف پارٹی کے امیدوار کو شکست فاش دینے کا اہل ہو ۔ ملک کے مسلمان بلا شبہ آج بھی اس پوزیشن میں ہیں کہ وہ اگر متحد ہوکر کسی ایک سیکولر امیدوار کو یکمشت ووٹ دے دیں تو اس کی کامیابی یقینی ہے ۔ بس دشمنوں اور دوست نما دشمن کی شاطرانہ چال کو سمجھنے اور اس سے بچنے کی ضرورت ہے۔کئی انتخابی حلقوں میں جہاں مسلمانوں کی فیصلہ کن تعداد ہے وہاں سے کئی مسلم امیدوار دانستہ طور پر یا سازش کے تحت کھڑے کر دئے جاتے ہیں تاکہ مسلمانوں کا ووٹ بکھر جائے اور متعصب و فرقہ پرست امیدوار کامیاب ہو جائے۔ ان حالات میں دشمنوں اور دوست نما ایسے دشمنوں کی ایسی ہی شاطرانہ چال کو اس بار سمجھنے کی سخت ضروت ہے ۔ ا س لئے بھی کہ اس بار کا یہ انتخاب کئی لحاظ سے نہ صرف بہت اہم ہے بلکہ اس انتخاب میں اگر ایک بار پھر فرقہ پرست اور ہندوتوا کے ایجنڈے کو نافذ کرنے والے کامیاب ہو تے ہیں تو پھر جیسا کہ پورے ملک کے دانشوران اور سیاسی تجزیہ کار بتا رہے ہیں کہ یہ ملک کا آخری انتخاب ہو سکتا ہے ۔
ایسے حالات میں ملک کے ہر فرد کے لئے یہ لازمی ہے کہ وہ ملک کی سا لمیت کے لئے نیز خود کے تحفظ کے لئے بہت سنجیدگی سے فکر کرے ۔ یہ فکر مندی ملک کے لوگوں کے ساتھ ساتھ بیرون ممالک کے دانشوروں اور سیاسی مبصرین کو بھی ستا رہی ہے ۔ جرمنی، امریکہ اور اقوام متحدہ موجودہ حکومت کے انتخابی طرز عمل پر مسلسل تنقید کر رہا ہے اور اس امر کا اظہار کر رہا ہے کہ جمہوریت میں حزب اختلاف کے ساتھ کیسا سلوک ہونا چاہئے ۔ بھارت کو جہاں جمہوریت کی ماں کہا جاتا ہے وہیں یہاں جمہوریت کی پامالی عام ہے ۔
امریکہ ، جرمنی اور اقوامتحدہ نے تو بھارت کے اقلیتوں کے حقوق کی پامالی پر اپنی تشویش کا ا ظہار کرتے ہوئے یہاں تک کہا ہے کہ مذہبی آزادی کا احترام اور قانون کے تحت تمام شہریوں کے ساتھ مساویانہ سلوک کیا جانا جمہوریت کے بنیادی اصول ہیں۔ افسوس اس بات کی ہے کہ ا س ملک کے موجودہ حکمراں کو ناقص جمہوریت کا ذمّہ دار ہونے کے ساتھ ساتھ تانا شاہ تک بتایا گیا ہے ۔ اقوام متحدہ کے ایک ترجمان نے تو یہاں تک کہا ہے کہ اس انتخاب میں توقع ہے کہ لوگوں کے سیاسی اور شہری حقوق کا تحفظ کیا جائے گا اور اس بات کو بھی یقینی بنایا جائے گا کہ ہر کوئی آزادانہ اور منصفانہ ماحول میں ووٹ ڈال سکے۔ اقوام متحدہ کے ترجمان کے اس بیان پر وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے مسترد کرتے اور اپنی خفگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اقوام متحدہ کو یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ ملک میں انتخابات کیسے آزادانہ اور منصفانہ ہونے چاہئیے۔ بیرون ممالک کے اٹھتے ایسے سوالات کے جواب سے قبل ہمارے وزیر خارجہ کو یہ بات سمجھنی چاہئے کہ آخر اس ملک میں ایسا کیا ہو رہا ہے کہ اقوام متحدہ ، امریکہ اور جرمنی وغیرہ کو ایسے بیانات دینے پر مجبور ہونا پڑا ؟
گزشتہ 10 برسوں میں ملک کے مسلمانوں کے ساتھ جس طرح آمرانہ ، ظالمانہ ، جابرانہ، وحشیانہ سلوک روا رکھا گیا وہ بلا شبہ حد درجہ تشویشناک اورپریشان کن ہے اور ان دس برسوں میں بلا شبہ ملک کے مسلمانوں نے بڑے صبر و ضبط اور تحمل کا مظاہرہ کیا ہے بلکہ یوں کہا جائے کہ ملک کے مسلمانوں نے ہمیشہ دفاعی پوزیشن اختیار کیا ہے کبھی بھی جارح یا حملہ آ ور نہیں ہوئے۔ بد سے بدتر حالات میں بھی مسلمانوں نے صبر و تحمل کا دامن نہیں چھوڑا۔ملک کے مسلمانوں کے ساتھ ہر طرح سے حکومت اور اس کے واضح اشاروں پر سیاسی ، سماجی ، معاشی ، اقتصادی ، تعلیمی اور صنعتی طور پر کمزور ، بے وقعت کئے جانے کی دانستہ کوششیں کی گئیں۔ رام مندر، لو جہاد، گھر واپسی، گئو مانس ، گئو رکشا، جے شری رام، وندے ماترم ، 370 کا خاتمہ ، طلاق ثلاثہ، مسلم پرسنل لاء، شہریت ترمیمی قانون، یونیفارم سول کوڈ اورحجاب وغیرہ کے نام پر مسلسل مسلمانوں کو نہ صرف خوف و دہشت میں مبتلا کیا گیا بلکہ بات بات پر انھیں اور ان کے اسلام مذہب کو مغلظات سے نوازا گیا،کھلی جگہوں پر نماز کی ادائیگی میں زدوکوب کیا گیا، سجدے کی حالت میں جوتوں سے ٹھوکریں ماری گئیں اور ہماری خاموشی اور ہمارے صبر وتحمل کو ہماری کمزوری تصور کیا گیا ، جو کہ پوری طرح غلط ہے ۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ ہم مسلمان اپنی ذلالت و رسوائیوں کاخون کے گھونٹ پیتے رہے ۔ فرقہ پرست اور متعصب حکومت دراصل ’مسلم مکت بھارت ‘ کا نعرہ دے کر اسے شرمندہ تعبیرکرنے کی کوشش کر رہی ہے اور وہ ملک کی اکثریت کو یہ تاثر دینا چاہتی ہے کہ تقسیم ہند کے بعد یہاں کے مسلمانوں نے اپنا مسلم ملک حاصل کر لیا ہے اس لئے انھیں یہاںر ہنے کا حق نہیں ہے ۔ اب دیکھئے کہ آسام کے وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا سرما بھی دعویٰ کرتا ہے کہ وہ تین دنوں میں گوہا ٹی کو میاں مسلموں سے خالی کرا دیںگے، جس کے جواب میں آل انڈیا ڈیموکریٹک فرنٹ کے صدر بدرالدین اجمل نے جواب دیاتھا کہ میاں مسلموں کو تین سال کیا تین سو سال میں بھی ہٹانا ممکن نہیں ہے ۔ ویسے اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتے ہیں کہ دن بدن ملک میں مسلمانوں کے لئے زمین تنگ کرنے کی عملی کوششیں اب شدت اختیات کرتی جا رہی ہیں۔ یہ ہیمنت بسوا سرما ہو، یا یتی نرسمہا ہو یا پرگیا سنگھ یا یوگی ہو،ان جیسے سینکڑوں بد زبان اور متعصب اور منافرت پھیلانے والے لوگ یا پھر فرقہ پرست تنظیمیں مثلاً بجرنگ دل ، شیو سینا ( شنڈے گروپ )، وشو ہندو پریشد ، درگا واہنی، ہندوستانی یووا ہندو دل، رام سینا ، رام چرتر سینا، ہندو ویراٹھ سینا، ہندو یووا جاگرن منچ، ہندو سینا، اکھنڈ بھارت سمیتی، ہندو جاگرن سمیتی وغیرہ ایسی باتیں یونہی نہیں کہتے بلکہ مسلمانوں کو اشتعال دلانے کے لئے اور اکثریت سے متنفر کرنے کے لئے ایک ایجنڈہ کے تحت کہتے ہیں۔
ایسے مشکل، سخت اور ناگفتہ بہ حالات میں اگر ہم اب بھی انفرادی اور اجتماعی طور پر سیاسی بصیرت کا مظاہرہ نہیں کرتے ہیں تو پھر یہ یقین رکھیں کہ ہماری داستاں تک نہ ہوگی داستانوں میں ۔ اس لئے ضرورت ہے کہ اس انتخاب میں ہندوستان کے مسلمان وقت اور حالات کے تقاضوں کو بہت سنجیدگی سے سمجھیں اور ہمّت، حوصلے، جرأت کے ساتھ نامساعد حالات کے تدارک اور مصائب کے سدّباب کے لئے اپنے سیاسی شعور ،فہم و فراست، دانشورانہ ، عالمانہ ، مدبرانہ حکمت عملی کا مظاہرہ کر تے ہوئے ملک کے آئین میں دئے گئے اقلیتوں کے حقوق کو حاصل کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں ۔ ہم اس وقت بھی بلا شبہ اس پوزیشن میں ہیں کہ اگر ہم اپنے قیمتی ووٹوں کی قدر و قیمت کو بخوبی سمجھیں اور ان کا بھرپور استعمال کریں تو یقینی طور پر ہماری حیثیت کنگ کی نہیں تو کنگ میکر کی ضرور ہو سکتی ہے ۔اس لئے کہ ملک میں ہم دوسری بڑی اکثریت ہیں اور ہم ملک کے طول و عرض میں اپنی آبادی پر ایک طائرانہ نظر ڈالیں تو دیکھیں گے کہ ملک کے پارلیمنٹ کی تقریباً ایک سو ایسی سیٹیں ہیں جہاں مسلمانوں کی قابل قدر اور فیصلہ کن آبادی ہے ۔ملک کی 65 پارلیمانی سیٹیں تو ایسی ہیں جہاں مسلمانوں کی تعداد اوسطاََ 35 فیصد سے بھی زیادہ ہے ۔ان پارلیمانی سیٹوں میں صرف اتر پردیش میں 14 سیٹیں ہیں ، اسی طرح بنگال میں 13 سیٹیں، جموں و کشمیر میں 5 ، کیرل میں 8 ، بہار میں 4 ، آسام میں 7 ، مدھیہ پردیش میں 3 ، تلنگانہ میں 2 ، ہریانہ میں 2 ، تامل ناڈو میں 1 ، دہلی میں 2 ، مہاراشٹر میں 2 ، گوا میں 2سیٹیں ہیں۔ اب دیکھئے کہ 2011 کی مردم شماری کے مطابق ملک میں مسلمانوں کی کل آبادی 14 فیصد مانا گیا ہے ۔
اگر ہم اس اعداد و شمار کو اس وقت تسلیم بھی کر لیں تو بھی اس تناسب سے لوک سبھا میں ہماری کم از کم 64 مسلم ممبر پارلیمنٹ کی نمائندگی ہونی چاہئے ، لیکن افسوس کہ ہماری ناعاقبت اندیشی ، انتشار، عدم اتحاد و اتفاق اور سیاسی بصیرت کی کمی نیز بعض دوست نما دشمنوں کی مفاد پرستی اور عین انتخاب کے وقت برساتی سیاسی مینڈکوں کے سیاسی مفادات کے باعث مسلم ممبر پارلیمنٹ کی تعداد گھٹ کر 4 فیصد سے بھی کم ہو گئی ہے ۔ ایک وقت تھا کہ جب ملک کے پارلیمنٹ میں ہماری تعداد 49 (1980 ) تک تھی جواب گھٹ کر 22 (2014 ) اور 27 ( 2019 ) تک پہنچ گئی ہے ۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو ہمیں یہ سمجھنے میں دیر نہیں لگتی ہے کہ ملک کے مسلمانوں کی پامالی یا انھیں حاشیہ پر ڈالنے کی کوشش اس لئے بھی کامیاب ہو رہی ہے کیونکہ پارلیمنٹ اور ریاستی اسمبلیوں میں ہمارے مسلم نمائندوں کی سخت کمی واقع ہو رہی ہے جس کی وجہ سے ملک کے مسلمانوں کے مصائب اور مسائل پر سوال نہیں اٹھائے جاتے ہیں۔اس لئے ان کے مسائل اور مصائب میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم پارلیمنٹ میں اپنی خاطر خواہ یا اپنی آبادی کے تناسب میں نمائندے کس طرح بھیجیں ۔ اس کے لئے یہ ضرور ہے کہ ہم صرف اپنے بوتے پر پارلیمنٹ میں اپنی تعداد نہیں بڑھا سکتے ہیں بلکہ ا س کے لئے ہمیں ہر حال میں ملک کی سیکولر پارٹیوں سے اتحاد واشتراک ضروری ہے ۔ ہم اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتے ہیں کہ ملک کی تقریباً ہر سیاسی پارٹی کو مسلمانوں کے ووٹوں کی ضرورت ہے یہاں تک کہ بی جے پی بھی مسلمانوں سے ہر طرح کی دشمنی کے باوجود خواہش رکھتی ہے کہ اسے مسلم ووٹ ملے ۔
یہی وجہ ہے کہ بی جے پی نے مسلمانوں سے شدیدنفرت کے باوجود اب تک کی اطلاع کے مطابق کیرالہ میں ایم عبدالسلام ، مغربی بنگال سے سومترا خان اور جموں سے غلام علی کھٹالہ کو ٹکٹ دیا ہے ۔ بی جے پی کی ہمنوائی کرنے والوں میں ایسے نام نہاد مسلمانوں کی بھی کمی نہیں ہے جو اپنے سیاسی اور ذاتی مفادات کے لئے بی جے پی اور بی جے پی کے لیڈران کی ’’مسلم دوستی‘‘ کی باتیں بڑی بے شرمی سے کرتے نظر آتے ہیں ۔ ان میں جو چند نام اس وقت ذہن میں آ رہے ہیں وہ ہیں سید شہنواز حسین ، مختار عباس نقوی ، ایم جے اکبر ، ظفر الاسلام ، دانش آزاد انصاری ، محسن رضا ، عارف محمد خاں ، امام عمر احمد الیاسی، طارق منصور وغیرہ۔سیاسی طور پر حاشیہ پر ڈالے جانے کے باوجود مختار عباس نقوی اور سید شہنواز حسین وغیرہ جیسے لوگ مسلسل ملک کے مسلمانوں کے ساتھ دغاکر رہے ہیں اور یہ کہتے نظر آ رہے ہیںکہ ’مودی اور بی جے پی کی طرف ملک بھر کی مسلم کمیونٹی میں زبردست جھکاؤ ہے‘۔افسوس کہ اب اسی صف میں جنتا دل(یو) یعنی نیتش کمار کی سربراہی میں چلنے والی اور خاصی متنازعہ سیاسی پارٹی کے ایک’’ مسلم لیڈر‘‘ خالد انور جو نتیش کمار کی مہربانی سے قانون ساز کاؤنسل کے ممبر بھی ہیں ۔
انھوں نے تو چاپلوسی کی انتہا کر دی کہ نیتش کمار کی کامیابی کے لئے ایک جھوٹا اور بے بنیاد بیان دے کر امارت شرعیہ ، جمعیۃ علما، آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ ، کئی خانقاہ اور ملّی تنظیموں کی ساکھ کو بھی نقصان پہنچانے میں کوئی عار نہیں محسوس کیا اور ان مسلم تنظیموں کی جانب سے این ڈی اے اور جے ڈی یو کی حمایت کا بیان دے دیا ۔ جس کے جواب میں ان ساری تنظیموں نے اس بیان کو مسترد کرتے ہوئے ان کے اس اقدام کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کی ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسے ہی لوگ دراصل ہماری آستین کے سانپ ہیں اور اس وقت پورے ملک کے مسلم علاقوں میں ایسے سانپ طرح طرح کے روپ میں نظر آ رہے ہیں ،جو مسلم ووٹوں کے بکھراؤ کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ اس لئے ہمیں ایسے دوست نما مسلم دشمنوں کو پہچاننے اوران سے بچ کر رہنے کی ضرورت ہے،ورنہ ہم اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو پائیں گے۔
(کالم نگار سینئر صحافی اور معروف ادیب ہیں)
[email protected]